جس طرح تجربے کی کنگھی اس وقت ملتی ہے جب سر پر بال نہیں رہتے بس اسی طرح ہمیں بھی ایک مقابلۂ حسن میں بطور مہمان اس وقت بلایا گیا جب ہماری اپنی جوانی سرکتی نظر آرہی ہے۔ قصہ یہ ہے کہ شنگھائی کی ایک کمپنی نے جنوب مشرقی چین کے ایک نہایت خوبصورت ساحلی شہر میں مس ورلڈ ٹورزم کا مقابلہ حسن منعقد کیا تو غیر ملکیوں کے ایک گروپ میں ہمیں بھی مدعو کر لیا۔'شیا من‘ نامی یہ شہر شنگھائی کے جنوب میں تقریباًپونے دو گھنٹے کی پرواز پر چین کے مشرقی ساحلوں کا ایک حسین شہر اور بندرگاہ ہے۔ایک نئے اور مقبول شہر میں جانے کی دعوت اور وہ بھی اتنی گلیمرس کون کافر قبول نہ کرتا‘ ہم نے بھی جھٹ پٹ بیگ پیک کیا اور دوڑتے بھاگتے اس طرح ایئر پورٹ پہنچے کہ اگر فلائٹ ایک گھنٹے پہلے بھی اڑنے کی کوشش کرتی تو ہم سے نہ بچ پاتی۔چینی صوبے' فوجیان‘ کا سب سے بڑا یہ شہر اپنا ایک منفرد مزاج اور موسم رکھتا ہے جس کا اندازہ ہمیں ایئر پورٹ پر اترتے ہی ہو گیاجب ملائشیا کی طرح کی حبس زدہ گرمی اور ہلکی سی بارش نے استقبال کیا‘ یہ موسم شنگھائی کے مقابلے میں کافی گرم اور مرطوب تھا۔ دوسری قابل ذکر بات یہاں کا کھلا پن تھا جو بلند وبالا عمارات کی کثرت نہ ہونے کے باعث بہت بھلا لگا۔ درختوں کی مختلف اقسام اور سبزہ بھی اس جگہ کی جنوب مشرقی ایشیا سے جغرافیائی قربت کا ثبوت پیش کر رہے تھے۔مختلف ممالک کے لوگوں پر مشتمل مہمانوں کے اس گروپ کے ہمراہ بس میں سوار ہو کر جب ہم ہوٹل پہنچے تو یہ تاکید بھی کردی گئی کہ ایونٹ کا آغاز سات بجے ہونے کے باعث ہمیں پانچ بجے ڈنر نوش کر کے چھ بجے تک دوبارہ بس میں سوار ہونا ہو گا۔ ہوٹل کے کمرے میں پہنچنے تک ساڑھے تین بج چکے تھے اورہم نے سستانے کے لئے جو آنکھیں موندیں تو عین پانچ بجے فون بجنے پر ہی کھلیں جہاں میزبان ہمیں ڈنر کا یاد دلا رہے تھے‘ محض پندرہ منٹ میں نہا دھو کر سوٹ ٹائی پہننے کا مرحلہ طے کرنے میں اتنی توانائی لگ گئی کہ شام ساڑھے پانچ بجے رات کا کھانا ڈٹ کر‘یعنی ابلے چاول اور فرائی کئے ہوئے مشرومز وغیرہ کو بار بار کھا کر پیٹ بھر لیا کہ اب اگلی صبح ہی باقاعدہ ناشتہ ملنا تھا۔یہ تو آپ کو پتا چل ہی چکاہے کہ چینی عام طور پرشام چھ سے سات کے درمیان ڈنر کرلیتے ہیں لیکن ہم نے ان کو بھی جلدی ڈنر کرنے میں مات دے دی۔سچ بات تو یہ ہے کہ اگر یہ مقابلہ حسن نہ ہوتا تو ہم اتنی عجلت نہ دکھاتے۔
