چینی چاند رات کی داستان

کروڑوں چینی باشندے ہوائی جہازوں‘ برق رفتار بلٹ یا عام ٹرینوں‘ بسوں‘ ویگنوں‘ گاڑیوںاور موٹر سائیکلوں کا سفر کر کے دور دراز اپنے آبائی علاقوں میں پہنچ چکے ہیں۔ سفر کی طوالت بھی کوئی معمولی نہیں۔ سمجھیں‘ کوئٹہ سے کلکتہ یا پشاور سے تہران جتنا فاصلہ طے کرلینا ایک عام سی بات ہے لیکن چونکہ ملک ایک ہی ہے اس لئے شاید کسی سرحد کو پار کرنے کی نفسیاتی رکاوٹ نہ ہونے کے سبب یہ سفر قابل برداشت ٹھہرتا ہے۔اب اتوار سات فروری کی شام کا سورج ڈھل رہاہے اور سرخ آرائشی لالٹینوں سے سجے چھوٹے بڑے گھروں کے باورچی خانوں میں بھاپ اڑنا شروع ہوچکی ہے ‘ میدے اور آٹے کے ملاپ سے بنی چھوٹی ٹکیوں میں ابلی ہوئی سبزیوں یا گوشت کا پیسٹ بھر کر 'جیائو زی‘ یعنی چینی ڈمپلنگز ابالنے کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں۔ بطخ کو روسٹ کرنے کا کام بھی آخری مرحلے میں ہے اور چاول کے بنے کیکس بچوں کے لئے تیار ہو رہے ہیں۔ مختلف طریقوں سے مچھلیوں کو بھی تیار کیا گیا ہے جن کے سر سلامت رہنے دئیے گئے ہیں‘ یہ ڈش اس لئے بھی اہم ہے کہ روایتی طور پر خوشحالی اور خوش بختی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ ایک خاص طرح کے نوڈلز بھی تیار ہو رہے ہیں جس میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ یہ ایک طویل لڑی کی طرح ہوں اور درمیان سے ٹوٹنے نہ پائیں۔ اس ڈش کو طویل عمری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ تحائف کا لین دین مکمل ہو چکا ہے اور بچوں کو سرخ لفافوں میں ایک معقول رقم کی عیدی دی جا چکی ہے۔آتش بازی کا سامان بھی سیٹ ہو چکا ہے جس کا زیادہ استعمال رات بارہ بجنے کے قریب ہوگا۔ سرخ انگور کی شراب یعنی 'ہونگ پھو تھائو جیو‘ کی بوتلیں بھی اس ڈنر کا حصہ ہیں جو چینی باشندوں کے لئے سال بھر کی سب سے خصوصی دعوت ہوتی ہے۔ ایک طویل وقفے کے بعد ملنے والے خاندانوں کے پاس باتیں کرنے کو بہت کچھ ہے اور اس شاندار ضیافت کے پس منظر میں تقریباً ہر گھر کے ٹی وی سیٹ پر نئے سال کی نشریات کا براہ راست شو بھی سنا اور دیکھا جا سکتا ہے۔ رات بارہ بجے کے بعد تک جاری رہنا والا یہ شو دنیا کی سب سے بڑی لائیو ٹرانسمیشن ہے جس میں ہزاروں لوگوں کی پرفارمنسزگھنٹوں جاری رہنی ہیں۔ٹی وی کے لئے کئی برس کام کرنے کے باعث میں اس شو کی رقص و مو سیقی‘ مزاحیہ سٹیج خاکے‘چین بھر کے کلچر کی نمائندگی‘زرق برق ملبوسات میں موجود درجنوں میزبانوں کو دیکھ کر حقیقتاً دانتوں میں انگلیاں دبائے بیٹھا ہوں کہ اتنے بڑے پیمانے پر لمحہ بہ لمحہ کے حساب سے جاری یہ پروگرام کس طرح ممکن ہو گیا ہے۔اتنا بڑا‘ مسحور کن اورمنظم ٹیم ورک جذبات کو مغلوب کر دینے والا (Overwhelming)ہے اور اسٹوڈیو کے عظیم الشان ہال میں موجود لوگوں سمیت کم ازکم چالیس‘ پچاس کروڑ ناظرین ملک کے طول وعرض میں اس پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔
