اصل قصہ چین کی دو کامیاب ترین کاروباری خواتین کا سنانا ہے لیکن پہلے اسی تناظر میں عام چینی ورکنگ وومین کے بارے میں چند ایک باتیں گوش گزار کردوں۔چین میں رہتے ہوئے ہر جگہ خواتین کو کام کرتے ہوئے دیکھنا ایک بہت عام سی بات ہے۔فلیٹ سے نکل کر لفٹ کی طرف جاتے ہوئے صبح اور واپسی پر شام کو دو عورتیں تندہی سے فرش کو چمکانے میں مصروف ہوتی ہیں۔ان کی روٹین اتنی طے شدہ ہے کہ آپ کو کبھی ناقص صفائی کی شکایت نہیں ہوتی البتہ گزشتہ تین برسوں میں دو یا تین بار ایسا ہوا ہے کہ ہماری بلڈنگ میں مکین لوگوں کے بعض شرارتی کتوں نے لفٹ میں وہ کر دیا تھا ‘جو فوراً صاف ہونے کے باوجود بھی اپنی بُو چھوڑگیا۔ جب ہم نے اس طرف توجہ دلائی تو منٹوں میں سپرے ہو چکا تھا۔ اس کے علاوہ گرمی‘سردی ‘بہار‘خزاں بمشکل ہی کوئی شکوہ رہا ہو۔ یہ سارا حسن انتظام بھی ہمارے پورے رہائشی کمپائونڈ کی خاتون منیجر کے باعث ہے جو دو سو بیس اپارٹمنٹس کی آٹھ عمارتوں اور تیس گھروں کی ذمہ دارہے۔ سکیورٹی گارڈز‘ صفائی‘ باغبانی اور عام مرمت کے عملے کی انچارج یہ خاتون مقامی یا غیر ملکی ہر طرح کے کرائے داروں اور مکان مالکان کی ضروریات کا خیال رکھتی ہے ۔ہمیں جب بھی کوئی کام درپیش ہوتا ہے ایک پیغام اس کے موبائل پر چھوڑ کر بے فکر ہو جاتے ہیں، بلکہ ایک بار تو اس نے جوابی پیغام یہ دیا کہ میں چھٹیوں پر بیرون ملک ہوں البتہ آفس میں بتا دیا ہے اور پلمبر آدھے گھنٹے میں پہنچ جائے گا۔ تھوڑی شرمندگی ہوئی کہ بے چاری کو تنگ کیا لیکن کیا کرتے مینجمنٹ کے آفس کا رخ کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی۔جس مارکیٹ کی مخصوص دکان سے کپڑے سلواتے ہیں وہاں موجود خاتون سے پہلی بار پوچھا کہ کس وقت اپنا جوڑا آکر لے سکتے ہیں تو اس نے کہا: ہفتے کے کسی بھی دن کام کے اوقات میں آجائیں۔ جس جملے کی بازگشت ابھی تک سنائی دیتی ہے وہ یہ تھا کہ"I am always here, every day"
ان عام محنتی عورتوں کے بعد اب آجاتے ہیں دو منتخب خواتین کی طرف۔سب سے پہلے 'چو ْچھن فئیی‘(Zhou Qunfei) کا ذکر کر لیتے ہیں جو اس وقت چین کی سب سے مالدار کاروباری خاتون ہیں۔ 46 سالہ یہ خاتون میڈیا کی چکاچوند سے دور ہی رہتیں اگر گزشتہ برس ان کی کمپنی' شن چن‘ شہر کی سٹاک مارکیٹ میں آنے کے بعد دس ارب ڈالر سے زائد ویلیو رکھنے والی کمپنی نہ قرار پاتی ۔ سمارٹ فونز اور ٹیبلٹس میں استعمال ہونے والی جادوئی سکرین سے تو اکثر کو واقفیت ہو گی تو بس یہ سمجھ لیں کہ دنیا بھر میں موجود ان سکرینوںکی کل تعداد میں سے پچیس سے تیس فیصد تک کی سپلائی ان کے ادارے کی فیکٹریوں سے ہوتی ہے۔ ان کے کلائنٹس میں ایپل(Apple) ‘سام سنگ (Samsung) اور ہو ا وئیی (Huawei) جیسی بڑی اور مشہور کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ 'چو ْچھن فئیی‘ کی کامیابی کے سفر کی داستان سننے سے تعلق رکھتی ہے ۔ چینی صوبے ہونان سے تعلق رکھنے والی یہ خاتون اپنے تین بہن بھائیوںمیں سب سے چھوٹی ہیں۔والد فوج سے ریٹائرڈ سپاہی تھے اور ایک حادثے کے نتیجے میں اپنی آنکھیں کھو بیٹھے تھے۔ بانسوں کی مدد سے کرسیاںوغیرہ بن کر گزارا کرتے تھے ۔ جب یہ پانچ برس کی تھیں تو والدہ کا انتقال ہوگیا اور بمشکل پندرہ برس کی عمر میں انہیں تعلیم چھوڑ کر کام کی تلاش میں نکلنا پڑا۔ یہ1980ء کی دہائی کا وسط تھا جب چین میں صنعتی اصلاحات کے باعث لاکھوں لوگ مزدوری کے لئے نئے صنعتی زو نز کا رخ کر رہے تھے۔چو چھن فئیی بھی ان مہاجر ورکرز کی بھیڑ میں ' شن چن‘ شہر پہنچ گئیں ۔یہاں اس نوعمر لڑکی کو گھڑیوںکے لئے شیشے تیار کرنے والی ایک فیکٹری میں مزدوری مل گئی، جہاں یہ فیکٹری فلور پر سارا دن کام کر کے اسی سے منسلک ایک خستہ حال ہوسٹل میں رہتی تھی۔رہائشی کمرے اتنے تنگ تھے کے دو لوگ آمنے سامنے سے گزر نہیں پاتے۔اس وقت کو یاد کرتے ہوئے یہ مذاقاً کہتی ہیں کہ اچھا ہوا اس وقت میں بہت دبلی ہوتی تھی۔یہ چین کی ترقی کا تاریخی لیکن کٹھن دور تھا اور کئی برس تک فیکٹری میں کام کرنے اور اچھی طرح سیکھنے کے بعد انہوںنے اپنی بچت سے ایک چھو ٹا سا یونٹ کھول لیا۔ برسوں کی مشقت اور مسلسل معیار بہتر کرنے کے بعد 2003ء میں بالآخر انہیں بڑی کامیابی اس وقت ملی جب اس دور کی موبائل جائنٹ کمپنی 'موٹرولا‘ ایک ایسی سکرین کی تلاش میں تھی جس پر خراشیں نہ آسکیں۔ ان خاتون کی فیکٹری اس وقت تک اپنے کام میں اتنی بہتر ہو چکی تھی کہ اس نے یہ چیلنج قبول کرلیا اور موٹرولا کا نیا فون پوری دنیا میں ایک کروڑ تیس لاکھ تک کی تعداد میں فروخت ہو ا۔اس کامیابی کے بعد ان کی کمپنی (Lens Technology)نے پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اورآج بتیس فیکٹریوں میں نوے ہزار سے زیادہ لوگ کام کر رہے ہیں۔ آج بھی یہ خاتون سولہ سے اٹھارہ گھنٹے کام کرتی ہیں اور کام کی کثرت کے باعث آفس میں ہی سونے ‘رہنے اور کھانے کا انتظام بھی ہے ۔ وہ اپنے خاندان خصوصاً شوہر، جو خود بھی ان کے ساتھ ہی کام کرتے ہیں اور اپنی اولاد کی قربانیوں کو بھی سراہتی ہیں ‘جن کے تعاون کے بغیر ان کا اپنی کمپنی کو اتنا وقت دینا ممکن نہ ہو پاتا۔
دوسری کامیاب اور مالدار کاروباری خاتون کا ابتدائی نام بھی 'چو‘ (Zhou) سے ہی شروع ہوتا ہے اور مکمل نام ' چو شیائو گوانگ ‘ ہے۔پچاس برس سے اوپر یہ خاتون دنیا کی سب سے بڑی کاسٹیوم جیولری کی کمپنی ' نیو گلوری‘ (Neoglory) کی مالکہ ہیں ۔ ان کی داستان بھی زیادہ مختلف نہیں۔ایک چھوٹے‘دشوار گزار پہاڑی علاقے سے تعلق رکھنے والی یہ خاتون، جو آج میڈم چو کے نام سے معروف ہیں، سولہ برس کی عمر میں بسوں اور ٹرینوں پر سلائی کرنے والی سوئیاں اور معمولی زیورات کا سامان فروخت کرتی تھیں۔کافی عرصے تک یہ رات کی ٹرین یا بس سٹیشن پر سوتی اور دن میں انہی پر سامان بیچتی۔ 1985ء میں اپنے شوہر کے ساتھ مل کر عام زیورات کی ہول سیل دکان ای وو (Yiwu) نام کے شہر میں کھولی‘یہ شہر چین میں ہول سیل مارکیٹ کا سب سے بڑا مرکز سمجھا جاتا ہے ۔ دس سال بعد انہوں نے ان زیورات کی مینو فیکچرنگ کا کام شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا میں اس کی سب سے بڑی سپلائر بن گئیں۔ سستے زیورات سے شروع ہونے والا یہ ادارہ آج سوا روسکی (Swarovski) جیسے نفیس زیورات بنانے والے مارکیٹ لیڈرز کے ساتھ کام کر رہا ہے۔'میڈم چو شیائو گوانگ‘ نے زیورات کے علاوہ ہو ٹلز‘چاولوں کے فارمزاور آئل انڈسٹری میں بھی بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ ان کی کمپنی کا ایک لگژری ہوٹل کیوبا کے دارالحکومت ہوانا میں زیر تعمیر ہے۔ جب چین کے صدر نے کیوبا کا دورہ کیا تو یہ خاتون ان کے کاروباری وفد کا حصہ تھیں۔آج بھی یہ اپنے قریبی رشتہ داروں کے ہمراہ ایک بڑے سے گھر میں رہتی ہیں جو ان کے ہیڈ آفس کی اوپری منزل پر ہی ہے اور تیس افراد تک کا خاندان اکثر رات کا کھانا اکٹھے کھاتا ہے۔بقول میڈم ' چو شیائو شنگ‘ بچپن میں وہ اپنے والد کے ساتھ لکڑیاں‘چارہ اکٹھا کرتیں‘کچے اور کیچڑ بھرے راستوں سے گزر کر پہاڑوں پر چڑھتیں اور زمین سے شکرقندی نکال کر اپنے کندھوں پر لاد کر لاتی تھیں۔ آج یہ دنیا بھر میں گھومتیں اور سرمایہ کاری کرتی ہیں۔ کمپنی کے 51 فیصد شیئرز ان کے پاس اور 49 فیصد ان کے شوہر کے پاس ہیں اور دونوں میاں بیوی اپنے شاندار دفتر میں بیٹھ کر بہترین کیوبن سگاروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ چین کے بانی مائو زے تنگ کے افکار میں سے اب شاید ہی کچھ موجودہ چین میں دکھائی دے لیکن آج سے 67 برس قبل کمیونسٹ چین کی بنیاد رکھتے ہوئے عورتوں کی قربانیوں اور سخت جانی پر انہوں نے ایک تاریخی فقرہ کہا تھا کہ"Women hold up half the sky"جس کو ان عورتوں نے سو فیصد درست ثابت کر دکھایا ہے اور وہ بھی اس معاشرے میں جہاں ابھی تک مردوں کی برتری کا روایتی تصور برقرار ہے۔