قدیم فنون کی سرپرستی

ویسے تو کسی بھی نئے ملک اور وہاںکے معاشرے میں رہتے ہوئے ابتداء میں ایک نا مانوسیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن مجھے‘ خود سمیت اکثر پاکستانیوں سے یہ شکوہ ہے کہ ہم سب ملک سے باہر رہنے کی بڑی توانا خواہش تو رکھتے ہیں لیکن اگر یہ موقع مل جائے تو وہاں کی مقامی ثقافت اور منفرد طرز زندگی کو زیادہ گہرائی میں سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ مڈل ایسٹ سے لے کر یورپ‘امریکہ بشمول کینیڈا میں ہماری کثیر تعداد میں موجودگی کے باعث شاید اپنے لوگوں اور مانوس ماحول میں رہنا زیادہ سہل ہوتا ہے لیکن ہر وقت اپنی کمیونٹی کے خول میں ہی بند رہنے سے بعض اوقات زندگی بہت بورنگ اور یکسانیت زدہ بن جاتی ہے۔ چین میں قیام کا ابتدائی عرصہ ایک نہایت مختلف ماحول اور اپنے ہم وطنوں کی کمیابی کے اعتبار سے کافی چیلنجنگ ثابت ہوتا ہے لیکن زبان سمیت اردگرد کے ماحول کی اسی اجنبیت میں سیکھنے کا بڑا سامان موجود ہوتا ہے۔ یہاں رہنے کے دوران اس سر زمین کا حیرت انگیز ماضی اور رنگ برنگی ثقافت بھی آپ کو اپنا اسیر بنا سکتی ہے ‘بس شرط یہ ہے کہ ذرا آگے بڑھ کر اس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ کچھ عرصے قبل ہمارے رہائشی علاقے کے نزدیک واقع ایک کمیونٹی سنٹر کی طرف سے یہاں رہائش پذیر غیر ملکیوں کو ایک ثقافتی تقریب کا دعوت نامہ ہمیں اپنے رہائشی کمپائونڈ کے دفتر سے موصول ہوا۔ اور اس کا دلچسپ پروگرام دیکھ کر ہم نے فوراٌ وہاں جانے کی ٹھان لی۔ 
کمیونٹی سنٹر کے اس چھوٹے سے ہال میں کم وبیش پچاس ‘ ساٹھ نشستیں اور چھ سات سٹال لگائے گئے تھے ۔ یہاںکے منتظمین نے بڑی ذہانت سے اس جگہ کا استعمال کیا تھا ‘قدیم سجے ہوئے روایتی لباس اور میک اپ سے مزین ایک چینی اوپیرا گلوکارہ نے اپنی باریک سیٹی جیسی آواز کا جادو جگایا ۔ مکالمے نما گانوںکی یہ پرفارمنس بیجنگ اوپیرا کے نام سے مشہور ہے۔
کلاسیکی موسیقی کے جلو میں گڑیا جیسی بنی سجی فنکارہ کی آواز سننا ایک منفرد تجربہ ثابت ہوا۔ ایک سٹال پر خطاطی کرنے والوں کا گروپ موجود تھا جو لکڑی کے برش استعمال کرتے ہوئے پیچیدہ چینی رسم الخط کی خطاطی نہایت مہارت سے کر رہے تھے۔ ان بزرگوں کوانہماک سے برش پر دوات لگا کر مختلف سٹروکس لگاتے دیکھ کر میں نے بھی ایک صاحب کی دعوت پر چند الفاظ لکھنے کی کوشش کی ‘برش کو کالی سیاہی میں ڈبو کر ایک درمیانے سائز کے کینوس پر خطاطی کی کوشش میں کچھ نہ کچھ لکھ ہی دیا ‘خطاطی تو خیر کیا ہوتی البتہ الفاظ قریب قریب صحیح ہی نقل کر لئے اورسفید کاغذ کا وہ کینوس بطور سوو ینیر محفوظ کر لیا ۔ایک سٹال پر نہایت معروف چینی پیپر کٹنگ آرٹ والے بھی اپنی مہارت دکھا رہے تھے۔