خاندانوں کے روایتی ڈنر کا آغاز سر شام ہی ہو چکا ہے کہ اس ملک میں تو رات نو بجے تک بیشتر ریسٹورنٹس بھی اپنے برتن سمیٹنا شروع کردیتے ہیں‘ لیکن بہرحال آج کی رات جلدی سمٹنے والی نہیں ہے اور کل کسی کو صبح جلدی اٹھنے کی فکر نہیں۔ گفتگو کے موضوعات ہر گھر کی صور تحال کے مطابق ہیں سب سے کڑا وقت غیر شادی شدہ لوگوںپر ہے جن کے والدین کا سب سے اہم اور مستقل موضوع ان کی شادیاں ہیں ‘ تمام تر وضاحتوں کے باوجود والدین اس بات پر ْمصر ہیں کہ ان کی شادی میں تاخیر ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے یہ والدین اکثر بے رحمی کی حد تک اپنی اولادوںسے بحث کر رہے ہیں مثلاً یہی کہ یہ نوجوان خصوصاً لڑکیاں اگر شادی نہیں کرتیں تو جلد ہی ان بچی کچھی سبزیوں کی طرح ہو جائیں گی جو دن ڈھلنے پر باسی لگتی ہیں‘لڑکوں پر بھی کوئی خاص رحم نہیں اور انہیں شاید یہ بھی یاد دلایا جا رہا ہے کہ اس ملک میں شادی کے قابل لڑکیاں تعداد میں مردوں سے تقریباً تین کروڑ کم پائی جاتی ہیں اس لئے زیادہ تاخیر یا نخروں کی گنجائش نہیں ہے۔ اس موضوع کی شدت کے پیش نظر منچلے کنوارے اور کنواریوں کے ایک گروپ نے اس سال چندہ اکھٹا کر کے ایک اشتہار تک بیجنگ کے 'دونگ چی من ‘میٹرو اسٹیشن پر لگوا دیا ہے کہ' پیارے امی اور ابو‘ میرے بارے میں پریشان نہ ہوں ۔دنیا بہت بڑی ہے اور جینے کے بہت سارے ڈھنگ ہیں۔کنوارے پن کی زندگی بھی خوشیوں سے بھر پور ہو سکتی ہے‘۔
جن گھرانوں کے بچے شادی شدہ ہیں وہاں باپ بیٹے میں بہتر آمدنی کے مواقع یا گھر کو درکار مرمت پر بات چیت چل رہی ہے تو دادی اپنے پوتے یا پوتی کی ناقص پرورش پر فکر مند نظر آتی ہے چاہے وہ کتنے ہی صحت مند لگ رہے ہوں۔ اس گھرانے کی بہو کھانا لگاتے ہوئے دبی ہوئی ناراضگی سے اپنے شوہر کو دیکھ رہی ہے کہ یہ ٹوٹکے آخر کب تک سننے پڑیں گے‘ نوکری بھی کرو بچہ بھی پالو اور پھر یہ سب باتیں بھی سنو۔ عام طور پر شادی شدہ جوڑے ایک رات قبل لڑکی کے والدین کے ہاں ڈنر کرلیتے ہیں جہاں عین ممکن ہے کہ یہی شوہر اپنے سسر یا ساس کی طرف سے بتائے جانے والے ان قصوں پر جز بز ہو رہا ہو کہ کس طرح ان کی بیٹی کے علاوہ سب ہی دولت مند ہوتے جا رہے ہیںـ۔ اس موقع پر آپ کو یہ لگ رہا ہو گا کہ یہ تو پاکستان کے قصے چین پر لگا کر سنائے جا رہے ہیں تو یقین جانیں یہاں شکلوں اور زبان کے فرق کے علاوہ معاملہ اس کے قریب تر ہی ہے ۔خاندان والوں اور بزرگوں کی دلچسپی صرف چبھتے سوالات تک ہی نہیں ہوتی بلکہ وہ زندگی کے ہر مر حلے پر اپنی اولاد اور خاندان کی بھرپورمدد بھی کرتے ہیں۔یہاں شاندار تعلیمی کیریئر کا سب سے اہم مرحلہ یونیورسٹیوں میں داخلے کا قومی سطح پر ایک امتحان ہوتا ہے اور اس موقعے پر لاکھوں والدین کی بے چینی دیدنی ہوتی ہے جو امتحان گاہوں کے باہر گھنٹوں تپتی دھوپ یا برستی بارش کی پروا کئے بغیر کھڑے رہتے ہیں۔