ہوٹل سے تقریب کے مقام تک کا فاصلہ تقریباً پون گھنٹے میں طے ہوا جو ایک کھلی اور پرفضا جگہ پر تھا‘ مقابلے کی نوعیت کے لحاظ سے ایک عمدہ وسیع سیٹ لگا ہوا تھا جس پر ان حسینائوں نے ججز کے سامنے اپنے جلوے دکھانے تھے۔ غیر ملکیوں کے گروپ کو نشستیں تو ذرا آگے ہی ملیں لیکن شاید میزبانوں کو ہماری پارسائی کا اندازہ تھا اس لئے یہ مقام ایسا تھا کہ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کی طرح پوری تقریب کے دوران ہم اچک اچک کر ملکہ حسن کی امیدواروں کا آنا جانا اس طرح دیکھتے رہے کہ نہ ٹھیک سے واہ واہ کرسکے اور نہ ہی اتنا گھور پائے کہ لاحول ہی پڑھ سکیں۔چین کے مختلف شہروں کی نمائندگی کرنے والی بیس سے زیادہ دوشیزائوں کی مختلف ملبوسات میں واک کے ساتھ ہی موسیقی اور رقص کی بہت عمدہ پر فارمنسز بھی چلتی رہیں۔ سب سے دلچسپ مرحلہ وہ تھا جب جج حضرات نے اپنا فیصلہ سنانا شروع کیا‘پہلے مرحلے میں نکلنے والی شرکاء کو بھی مختلف کمپنیوں کے نمائندے گلدستے اور تحائف پیش کرتے رہے‘ کسی کو مسکراہٹ پر تو کسی کو اعتماد پر نوازا جانے لگا۔ مقابلے کی فاتح کا اعلان ہونے سے پہلے اس سلسلے نے اتنا طول پکڑا کہ ساتھ ہی موجود ایک' ڈچ ‘خاتون جو بہت متجسس تھیں تنگ آکر پوچھاکہ آخر کون کیاجیت رہا ہے۔ جس رفتار سے چینی زبان میں اعلانات ہو رہے تھے اس میں یہ طے کرنا کہ کس کو کیا اعزاز مل رہا ہے میرے لئے بھی مشکل تھا۔ البتہ جو بات مجھے سمجھ آئی کہ جن اداروں نے بھاری رقم لگا کر اس مہنگے ایونٹ کو ممکن بنایا ہے ان کے بھی سارے نمائندے کسی نہ کسی طرح سٹیج پر لانے ضروری تھے اس لئے انعامات کی اقسام بڑھ چکی تھیں‘ بالکل ایسے ہی جیسے آج کل کرکٹ میچ کے اختتام پر تقریب میں کئی اسپانسرز کھلاڑیوں کو انعامات دیتے ہیں۔خدا خدا کر کے نہایت ڈرامائی بیک گرائو نڈ میوزک کے ساتھ فائنل تین حسینائوں میں سے ایک کے سر پر تاج پہنایا گیا اور آتش بازی کے ساتھ یہ خوبصورت تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔
ہوٹل واپسی کا سفر بہت دلچسپ تھا بس میں موجود ہر فرد کا جیتنے والی حسینہ کے مقابلے میں اپنی ایک امیدوار تھی اور اس اعتبار سے اس مقابلے کی اکثر دوشیزائوں کو ہمارے گروپ کے کسی نہ کسی فرد نے تاج پہنا دیا تھا۔میں نے قریب بیٹھے ایک امریکی سے شرارتاً کہا کہ اس مقابلے نے مجھے ڈو نلڈ ٹرمپ (امریکی صدارتی امیدوار جو مس یونیورس کے مقابلے بھی کرواتا رہا ہے) کی یاد دلا دی ہے۔ امریکیوں کی حس مزاح اچھی ہوتی ہے وہ میرے جملے سے نہ صرف لطف اندوز ہوا بلکہ بعد میں ہوٹل کی لابی میں دیگر لوگوں کے ہمراہ اس سے کافی دیرامریکی الیکشن پر گپ شپ ہوتی رہی۔ ہلکی پھلکی باتوں اور مزاح سے قطع نظر اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ کسی بھی جگہ کی سیاحت اور کاروبار کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہاں فیشن‘ اسپورٹس اور اسی طرح کی دیگر تفریحی و ثقافتی سر گرمیاں تسلسل سے ہوتی رہیں۔