عام طور پر سرخ رنگ کے نفیس سے مخصوص کاغذ کو موڑ کر اس پر مختلف شکلیں اور ڈیزائن اتنی باریکی اور مہارت سے کاٹے جاتے ہیں کہ کھلنے پر ایک بہت ہی عمدہ کڑھا ہوا کپڑا محسوس ہوتا ہے۔ یہ کاغذ گھروں کے دروازوں اور کھڑکیوں پر چسپاں کرنے کے ساتھ مختلف فریموں اور کینوس پر بھی محفوظ کئے جاتے ہیں۔ کاغذ کے باریک کٹے ہوئے نقوش مخصوص جگہوں پر آویزاں کرنا یہاں کی اہم رسومات اور قدیم عقائد کا اہم ترین جزو ہے۔
ہال کے ایک سرے پر پتلی تماشے کے بہت ہی دلچسپ پروگرام کا بھی انتظام تھا ‘یہ تماشا کسی عام پتلی تماشے کی طرح نہیں تھا ‘جس میں شائقین پتلیوں کو اپنے سامنے ڈوریوں کی مدد سے حرکت کرتا ہوا دیکھتے ہیں بلکہ اس شو میں پتلیوں کے سایوں کی حرکات سے مختصر قصے اور کہانیاں دکھائی اور سنائی جانی تھیں۔ ایک سفید مومی شیٹ کی سکرین سیٹ کرنے کے بعد اس کو عقب کی بتیوں کی مدد سے روشن کیا گیا تھا اور اس شو کے فنکاروں نے پتلیوں کے مختلف حصوں کو چھڑیوں کی مدد سے چلانا تھا۔ پردے پر ان پتلیوں کے سائے مختلف آوازوں کے ساتھ تیزی سے نمودار ہوتے اور سنائی جانے والی کہانی اور اس کی موسیقی کے مطابق حر کات و سکنات کرتے۔ اس شیڈو پپٹ شو کو دیکھتے ہوئے میں کھسکتا ہوا آگے پہنچ گیا تاکہ ان فنکاروں کی پس پردہ مہارت کا مشاہدہ بھی کرسکوں۔دو فنکار نہایت پھرتی سے اپنی تمام انگلیوں کا استعمال کرتے ہوئے سنائے جانے والے قصوں اور موسیقی کے ساتھ پتلیوں کی حرکات و سکنات کو قابو کئے ہوئے تھے‘ جیسے ہی ایک کردار یا کوئی شے مثلاً کشتی وغیرہ کی پتلی اپنا حصہ ادا کر کے نکلتی وہ پھرتی سے دوسرا کردار اور اس کے ڈانڈے اس طرح سنبھال لیتے کہ سامنے شائقین کو کسی بے ربطگی کا احساس تک نہیں ہوتا ۔ اس ہال میں تو یہ فنکار ریکارڈ شدہ آواز اور موسیقی کے مطابق اپنا کام کر رہے تھے لیکن چین کے چھوٹے شہروں یا قصبوں میں اس طرح کا تماشا لگانے والے خود ہی آوازوں اور موسیقی کے آلات سے لائیو پرفارمنس دیتے ہیں۔ پرچھائیوں کے یہ پپٹ شوز بھی یہاں کی قدیم روایت کا تسلسل رہے ہیں جو بادشاہوں کے درباروں میں بہت مقبول تھے۔ اس ہنر کے جاننے والوں کو مستقل اپنے زیر ملازمت رکھنا قدیم رئوسا کی شان اور امارت کا اظہار بھی سمجھا جاتا تھا۔اس تماشے کے لئے مخصوص پتلیاں تخلیق کرنا بھی برسوں کا تجربہ اور مہارت مانگتا ہے اور اب ان کے مشہور اور قدیم کرداروں کے لئے ایک عدد میوزیم بھی تیار کیا گیا ہے تاکہ اس عظیم روایت کو محفوظ کرنے کے ساتھ اس کی پبلسٹی کا بھی بند وبست رہے۔