ماضی کے کمیونسٹ دور کی ہتھوڑی تھی یا موجودہ آزاد معیشت کی میٹھی چھری ہودونوں نے سب سے بڑی قربانی خاندانوں کی تقسیم کی صورت میں لی ہے۔ ملک بھر میں بکھرے مہاجر ورکرز اپنی اولادیں اپنے والدین پر چھو ڑ آتے ہیں کہ معاشی طور پر ایک جگہ رہنا ممکن ہی نہیں رہا ہے لیکن اس تمام سوشل انجینئرنگ کے باوجود چینی آج بھی اپنے خمیر میں رچے بسے خاندان اور رشتوں کی اہمیت سے نکل نہیں پائے ۔ چینی ٹی وی کی اس سال کی خصوصی نشریات میں ایک گانا نشر ہو اجس کے گلوکار باپ اور بیٹے کی شکل میں ایک مکالمہ کر تے ہیں اور پیچھے لگی دیو قامت اسکرین پر ڈیجیٹل کردار وں کے ذریعے اس کہانی کو سمجھایا جا رہا ہے ۔ گانے کے پس منظر والی اسکرین میں باپ بیٹے کا سکول بیگ تھامے اس کے ساتھ چل رہا ہے اور پھر وہی بیٹا جوان ہو کراپنے باپ کی لاٹھی تھامے اسے چلنے میں مدد دے رہا ہے۔ اس گانے کے بول اور مناظر سے خاندان کی اہمیت اور رشتوں کو سمجھایا جا رہا ہے جو موجودہ نسل میں انفرادیت پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو کنٹرول کرنے کی ایک کوشش ہے۔
نئے سال کے اس روایتی گھریلو ڈنرکے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں خوشحال باشندوں کا ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو ان ایک ہفتے کی چھٹیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بیرون ملک سیر وتفر یح کے لئے نکل کھڑا ہوا ہے۔ اس وقت جاپان‘ کوریا‘ ملائیشیا‘ تھائی لینڈ ‘ سنگاپور سمیت آس پاس کے ممالک حتیٰ کے یورپ اور امریکہ تک کے معروف تفریحی مقامات اور شاپنگ سینٹرز میں چینی سیاحوںکے غول ملیں گے‘ اس مالدار طبقے کے علاوہ نوجوان پروفیشنلز کے چند ایک گروپس بھی گھروں کا رخ کرنے اور ماں باپ سمیت دیگر رشتہ داروںکے سوالات سے بچنے کے لئے بیرون ملک سیر وتفریح کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس مخصوص طبقے سے قطع نظرچینی نیا سال جگہ جگہ بکھرے چینی خاندانوں کو ملنے اور جڑنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور کروڑوں محنت کش سال بھر کی مشقت کے بعد ایک طویل سفر کر کے اپنوں سے ملنے جاتے ہیں کچھ اپنی سناتے ہیں کچھ دوسروں کی سنتے ہیں ‘جی بھر کر کھاتے ہیں‘ ملتے ملاتے ‘ پیتے پلاتے ہیں اور آنے والے دنوں کی جدوجہد کے لئے اپنے آپ کو پھر سے تیار کرتے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں