کرنسی مارکیٹ میں ٹھہرائو، سٹاک مارکیٹ میں تیزی، ڈالر قدرے سستا۔ سعودی عرب کی بروقت امداد نے ملکی معیشت میں ذرا سی جان ڈال دی ہے۔ سعودی عرب جولائی سے تین سال تک ہر ماہ 42 ارب روپے کا تیل ادھار دے گا۔ عین ممکن ہے یہ امداد ملکی معیشت کے سدھار کا پہلا قدم ثابت ہو‘ مگر اس صورتحال کا کیا کیجئے کہ حکومت اپنے کندھوں پر لادے گئے کسی انجانے سے بوجھ سے متذبذب دکھائی دیتی ہے۔ یہ کیسا شش و پنج ہے کہ تین ماہ میں صوبے کے آئی جی تبدیل، نو ماہ میں ملک کے وزیر خزانہ تبدیل۔ نہ خود وزیر خزانہ کو خبر‘ نہ وزیر اعظم مطلع۔ اب سیکرٹری خزانہ یونس ڈھاگا کو عہدے سے ہٹاتے ہوئے سیکرٹری کابینہ ڈویژن نوید کامران بلوچ کو نیا سیکرٹری خزانہ بنا دیا گیا ہے۔ خبر یہ گرم ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات پر مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور سیکرٹری خزانہ یونس ڈھاگا کے درمیان اختلافات تھے اور یونس ڈھاگا نے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے آخری دور میں شرکت بھی نہیں کی تھی۔ سو اب کی بار تبدیلی ان اختلافات پر ہوئی ہے۔ سیاسی و معاشی دو راہے پر کھڑی حکومت کو جہاں اپنے قدم جمانے کے لیے تگ و دو کرنی ہے‘ وہاں حکومت کے اپنے ہی وزیر، وزارتوں میں قدم جما نہیں پا رہے۔
معاملہ یونہی چلتا رہا تو دیکھنا ہوگا کہ متحرک اپوزیشن فُل فارم میں ہے‘ مگر سانپ سیڑھی کے اس کھیل میں دما دم مست قلندر کا اشارہ دینے والی اپوزیشن ننانوے کے ہندسے سے واپس لوٹے گی یا کچھ اور نتیجہ سامنے آئے گا؟ گزشتہ ہفتے مریم نواز کی قیادت میں ہونے والی پارٹی میٹنگ میں طے ہوا کہ اپوزیشن بس زبانی کلامی حکومت کو سینگوں پر اٹھائے گی مگر زمین پر پٹخے گی نہیں‘ ہاں البتہ یہ خبر پکی ہے کہ زرداری صاحب عنقریب دھرے جانے والے ہیں۔ بظاہر کوٹ لکھپت جیل کے قیدی نمبر 4470 کا بیانیہ اب سیاسی تحریک کا موضوع ہو گا۔ حمزہ شہباز بھلے گاڑِی کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہوں‘ جماعت کی ڈرائیونگ سیٹ اب مریم نواز کے ہاتھ میں ہے۔ شہباز شریف کی مفاہمت والی پالیسی نہ خود ان کو بچا سکی‘ نہ شریف خاندان کو۔ شہباز شریف کے خلاف تواتر سے کھلنے والے مقدمات‘ اور لندن کی ٹکٹ نے مفاہمت‘ اور مفاہمت پر اکتفا کرنے کا راستہ بند کر دیا ہے۔ جماعت کے اندر کے لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ شہباز شریف کے خلاف یہ محاذ نہ کھولے جاتے‘ نہ بڑے میاں صاحب ان کا بیانیہ رد کرتے‘ نہ وہ باہر جاتے‘ نہ مریم نواز نائب صدر بنتیں‘ نہ کامیاب افطاریاں ہوتیں‘ نہ حکومت مخالف تحریک کا خاکہ بنتا‘ اگر احتیاط سے کام لیا جاتا۔ اب اسے سیاسی بدلائو کا نتیجہ کہا جائے یا کچھ اور کہ مسلم لیگ ن اپنا بیانیہ اور تیور دونوں بدل چکی ہے۔ مردہ گھوڑے میں جان ڈال دی گئی ہے۔ اب مسلم لیگ ن سیاسی گھی ٹیڑھی انگلیوں سے نکالنے کا ارداہ کر چکی ہے۔ اب امتحان حکومت کے اعصاب کا ہے۔ بد قسمتی سے پرائم منسٹر ان ویٹنگ نے دلجمعی سے جس ہوم ورک پر کام کیا تھا‘ وہ فقط احتساب تھا، سو وہ چل رہا ہے‘ اور اس وقت اپوزیشن کے پاس عوام کو سڑکوں پہ نکالنے کے لیے، گرتی معیشت کا کارڈ موجود ہے۔ اپوزیشن کے خلاف لڑے جانے والے احتسابی محاذ نے اپوزیشن کو طاقت ور‘ اور حکومت کو قدرے کمزور کر دیا ہے۔ اب نیم جان اپوزیشن کی سانسیں بحال ہونے لگی ہیں۔ وہ مقدمات، تحقیقات اور بد عنوانی کے بیانیے کو ایک طرف رکھتے ہوئے نئی سیاسی جہت شروع کر چکی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے حال ہی میں منتخب ہونے والے سولہ نائب صدور میں سے مریم نواز نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاسی میدان میں اپنی بھرپور واپسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اب وہ اس میدان سے کہیں نہیں جا رہیں۔ وہ اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ پارٹی ان کی موجودگی سے پڑنے والے فرق کو محسوس کرے۔ اس کے لیے اس سے بہتر اور کیا موقعہ ہو گا جب عوام دو وقت کی روٹی کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہوں؟ پی پی پی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی اب کوئی نا تجربہ کار یا سیاسی میدان میں نووارد نہیں رہے۔ وہ اپنی پارٹی، جسے ''اپوزیشن کی پارٹی‘‘ کہا جاتا تھا، کا کردار بخوبی نبھا رہے ہیں۔ باکسنگ رنگ میں خان کا مضبوط دفاع نا کام ہوا۔ آپ اسے ٹریننگ کی کمی کہہ لیں، اناڑی پن کہہ لیں یا کوئی اور سبب قرار دے لیں، لیکن مکا وہ پڑا ہے جس کے لیے وہ یا تو تیار نہ تھے، یا جسے وہ دیکھ نہ سکے تھے۔ لیکن وہ پُر عزم شخص ہیں۔ حریف تگڑا ہو تو باکسنگ رنگ میں سستی مہلک ہوتی ہے؛ چنانچہ اُنھوں نے پینترا بدل کر ماہرین اور پروفیشنلز کی ٹیم آگے کر دی ہے۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ اب کیا کرنا ہے۔ وزیر اعظم کو بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ صرف مخالفین کا بھرکس نکال کر اُنہیں ناک آؤٹ کرنا آپ کو اقتدار تک تو پہنچا سکتا ہے‘ لیکن اقتدار کی مدت نہیں بڑھا سکتا۔ اب معمول سے ہٹ کر چال چلنا ہو گی۔ ایسا ہاتھ دکھانا ہو گا‘ جس کے بارے میں کسی کو توقع بھی نہ ہو، جیسا کہ نظام کو نئے خطوط پر استوار کرنا... اس کے لیے بے پناہ سیاسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عوام کی بے چینی بڑھے گی۔ حکومت کو بہا لے جانے والے سونامی کا بھی خطرہ ہو گا۔ سچی بات یہ ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک میں ایک عام شخص کو صرف دو امور کی فکر ہوتی ہے، بے روزگاری اور مہنگائی۔ اسے تجارتی خسارے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے، شرح سود، زر مبادلہ کے ذخائر، ایکس چینج ریٹس وغیرہ کی نہ سمجھ ہوتی ہے‘ نہ ہی وہ اس کی کوئی پروا کرتا ہے۔
ایسی صورتحال میں مشکل سیاسی آپشنز کو مؤثر طریقے سے عوام تک پہنچانا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر یہ فیصلہ کیا جانا ہے کہ کس کو گیس کم ملے گی، گھریلو صارفین کو یا صنعت کو؟ جب تک ہم سرمایہ کاری کی پُر کشش اور طویل المدت تجاویز سامنے نہیں لاتے، تو کیا گیس کے نرخ بڑھانے ہیں یا لوڈ شیڈنگ پر زور دینا ہے؟ عوام کو کچھ تو بتائیں۔ گزشتہ پانچ سال سے کم و بیش پچاس فیصد ادویہ سازی بند ہے۔ ادویات کے نرخوں کے لیے مشکل فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ادویات کی قیمتیں نہ بڑھائی گئیں تو مزید کمپنیاں بند ہو جائیں گی، بے روزگاری بڑھے گی، ادویات درآمد کرنا پڑیں گی (اس سے ڈالر پر مزید دباؤ آئے گا) اور سمگلنگ کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ کالا دھن بڑھے گا۔ نہ پائے رفتن، نہ جائے ماندن والا معاملہ ہے۔ آپ قیمت بڑھائیں تو مسئلہ، نہ بڑھائیں تو مسئلہ۔ یہی صورت حال 192پبلک انٹر پرائزز کی ہے۔ انہیں ہونے والا خسارہ ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔ اب کیا کرنا ہے؟ انہیں نجی شعبے کے ہاتھ فروخت کر دیں، بند کر دیں، یا ان میں بدستور رقوم جھونکتے رہیں؟ زہر کے پیالے کا انتخاب خان صاحب کو کرنا ہے۔ بند کریں تو بے روزگاری کا سیلاب، اور چلائیں تو رقم کا ضیاع۔
ان مسائل کو نظر انداز کرنا، یا خود کو ان سے الگ رکھنا نا ممکن ہے۔ خان صاحب! وقت کم ہے... دو وقت کی روٹی کے لالے جمہوریت اور ملوکیت کا فرق ختم کر دیتے ہیں۔ اپوزیشن کا آپ پر تب تک ہاتھ ہولا رہے گا جب تک آپ ڈلیور کریں گے... وگرنہ پیٹ کی بھوک میں عوام ''قدم بڑھائو‘ ہم تمھارے ساتھ ہیں‘‘ کے نعرے تک فراموش کر دیتے ہیں۔ نئی معاشی ٹیم پر عوام کا نہ کوئی دباؤ ہے اور نہ ہی ذمہ داری۔ اُن کا حلقہ آئی ایم ایف ہے، نہ کہ پاکستانی عوام۔ ضروری ہے کہ ہر قدم پر عوام سے رابطے میں رہا جائے، اور نہایت آسان زبان میں، ٹھہر ٹھہر کر، رک رک کر، وضاحت کی جائے کہ کون سی آپشن کیوں اپنائی جا رہی ہے۔