اس طرح کی سر گرمیاں نہ صرف اس مقام کی پروفائل اچھی کرتی ہیں بلکہ سرمایہ کاروں اور سیاحوں کے اعتماد میں بھی اضافہ کرتی ہیں۔ چینی شہر'شیا من‘ نہ صرف ایک پُرفضاء ساحلی مقام ہے بلکہ یہ شہر اپنی تجارتی سرگرمیوں اور تعلیمی اداروں کے معیار اور تعداد کے باعث بھی مشہور ہے۔ اس مقام کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں سے ہی چینی باشندوں کی ایک بڑی تعداد تجارت اور روزگار کے لئے جنوب مشرقی ایشیاء خصوصاً ملائیشیا‘انڈونیشیااور سنگاپور میں جا کر آباد ہوئی تھی ۔ آج وہی اوور سیز چینی باشندے یہاں پر سر مایہ کاری اور تیز رفتار ترقی کا باعث بن رہے ہیں۔جغرافیائی اعتبار سے اس کی ایک اور اہمیت یہ بھی ہے کہ یہ جزیرہ تائیوان سے بہت نزدیک ہے جسے چین آج بھی اپنا حصہ مانتا ہے ۔چین اور تائیوان کا تنازعہ بھی اپنے اندر ہم پاکستانیوں کے لئے بہت کچھ سیکھنے کا سامان رکھتا ہے کہ کس طرح اپنی پالیسی پر ڈٹے رہنے کے ساتھ ساتھ تجارتی روابط بنائے جا سکتے ہیں‘ اس موضوع پر تفصیل سے بات پھر کبھی سہی۔
اگلی صبح واپسی سے قبل میزبانوں نے گروپ کے لئے قریب ہی کہ ایک تاریخی جزیرے ' گو لانگ ایو‘کے دورے کا اہتمام بھی کیا ہوا تھا۔شیا من شہر سے بوٹس اور فیری کے ذریعے یہاں بیس منٹ میں پہنچا جاسکتا ہے اور اپنے خوبصورت ساحل‘ چٹانوں اور مخصوص تعمیرات کے باعث محض دو اسکوائر کلومیٹر پر مشتمل یہ چھوٹا سا جزیرہ سیاحوں میں بہت مقبول ہے۔تنگ گلیوں‘ اونچی نیچی چڑھائیوں کے ساتھ پرانے مکانات پر مشتمل اس جزیرے کی بڑی دلچسپ تاریخ ہے۔ یہ ایک طویل عرصے تک مغربی طاقتوں کے قبضے میں رہا جو انہوں نے افیون کی پہلی جنگ سن 1842ء میں چینی بادشاہوں کو شکست دے کر ایک تجارتی کالونی کے طور پر حاصل کیا تھا۔ آج بھی یہاں قدیم وکٹورین طرز تعمیر نمایاں ہے‘ اس جگہ کی تجارتی کوٹھیاں اور ان میں رہائش پذیر مغربی باشندوں نے اپنی ہی رنگین دنیا آباد کی ہوئی تھی اور کئی معروف موسیقاروں خصوصاً پیانو بجانے والوں کی بڑی قدر ہوتی تھی۔ نہایت نفیس اور قدیم پیانوز پرمشتمل پورا ایک میوزیم آج بھی اس جزیرے کا ایک اہم مقام ہے۔ بیس ہزار نفوس پر مشتمل یہ جزیرہ ایک ثقافتی ورثہ اور معروف سیاحتی مرکزہے‘یہاں گاڑیوں اور اسکوٹروں تک کا چلانا ممنوع ہے‘ سوائے چند تعمیراتی گاڑیوں کے علاوہ یہاں پر آج بھی ہاتھ گاڑی سے کھینچ کر سامان لادا اتارا جاتا ہے۔ برطانوی حکمرانوں نے تو اس چھوٹی سی جگہ کا انتظام سنبھالنے کے لئے ہندوستان سے سکھ سپاہیوں پر مشتمل ایک پوری پولیس ٹیم بلوائی ہوئی تھی۔گھومتے پھرتے انسان کو کیسی کیسی جگہیں اور باتیں پتا چلتی ہیں‘ کہیں کیٹ واک کرتی دوشیزائیں تو کہیں مارچ کرتی سکھ پولیس کی پلٹن ۔