کم وبیش اڑھائی گھنٹوں پر مشتمل اس شام کے اختتام پر مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ نہ صرف ہم نے روایتی چینی فنون اور فنکاروں کی صلاحیتیں دیکھیں بلکہ ان کی سرپرستی کا ایک سرکاری مظاہرہ بھی نوٹ کیا‘ اس ایونٹ کے اخراجات مقامی شہری حکومت نے ادا کئے تھے۔ اس کھلی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ قدیم فنون اپنی تمام دلکشی کے باوجود مارکیٹ اکانومی کی اس برق رفتا ر دنیا کا ازخود مقابلہ کرنے سے قاصر ہوتے ہیںـ۔ وہ فنکار جو روایتی موسیقی کے آلات بجاتے ہوں یا پتلی تماشے اور اس نوعیت کی دیگر سر گرمیوں سے اپنا روز گار کمانا چا ہتے ہوں انہیں ایک توانا سرپرستی درکار ہوتی ہے۔چینی حکام اور سرکاری ادارے ان سرگرمیوں کو اپنی تقریبات اور تشہیر کا حصہ بنا کر اس سر پرستی کو جاری رکھے ہوئے ہیں او ر اسے اپنی ثقافتی سیاحت کا ایک اہم حصہ بھی سمجھتے ہیں۔چینی اپنی تہذیب سے متعلق ان فنون کو ایک بڑی موثر قوت کے طور پر دیکھتے ہیں جس کا پیمانہ کسی فیکٹری کی پیداوار یا پرچون کی دکان کے منافع کی طرز پر جانچا نہیں جاسکتا۔یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں روایتی مارکیٹ کے اصولوں سے ہٹ کر ان سے منسلک لوگوں کو اتنی معاشی مدد فراہم کیا جانا ضروری ہے کہ وہ اپنا کام جاری رکھ سکیں۔عام لوگوں خصوصاً سکول ‘کالجوں کے طلباء میں ان فنون کے لئے دلچسپی پیدا کرنا اور اس کو بطور ایک اچھے مشغلے کے طور پر پیش کرنا بھی بہت اہم ہوتا ہے ۔ اسی لئے یہاں تھیٹر سے لے کر سنگ تراشی اور ظروف سازی سکھانے کے ادارے کام کرتے ہیں۔ خوش قسمتی سے صرف چین ہی نہیںبلکہ دنیا کے ہر خطے کے لوگوں میں اپنے ماضی سے جڑنے اور روایتی ثقافت کو زندہ رکھنے کا فطری شوق موجود ہوتاہے بس اصل امتحان اس وقت شروع ہوتا ہے جب قدیم فنون سے وابستہ اور روایت در روایت کام کرنے والے ہنرمندوں کو پر خلوص سر پرستی کی ضرورت پڑتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ریاستیں اپنے وسائل نجی شعبے کے حوالے کرتی جا رہی ہیں اور پرائیوٹ سیکٹر اپنی تر جیحات مارکیٹ کے ٹرینڈز کو دیکھ کر طے کرتے ہیں ۔ امراء اور اشرافیہ کے طبقے نے شوق یا نمود کی خاطر ہی سہی کسی حد تک کلاسیکی موسیقی اور مصوری کو تو سہارا دے رکھا ہے لیکن شاید بہت سے فنون کسی سر پرستی کے نہ ہونے سے معدوم ہو رہے ہیں ۔جس طرح ریاست کے جغرافیے کی حفاظت کے فیصلے محض مالی نفع و نقصان کی بنیادپر نہیں ہوسکتے‘ اسی طرح ایک خطے کے روایتی فنون کو بھی حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا کیا ہم اپنے ملک کے سرائیکی خطے کو پٹھانے خان مرحوم کی گائیکی سے الگ کر کے دیکھ سکتے ہیں ‘جغرافیہ جسم ہے تو وہاں کی ثقافت اس کی روح ہوتی ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں