لارڈ ٹائیون لینسٹر نے درست کہا ہے کہ جس کو ثابت کرنا پڑے کہ وہ بادشاہ ہے‘ وہ کیا بادشاہ ہوا۔ پاکستان کے تمام جمہوری وزرائے اعظم کی کہانی بھی کچھ یہی رہی ہے۔
عمراں خان بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں، بلکہ وہ مجموعۂ اضداد ہیں۔ خان صاحب کنگ جیفرے کی طرح اس زعم میں ہیں کہ وہ ہر شخص کو سینگوں پر اٹھا سکتے ہیں... اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کی قیادت جیلوں میں یا ملک سے باہر جائے پناہ ڈھونڈ رہی ہے۔ دوسری جماعت کے گناہ گویا نہ ختم ہونے والی داستان ہے۔ دوشیزہ سمیت آج زندان گئے کہ کل۔ ان کی کابینہ اب خالص انصافین نہیں‘ ایک ملغوبہ ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ انائوں کے بانس پہ چڑھے خان صاحب اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کے لیے تیار نہیں۔ جب حالات کی سنگینی کا حل یہ ہے کہ سالم پارلیمان‘ بشمول اپوزیشن بینچ کو سر جوڑ کر اس عتاب سے نکلنا ہے۔ اپنی بقا کی جنگ میں الجھی حزب اختلاف کی جماعتوں میں اتنا دم نہیں کہ ڈنکے کی چوٹ پہ اپوزیشن کر سکیں۔ نہ اتنی سکت کہ وزیر اعظم کی راہ میں حائل ہوں‘ میدان صاف ہے... خان صاحب کھل کر کھیل سکتے ہیں۔ اہم قومی معاملات میں۔ اگر اپوزیشن کی رائے کو شامل کیا جائے تو نظام حکومت کا یہ کھیل اور سہل ہو سکتا ہے۔ باقی رہا معاملہ بڑی سرکار کی تابعداری کا‘ وہ حکومت میں آنے سے قبل بھی خان صاحب کی مجبوری تھی اور آج بھی ہے۔ اس کا خمیازہ ہم نے بھانت بھانت کے وزرا کی شکل میں دیکھا جو کچھ مشرف کی باقیات تھی‘ کچھ پیپلز پارٹی کے رد کیے ہوئے تھے۔ آ جا کے تاثر یہ قائم ہے کہ خان صاحب کے پاس اختیار بھی محدود ہے اور دائرہ کار بھی۔ ایک وزیر نے‘ جن کی وزارت حال ہی میں تبدیل ہوئی ہے‘ بڑے سرکار کی ایک سخت پریس کانفرنس سے متعلق عمران خان کی خفگی کا انکشاف کیا۔
ایک نظر 'سٹیٹس کو‘ میں گھرے عمران خان کی اکنامک ایڈوائزی کونسل پہ ہی دوڑا لیجئے۔
رہی بات افسر شاہی کی تو وہ نہیں جانتی کہ موجودہ حکومت کب تک رہے گی‘ مگر وہ یہ ضرور جانتی ہے کہ نیب کہیں نہیں جا رہا۔ ہم سب یہ بخوبی جانتے ہیں کہ خوف کا زخم تلوار سے زیادہ گہرا ہوتا ہے؛ چنانچہ افسر شاہی ایک حقیقی تعطل اور مخمصے کا شکار نظر آتی ہے۔ کچھ پرانے بابوئوں سے امید کی جا رہی ہے کہ اس نظام میں تبدیلی لائیں گے‘ جسے انہوں نے نہ صرف خود اپنے ہاتھوں سے تخلیق کیا تھا‘ بلکہ اس سے بھرپور فائدہ بھی اٹھایا تھا۔
بے یقینی کی فضا خود دیکھ لیں۔
ان تمام عوامل کو دیکھ کر عمران خان ہمیں ایک ایسا چیف ایگزیکٹو نظرآتا ہے جو وہ کچھ نہیں کر سکتا جو وہ کرنا چاہتا تھا۔ وہ ایک اجنبی اور انجانی کابینہ کا سربراہ ہے۔ بے یقینی میں گھری بیوروکریسی کو چلا رہا ہے۔ اسے اپوزیشن کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ان باتوں کا فطری نتیجہ یہ نکلا ہے کہ لوگوں نے اب بجٹ کے بعد‘ اور نومبر کے تناظر میں باتیں کرنا شروع کر دی ہیں۔
غیر مقبول فیصلوں اور بڑھتے ہوئے عوامی دبائو کی وجہ سے اتحادیوں کے لئے بھی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ کوئی بھی اپنا سیاسی مستقبل خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ جب حکومت معمولی اکثریت سے قائم ہو تو دو امکانات ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ ایوان کے اندر تبدیلی یا پھر نئے سرے سے کھیل شروع ہو جائے، یعنی وسط مدتی الیکشن (ملک میں ٹیک اوور ہمیشہ وسیع تر قومی مفاد میں کی جاتی ہے، مگر فی الحال ہم اس بات کو یہیں چھوڑ دیتے ہیں)۔
ایوان کے اندر تبدیلی کا امکان‘ جس سے مولانا حضرات کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے، کہیں دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔ عمران خان کی تبدیلی کا مطلب تحریک انصاف کا خاتمہ ہے۔ پارٹی کا اگلا امیدوار کوئی بھی ہو تحریک انصاف کے کارکنوں کی بڑی تعداد اسے ووٹ نہیں دے گی۔
