ویسے تو ریاستِ پاکستان میں تحریک، احتجاج اور دھرنے کی کون سی صورت قابل قبول ہو گی‘ یہ جمہوریت کا پُر تکلف اور غیر متوقع مزاج طے کرتا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے آزادی مارچ کے خلاف درخواستیں نمٹاتے ہوئے مقامی انتظامیہ کو معاملہ دیکھنے اور احتجاج کرنے والوں اور نہ کرنے والوں‘ دونوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کا حکم دیا۔ ایسا ہی فیصلہ اسی عدالت نے دو ہزار چودہ میں تحریک انصاف کے دھرنے کے حوالے سے دیا تھا۔
دھرنوں سے متعلق ایک اور بڑا فیصلہ اس ملک کی سب سے بڑی عدالت نے کیا تھا۔ فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ کا تینتالیس صفحات پر مشتمل فیصلہ، حکومت مخالف دھرنوں اور تحریکوں پر وہ تاریخی فیصلہ ہے جسے سیاسی اور غیر سیاسی نصاب میں برابر شامل کیا جانا چاہیے۔ مگر شومئی قسمت، اس فیصلے پر اتنا ہی عمل ہو سکا ہے جتنا کہ ہمارے نظام میں، جمہوریت کی اصل روح پر عمل ہوا ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے اس فیصلے میں چار احکامات بہت واضح ہیں۔
پہلا حکم دھرنا دینے والے گروہ کے لیے ہے۔ فیصلے کے مطابق ''آئین بطور خاص احتجاج کے حق کو بیان نہیں کرتا؛ تاہم جمہوریت اس نوعیت کے حق کو تسلیم کرتی ہے‘ مگر احتجاج کسی قانونی حکومت کو معزول کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کہے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ اکٹھا ہونے کا حق کسی جمہوری سیاسی نظام کی حفاظت کے لیے انتہائی اہم حق ہے لیکن کوئی بھی ریاست، ایسی کوئی بات یا عمل برداشت نہیں کر سکتی جو ایسی حکومت گرانے کی نیت رکھتا ہو... جو قانونی اور آئینی طور پر وجود میں آئی ہو...‘‘
دوسرا حکم ریاست کے لیے ہے: فیصلے کے مطابق‘ تحریک لبیک پاکستان اور اس کے حامی شہری زندگی کو مفلوج بنانے کے لیے مکمل طور پر پُر عزم تھے؛ تاہم اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے حکومت کی طرف سے ناکافی انتظامات کیے گئے تھے۔ اس حوالے سے کوئی قبل از وقت منصوبہ بندی بھی نہیں کی گئی۔ بصیرت و صراحت کا فقدان اور تذبذب کا عنصر غالب دکھائی دیا۔ جب قانون شکنی کرنے والوں کو معلوم ہو کہ اس کی کوئی سزا نہیں ہو گی تو دوسروں کو شہ ملتی ہے۔ پاکستان کے شہری اپنے بنیادی حقوق کو برقرار رکھے جانے کے حوالے سے ریاست پر بھروسہ کرتے ہیں۔ شہریوں کا تحفظ یقینی بنایا جانا چاہیے، ان کی املاک کی حفاظت کی جانی چاہیے اور انہیں آزادنہ نقل و حرکت کی اجازت ہونی چاہیے؛ تاہم ریاست نے انہیں مایوس کیا۔
تیسرا حکم اس طرح تھا: ''...ایجنسیوں کو کسی مخصوص سیاسی جماعت یا اس کے کسی دھڑے کی ہرگز حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ اگر کسی ادارے کا کوئی رکن میڈیا کے خلاف یا اس کے ذریعے جوڑ توڑ کرتا ہے یا اس کے ساتھ سیاست بازی کرتا ہے تو وہ اس ادارے کی دیانت اور پیشہ ورانہ مہارت کو مجروح کرتا ہے...‘‘
ایک اور حکم آزادیٔ اظہارِ رائے کے لیے ہے۔ فیصلے کے مطابق ''ظاہرہ اور پوشیدہ سنسر شپ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔ مبہم چالیں جیسے سیلف سنسر شپ کا مشورہ، آزاد نقطہ نگاہ کی حوصلہ شکنی کرنا، مخصوص و معین خیالات کو پھیلانا اور یہ ہدایت دینا کہ کسے ادارے میں رکھنا ہے اور کسے نکالنا ہے، یہ سب غیر قانونی ہے۔ یہ عدالت ان عناصر کو تنبیہ کر چکی ہے جو ماضی میں ایسی شاطرانہ حرکتوں میں ملوث پائے گئے تھے۔ یہ ہدایات دی جا چکی ہے کہ ٹیلی ویژن نشریات میں کوئی پابندی یا رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے‘ صوبائی پولیس آفیسرز کو ہدایات دے دی گئی ہے کہ وہ قصور واروں کے خلاف کارروائی کریں۔ کوئی شخص، حکومت، محکمہ یا انٹیلی جنس ایجنسی آئین کے آرٹیکل 19 سے باہر جا کر آزادیٔ اظہارِ رائے اور تقریر کے بنیادی حقوق میں تخفیف نہیں کر سکتی/ کر سکتا۔ ایسے لوگ جو گمراہ کن نظریات کے زیر اثر یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی شاطرانہ چالوں سے مخصوص فوائد حاصل کر سکتے ہیں، خود فریبی میں مبتلا ہیں‘‘۔
اس فیصلے سے جڑا ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ اس فیصلے کے خلاف 8 ریویو پٹیشنز سپریم کورٹ میں دائر کی گئیں۔ درخواست دائر کرنے والوں میں سر فہرست پاکستان تحریک انصاف‘ وزارت دفاع‘ انٹیلی جنس بیورو‘ الیکشن کمیشن اور شیخ رشید شامل ہیں۔ اب تحریک انصاف کی حکومت کو خود ایک دھرنے کا سامنا ہے۔ خبر ہے کہ بنی گالہ میں ہونے والی ایک میٹنگ میں حکومت نے مولانا کے آزادی مارچ کو اسلام آباد کی حدود سے باہر روکنے کا بندوبست کر لیا ہے۔ یہ حکمت عملی سہ جہتی ہے۔ قانونی کارروائی ہو گی۔ حکومت کی جانب سے جے یو آئی (ف) کی ذیلی جماعت کے خلاف کارروائی کے سلسلے میں وزارت داخلہ نے انصارالاسلام کو کالعدم قرار دینے کی سمری الیکشن کمیشن اور وزارت قانون کو بھجوا دی ہے۔ نمبر دو‘ انتظامی کارروائی ہو گی‘ حکومت کی جانب سے کیٹرنگ‘ ٹینٹ‘ سائونڈ سسٹم فراہم کرنے پر پابندی ہو گی۔ نمبر تین‘ سخت کارروائی بطور فائنل آپشن کی جائے گی‘ اسلام آباد کی حدود میں داخلے کی صورت میں جے یو آئی (ایف) کے سرنڈر کرنے والے قائدین کو گرفتار کیا جائے گا‘ بصورت دیگر‘ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ ایک خبر نون لیگ کی حکمت عملی سے متعلق ہے کہ جو اب بھی ہوا میں معلق ہے۔ شہباز شریف نے اب بھی مولانا کو دارالحکومت میں ویلکم کرنے کی بات کی ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو مولانا سے ملاقات کے لیے نون کے وفد میں شہباز شریف کے ہمراہ وہ تمام شخصیات موجود تھیں‘ جو آزادی مارچ میں شمولیت کے خلاف ہیں۔ انہی میں سے ایک رہنما نے بتایا کہ مولانا سے کئی بار پوچھا گیا کہ کتنے دن قیام کا ارادہ ہے‘ مگر جواب نہ ملا۔ تذبذب کی کیفیت تاحال برقرار ہے۔ پی ایم ایل سندھ کے صوبائی صدر نے آزادی مارچ کا حصہ بننے کی تیاری ابھی شروع ہی کی تھی کہ شہباز شریف کا پیغام موصول ہوا کہ کوئی ریلی کی صورت میں یہاں نہیں آئے گا۔
اس دوران میڈیا میں بلیک آئوٹ رہے گا۔ کچھ لمحوں کے لیے اگر آپ ان تمام سیاسی جماعتوں کا موازنہ کریں‘ جنہوں نے ماضی میں حکومتوں کے خلاف دھرنے دیئے یا اختلاف رائے کا اظہار کیا‘ تو اندازہ ہو گا کہ تمام جماعتوں کا چلن ایک سا تھا۔ میاں صاحب سڑکوں پر نکلے‘ خلائی مخلوق کو للکارتے ہوئے‘ رکاوٹیں پار کرتے‘ پولیس اہلکاروں کو حکم عدولی کے مشورے دیتے ہوئے آگے بڑھے‘ بات ریاست کی رٹ چیلنج کرنے تک بڑھی۔ خان صاحب کنٹینر پر آئے تو سول نافرمانی‘ پولیس کو للکارنے‘ حفاظتی حصار کو توڑنے‘ قانون کی پاسداری سے انحراف کرنے تک بات پہنچی۔ یہ تو طے ہے کہ ہمارے ہاں دھرنوں کا مزاج بدمست ہاتھی جیسا رہا ہے۔ کوئی حکومت گرا سکا ہو یا نہیں‘ مگر قانون اور حکومتی معاملات کو تہس نہس ضرور کر جاتا ہے۔ اور اس بدمست ہاتھی کو عدالتی فیصلے بھی کنٹرول نہیں کر پاتے۔
قاضی فائز عیسیٰ کے جس فیصلے کے خلاف حکومت فریق بنی ہے، اگر اس پر من و عن عمل ہو گیا ہوتا، تو حکومت اس شش و پنج میں نہ ہوتی۔ مولانا صاحب اس اعتماد سے، اپنی فوج تیار نہ کرتے اور بڑی سرکار کو اپنے کردار اور غیر جانبداری کی یوں گواہی نہ دینا پڑتی۔ اس فیصلے کے تناظر میں دیکھا جائے تو دھرنا دینے والا ایک اور گروہ، بڑی سرکار کا کردار، حکومت کی حکمت عملی اور آزادیٔ رائے، اپنی جگہ وہیں کھڑے ہیں‘ اور اسی شد و مد سے وہی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اور رہا سیاسی دھرنوں کی تعریف کا معاملہ تو یہ تعریف ہمارے ملک میں رائج جمہوریت کے مزاج کے مطابق ہوتی ہے۔ سو تحریکیں، ہائی جیک ہو جائیں تو ملک کا نظام خود ساختہ صدر یعنی ضیا الحق چلاتے ہیں۔ تحریکیں اگر ایک سو چھبیس دن طویل ہو جائیں اور ہائی جیک نہ ہوں، تو نظام کمزور وزیر اعظم چلاتے ہیں۔ اور اگر تحریکیں جڑواں شہروں کے وسط میں بیٹھ کر، کاروبار زندگی مفلوج کر دیں تو تقاضے پورے کرنے کا نظام ریاست کو یوں چلاتا ہے کہ فیصلے اور تاریخ کے سبق، دونوں خاک چاٹتے رہ جاتے ہیں۔ مولانا صاحب اور حکومت‘ دونوں کسی عدالتی فیصلے کی فکر میں نہیں بلکہ اشارے کی فکر میں ہیں کہ اس دھرنے کو کون سا سیاسی لبادہ پہنایا جاتا ہے۔