چین میں پورے سال کے دوران دو ہی مواقع ہوتے ہیں جب بیک وقت ایک ہفتے تک کی چھٹیاں مل جاتی ہیں۔ پہلا‘ فروری میں نئے چینی سال کے موقع پر اور دوسرا موقع‘ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں چین کے قومی دن کے موقع پر ملنے والی تعطیلات ہوتی ہیں۔ نئے چینی سال کی چھٹیوں میں سیر و تفریح کے لئے نکلنے کا مطلب ہے ایک موٹی رقم سے ہاتھ دھو لئے جائیں۔ اس برس بھی ہم مختلف ویب سائٹوں پر بیٹھے کرائے اور سفر کے اخراجات کی گنتی میں ہی لگے رہے‘ اور چھٹیوں کا پورا ہفتہ گھر یا قریبی بازار سے آلو‘ ٹماٹر لانے میں گزر گیا۔ چند جاننے والوں نے ان چھٹیوں کو چین سے باہر گزار کر ہمارے حسد کو احساس کمتری میں بدل ڈالا کہ وہ زیادہ متمول ہیں‘ یا پھر پورا سال ان چھٹیوں میں سیر و تفریح کے لئے ہوشیاری سے بچت کرتے یعنی کم آلو اور ٹماٹر خریدتے ہیں۔ بہرحال 'خدا کے ہاں دیر ہیں اندھیر نہیں‘ کے مصداق ہم غریبوں کی بھی سن لی گئی اور گزرے ویک اینڈ پر خوش قسمتی سے مشرقی چین کے ایک نمایاں‘ دلکش اور مالدار شہر ' نانجنگ‘ کا چکر لگ ہی گیا۔ شنگھائی سے تقریباً تین سو کلومیٹر کی مسافت پر واقع یہ شہر جیانگ سو صوبے کا دارالحکومت تو ہے ہی‘ مختلف ادوار میں طویل عرصے تک مختلف ادوار میں اسے چین کا دارالحکومت ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔ چینی زبان میں 'نان‘ کا مطلب جنوب اور 'بئی‘ کا مطلب شمال ہوتا ہے جبکہ 'ِجنگ‘ دارالحکومت کو کہتے ہیں۔ اب ذرا اچھے بچوں کی طرح ہم نان کے آگے 'ِجنگ‘ لگا کر نانجنگ اور بئی کے آگے 'ِجنگ‘ لگا کر ' بیجنگ‘ کہیں تو کچھ نہ کچھ سمجھ آ ہی جائے گا۔ اسے آپ چینی زبان کا ابتدائی قاعدہ سمجھ کر رٹ لیں۔
شنگھائی سے نانجنگ کے سفر میں اطراف کے مناظر تقریباً ویسے ہی تھے‘ جیسے لاہور سے سرگودھا لے جانے والے بھیرہ انٹرچینج تک موٹر وے کے سفر میں نظر آتے ہیں‘ یعنی دونوں اطراف پھیلا ہوا سبزہ اور کھیت؛ البتہ چند معمولی فرق یہ ہیں کہ یہاں اس سفر میں چھوٹی دریا نما نہریں کثرت سے ملتی ہیں اور ہر پندرہ بیس منٹ بعد اطراف میں بلند و بالا عمارات کے سلسلے اور متاثر کن حد تک بڑی فیکٹریاں بھی ہمراہ چلتی رہتی ہیں۔ شہر میں داخلے کے وقت کسی حد تک مارگلہ کی طرز پر سرسبز پہاڑیاں نظر آنا شروع ہو گئیں‘ اور ہم اس مقام پر تعمیر شدہ قدیم دیوار اور مختصر سی سرنگ سے گزرتے ہوئے شہر میں داخل ہو گئے۔ شام ڈھل رہی تھی اور شہر میں ٹریفک کے رش آورز سے گزر کر بالآخر اپنے ہوٹل پہنچ ہی گئے۔ سامان رکھنے کے فوراً بعد بھاگم بھاگ نیچے اترے تاکہ کسی حلال ریسٹورنٹ میں بروقت پہنچ سکیں۔ ڈرائیور مسٹر یان نے اپنے موبائل کے جی پی ایس سسٹم میں سنکیانگ کے ایک مسلم ریسٹورنٹ کا پتہ ڈالا اور گاڑی سڑک پر لاتے ہی نہایت زور سے 'اوہ‘ (چینی انداز میں) کا نعرہ لگایا تو پتہ چلا کہ ' الہ دین‘ نامی یہ ریسٹورنٹ ہمارے ہوٹل کے عقب میں محض تین چار منٹ کے پیدل فاصلے پر واقع ہے۔ الہ دین کے ماحول کا بھی ایک الگ ہی رنگ تھا۔ داخل ہوتے ہی قد آدم سائز کی سنہری صراحی سجی ہوئی تھی اور مختصر سی جگہ پر کرسیاں اور میزیں ایک دوسرے سے ہم آغوش تھیں۔ ہر میز لوگوں سے بھری ہوئی تھی جبکہ روایتی کڑھے ہوئے کرتے پہنے ویٹرز بھاری بھرکم سیخیں‘ سالن کی قابیں اور چاولوں کی تھالیاں اٹھا کر بے حال ہو چکے تھے۔ ایک کونے میں بمشکل تین کرسیاں حاصل کر کے جب ہم نے اردگرد نظر دوڑائی تو یہ جگہ وسط ایشیا‘ ایران اور افغان کا مرکب نظر آ رہی تھی۔ ہلکے فیروزی رنگ کی چھت اور ریلنگ نے ایک عامیانہ سا ماحول دے دیا تھا‘ تو ارد گرد آویزاں پینٹنگز میں سنکیانگ کی خواتین رنگ برنگ پھولوں اور قالینوں کے پس منظر میں اس جگہ کو الہ دین بنانے کی پوری کوشش کر رہیں تھیں۔ سب سے نمایاں چیز چھوٹے سے ہال کے درمیانی گیلری پر لگا بارہ سنگھے کا ایک بڑا سا مصنوعی سر تھا‘ جس کی موجودگی میں سامنے پیش کی جانے والی گوشت اور چربی کی بڑی سیخیں ایک نرالا ہی تاثر پیش کر رہیں تھیں‘ جیسے ابھی موصوف کا شکار کر کے ہمیں تازہ تازہ پیش کیا جا رہا ہو۔ سنکیانگ کا خطہ اپنے مخصوص کلچر‘ مختلف نقوش‘ فارسی رسم الخط سے ملتی جلتی تحریر کے باعث چین کے بقیہ علاقوں سے خاصا منفرد ہے۔
اگلی صبح سب سے پہلے ہم نے نانجنگ شہر کے ایک سرے پر واقع ان پہاڑی علاقوں کا رخ کیا‘ جہاں ریپبلک آف چائنا کے بانی ڈاکٹر سُن یاتھ سن (Sun Yet-Sen) کا عظیم الشان مقبرہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو آپ چین کا علامہ اقبال اور قائد اعظم دونوں سمجھ سکتے ہیں کیونکہ جب 1912ء میں چین سے ہزاروں برس قدیم بادشاہت کا خاتمہ ہوا‘ تو انہوں نے ہی ملک کی پہلی جدید سیاسی جماعت کے رہنما کے طور پر چین کی صدارت سنبھالی تھی۔ اس موقع پر یہ شہر چین کا دارالحکومت قرار پایا‘ اور ہزاروں برس کی بادشاہت کے بعد چین ایک ریپبلک بنا۔ ڈاکٹر سُن کی تاریخی اہمیت کا ہر چینی معترف ہے‘ جنہوں نے اتنے بڑے اور بکھرے ہوئے خطے کو اندرونی چپقلش اور بیرونی مداخلتوں کے باوجود ایک ملک کی شکل دی۔ ان کا مقبرہ نہایت بلندی پر واقع ہے‘ جس تک پہنچنے کے لئے چار سو سے زائد سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں۔ اتوار کی چھٹی کے باعث پہاڑی پر لوگوں کا ایک جم غفیر تھا۔ اسی پہاڑی سلسلے کے دامن میں چند کلومیٹر کے فاصلے پر قدیم چینی بادشاہوں کے مزاروں اور باغات کا ایک سلسلہ بھی ہے‘ جس تک پہنچنے کے لئے ہم نے الیکٹرک کار کا سہارا لیا‘ کیونکہ ڈاکٹر صاحب کے مزار کی بلندی نے سانس پُھلا دی تھی۔ دس چینی یو آن ( ایک سو ساٹھ روپے) فی فرد ٹکٹ لے کر جب ہم قدیم بادشاہوں کی آخری آرام گاہوں تک پہنچے تو مزید ساٹھ یو آن کا ٹکٹ داخلے کے لئے بھی لینا پڑا۔ یہ آخری آرام گاہیں کیا تھیں‘ ایک گارڈن کی طویل راہداری تھی۔ ہر فوٹو‘ جو ہم لینے کی کوشش کرتے‘ لوگوں کے جم غفیر کے باعث گروپ فوٹو کی شکل اختیار کر جاتی۔ اطراف میں چیری کے تازہ کھلے ہوئے پھولوں اور چمکتی دھوپ نے اس رش کے باوجود ماحول کو بے حد حسین کر دیا تھا‘ اور یوں قدیم بادشاہوں کے چھوٹے بڑے مقبرے ایک پکنک سپاٹ کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ حکومت کو سیاحت کی مد میں حاصل ہونے والی خطیر آمدنی کا کچھ کریڈٹ یہاں مدفون حکمرانوں اور ان کے محنت کش کاریگروں کو بھی دیا جا سکتا ہے۔
اس مقام کے علاوہ اسی لاکھ سے زیادہ آبادی کا نانجنگ شہر ایک چمکتا ہوا میٹروپولیٹن ہے‘ جو پرانے اور نئے تعمیر شدہ شہر میں تقسیم ہے۔ پرانا شہر بھی کوئی ایسا قدیم نہیں‘ بلکہ سینکڑوں بلند و بالا عمارتوں پر مشتمل ہے‘ جن میں نمایاں ترین شہر کی لائبریری بلڈنگ ہے‘ جس کی وسعت اور بلندی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ شہر کے ایک سرے پر نیا ڈیویلپمنٹ زون نہایت چوڑی سڑکوں اور ماڈرن عمارات کے علاوہ نہایت عظیم الشان سٹیڈیمز پر مبنی ہے‘ جہاں دو برس قبل یوتھ اولمپکس کی تقریبات منعقد ہوئی تھیں۔ ہم جب اس اولمپک پارک کے ایک جمنیزیم میں داخل ہوئے تو اس وسیع و عریض جگہ پر سینکڑوں بچے اپنے والدین اور کوچز کے ہمراہ بیڈمنٹن کی مشقوں میں مصروف تھے۔
نانجنگ شہر ماضی میں ایک نہایت ہولناک سانحے سے بھی گزر چکا ہے۔ 1930ء کی دہائی میں جاپان کی افواج نے یہاں قبضے کے دوران لاکھوں شہریوں کا قتل عام کیا تھا۔ اس کی یاد میں قائم شدہ میوزیم اس دور کی نہایت تکلیف دہ تصویر پیش کرتا ہے‘ جب محض چند ہفتوں میں تین لاکھ سے زائد شہری اور چینی فوجی موت کی گھاٹ اتار دیے گئے تھے۔ آج کا یہ شہر اعلیٰ تعلیم اور تحقیق میں صف اول کے شہروں میں سے ایک ہے‘ اور چین کی سب سے زیادہ پڑھی لکھی آبادی یہاں رہائش پذیر ہے۔ آخر میں ایک اہم بات یہ بھی عرض کر دوں کہ چین کا یہ خطہ اس وقت پاکستان میں جاری اہم ترقیاتی منصوبوں کا بہت بڑا حصہ دار ہے‘ اور یہاں کی کمپنیوں کی دنیا بھر میں کی گئی سرمایہ کاری میں پاکستان دوسرے نمبر پر آتا ہے‘ اس لئے اب ہمیں بیجنگ کے ساتھ نانجنگ کو بھی یاد کرتے رہنا چاہیے۔