حتیٰ کہ اگر اپوزیشن کو بھی مستحکم کرنا ہو تو پی ٹی آئی کے ایک گروپ کو توڑے بغیر ایسا ممکن نہیں۔ مگر کوئی بھی جماعت ایک ایسے شکستہ اور معلق سیٹ اپ کا حصہ نہیں بننا چاہے گی جسے معاشی زبوں حالی کے سنگین مسئلے کا سامنا ہو۔
دوسرا امکان اسمبلیاں توڑ کر وسط مدتی انتخابات کا ہے‘ مگر زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ بے شک اس وقت شیر دھاڑ نہیں رہا‘ مگر شیر ضرور ہے۔ مریم نواز بطور متبادل قیادت‘ ٹھاٹھیں مارتے سیاسی جوش کا خاصہ رکھتی ہیں‘ جس نے نواز شریف کے جیل جاتے ہوئے باقاعدہ جانشینی کا آغاز کیا ہے... رہا معاملہ پنجاب کا تو وہاں موجودہ حکومت کی کارکردگی صفر ہے‘ اور ن لیگ کا جادو اب بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ نون لیگ مقتدر حلقوں کے لئے واحد اور سب سے بڑا سر درد ہے۔ اس پارٹی نے ثابت کیا ہے کہ پارٹی ابھی اوور نہیں ہوئی، جب ہو گی سو ہو گی۔
پی ٹی آئی کی حکومت پچھلے نو مہینوں کے دوران پنجاب میں پچاس ہزار سیاسی تقرریاں کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی، صوبے سے لے کر تحصیل کی سطح تک پی ٹی آئی بلدیاتی الیکشن محض اس وجہ سے کرانے سے گریز کر رہی ہے کہ اسے اپنی کامیابی کا ابھی یقین نہیں ہے۔ عثمان بزدار ابھی تک شریف فیملی کے قلعے میں پناہ لئے ہوئے ہیں‘ اور انہوں نے شہباز شریف کے قریب سمجھے جانے والے پرانے بیوروکریٹس کی ٹیم کو پھر سے بحال کر دیا ہے۔ مقتدر حلقے ابھی اس راستے پر گامزن ہونے پر آمادہ نہیں لگتے۔ کم از کم اس وقت تو نہیں۔
ان دونوں امکانات کے معدوم ہونے کے بعد ہمارے پاس ایک ہی آپشن بچتا ہے ٹیک اوور... نہیں بالکل نہیں... نہ تو بڑی سرکار فرنٹ پہ آ کر کھیلنے کے موڈ میں ہے‘ نہ اس آپشن کے لیے قابلِ عمل امکانات موجود ہیں... خان کو اپنی سپیڈ تیز کرنی ہو گی... کارکردگی ہی واحد آپشن ہے۔
عمران خان کو اپنے آئیڈیاز کے ساتھ بڑی تیزی سے آگے بڑھنا ہو گا۔ ایک آسان فیصلہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی سفر کے ابتدا کی طرف مراجعت کر لیں اور یاد کریں کہ اینٹی کرپشن کے علاوہ انہوں نے وہ کون کون سے وعدے کئے تھے جنہوں نے ان کے ووٹرز کی سوچ کو متاثر کیا تھا۔
اس کے لئے سب سے دانشمندانہ راستہ یہ ہو گا کہ وہ ادارہ جاتی اصلاحات کا وہ نعرہ بلند کریں جس نے ان کی جماعت کو باقی پارٹیوں سے ممتاز اور منفرد پہچان دی تھی۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ ہر ممکن حد تک ریاستی امور میں بہتری لانے کی کوشش کریں‘ مثلاً سستا اور فوری انصاف، کرپشن سے پاک پروفیشنل پولیس، استحصال سے پاک پٹواری کا نظام، اور تعلیم و صحت کے شعبوں میں ٹھوس تبدیلیاں۔
اگر وہ اصلاحات لانے یا سسٹم کو درست کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو ان کے لئے مشکلات ہوں گی۔ عمران خان اپنی سیاسی حمایت، مقبولیت اور نیک نامی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ عوام اور حکومت کے مابین پائی جانے والی عدم اعتماد کی خلیج کو فوجی قوت سے بھی نہیں پاٹا جا سکتا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جو بات عمران خان کے لئے قدرے گنجائش پیدا کر سکتی ہے وہی اس سسٹم کے لئے خطرہ بھی بن سکتی ہے۔ مقتدر قوتیں اس وقت کیا چاہتی ہیں؟ مگر ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ وہ کیا نہیں چاہتیں۔ اور وہ ہے نواز شریف اور زرداری کی واپسی۔
تاہم جب تک حکومت اپوزیشن پر کچھ ہاتھ نرم نہیں رکھتی ایوان کو چلانا یا کسی قسم کی قانون سازی کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ ایک اہم افسر کا کہنا ہے کہ عمران خان اور جنرل باجوہ جتنے بھی باہم شیر و شکر ہوں‘ یہ ظاہر ہے کہ وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے۔
بجٹ کے بعد بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔ ابھی موسم گرما کی ابتدا ہے لیکن لگتا ہے کہ سردی کی آمد ہے۔ خبردار رہیں سرما پُر خطر ہو سکتا ہے۔