تحریکِ انصاف کو ایک سست رو پارٹی سے متحرک سیاسی قوت بننے میں بہت عرصہ لگا۔ اس دوران جناب عمران خان نے بڑی مستقل مزاجی سے پارٹی کا ڈھانچہ برقرار رکھا۔ پارٹی کو متحرک بنانے میں کرپشن سے پاک 'نیا پاکستان‘ کے نعرے نے اہم کردار ادا کیا۔ تاہم پارٹی کا مؤثر کردار جنرل پرویز مشرف کے خلاف پاپولر موومنٹ میں شرکت سے سامنے آیا۔ دوسری جانب مذہبی پارٹیوں کی حمایت محدود ہوئی۔ مسلم لیگ نون کے بہت سے پیروکار شفاف نظام کے مطالبے پر عمران خان کے حامی بن گئے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کی ناقص کارکردگی پر اس کے مایوس ووٹر تحریکِ انصاف کی طرف راغب ہوئے۔ اکتوبر 2011ء کے لاہور کے تحریکِ انصاف کے جلسے میں متوسط طبقے کے علاوہ مقامی غربت زدہ لوگوں نے بھی شمولیت کی۔ مگر تحریکِ انصاف غریب عوام کو دُور تک اپنے ساتھ نہ لے جا سکی۔ عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے بعد تحریک انصاف نے ان نمائندوں کو اہم مقام دے دیا، جو دولت اور سیاسی تجربہ تو رکھتے تھے مگر عوام کی نظر میں تبدیلی کاذریعہ نہ تھے۔
عمران خان نے جاوید ہاشمی کی شمولیت کے بعد کراچی کے جلسے میں جو تقریر کی‘ اس میں غربت اور غریبوں کا جذباتی انداز میں ذکر کیا۔ خیال ہوا کہ شاید جاوید ہاشمی کی شمولیت پارٹی کے فکری رُخ کو متاثر کرے گی۔ ایسا نہ ہوا۔ غربت کا مسئلہ قیادت کی پُرجوش توجہ کا مرکز نہ رہا۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ عمران خان کی طاقت فوری کمزور ہو جائے گی۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ان کی ووٹنگ پاور میں غریب طبقات نمایاں اضافہ نہ کریں گے۔
غربت زدہ لوگوں کی بڑی تعداد دیہی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے۔ متعدد دانشور یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں زرعی املاک کو محدود کرنے کی گنجائش نہیں رہی۔ یقینا یہ بات جنوبی پنجاب، دیہی سندھ اور بلوچستان کے معاملے میں صحیح نہیں۔ بہت سے بڑے زمینداروں نے اپنی ملکیت یا قبضے میں زرعی اراضی اپنے بچوں یا قابلِ اعتماد افراد کے نام پیشگی منتقل کی ہوئی ہے۔ عملاً اراضی فردِ واحد کی بجائے اس کے خاندان کے افراد میں منقسم ہوئی ہے۔ خاندان کی سماجی اور سیاسی طاقت ویسے ہی برقرار ہے جو جناب ذوالفقار علی بھٹو کی زرعی ریفارم سے پہلے تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دیہی غربت زدہ عوام کا بڑے زمینداروں کے خاندان سے چھٹکارا نہیں ہوا۔ زرعی اراضی کی ملکیت سے محروم آبادی کے دن نہ بدلے اور دیہی آبادی میں صنعتی اشیاء کی مارکیٹ کو قابلِ ذکر وسعت نہ ملی۔ یہی وجہ ہے کہ چھوٹی اور متوسط درجہ کی صنعتیں فروغ نہیں پائیں۔ اور دیہی عوام روزگار کی تلاش میں بڑے بڑے شہروں میں
نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس معاملے نے بے شمار سماجی مسائل اور ماحولیات کے مسئلے کو جنم دیا۔
''ترقیاتی معاشیات‘‘ کا مطالبہ رہا کہ پسماندہ معاشروں میں تیز ترقی کا عمل جاری کرنے کے لیے بڑی بڑی زمینداریوں اور قبائلی سرداروں کا معاشی اور سماجی تسلط توڑنا ضروری ہے۔ تحریکِ انصاف اپنی پارٹی کے آئین کے اعتبار سے پابند ہے کہ وہ زرعی اصلاحات کے قوانین کو نافذ کرے گی۔ یہ بات پارٹی آئین کے مقاصد میں شامل ہے مگر عملاً تحریکِ انصاف نے عوامی جلسوں میں لینڈ ریفارمز کی ضرورت کو کبھی پیش نہیں کیا۔
پاکستان کی لیبر فورس کا 45 فیصد حصہ زراعت پر انحصار کرتا ہے۔ آبادی میں زبردست رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے۔ لیبر فورس 30 لاکھ افراد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ جبکہ روزگار کے مواقع صرف دس لاکھ سالانہ پیدا ہوئے۔ بالخصوص دیہی علاقوں میں غربت بے روزگاری کی وجہ سے ہے۔ دیہی علاقوں میں چھوٹے کاشتکاروں اور چھوٹی صنعتوں کے ذریعے خوشحالی آ سکتی تھی اور آج بھی آ سکتی ہے مگر سماجی تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں۔ بڑی تبدیلی کے بغیر ہیومن ڈویلپمنٹ کا بھی بڑا امکان نہیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جس جانب تحریکِ انصاف اور کسی بھی دوسری پارٹی کی توجہ نہیں۔ تحریکِ انصاف کا تبدیلی کا نعرہ (مؤثر لوکل گورنمنٹ کے علاوہ) انتظامی نوعیت کی اصلاحات تک محدود رہا۔ اس نے آزاد عدلیہ کے قیام کو ترقی کا زینہ قرار دیا۔ کرپشن سے پاک حکومت کو اہم قرار دیا اور حال ہی میں شفاف الیکشن کے مطالبے پر سیاست کو بنیادی اہمیت دی۔ یہ باتیں اگرچہ اہم ہیں مگر سماج اور سیاست پر بالادست طبقات کے قبضے کی جلد از جلد تحلیل کا ذریعہ نہیں۔ چنانچہ دیہی عوام اور غربت زدہ لوگوں کا سماجی اور معاشی مستقبل دیر تک تاریک رہے گا۔
ہر معاشرے میں غربت زدہ اکثریت اور بالادست اقلیت کے مفادات کا ٹکرائو موجود ہوتا ہے۔ منصفانہ پروگرام کی حامل قومیں پیداواری عمل اور اُس کی تقسیم کو منصفانہ بناتی ہیں تاکہ پرامن جمہوری ارتقا کا عمل جاری رہے۔ ہمارے یہاں ایسا نہیں۔ ہمارے ملک میں ایک جانب دولت کی ناہمواری بڑھ رہی ہے اور دوسری جانب جیسا کہ اوپر ذکر ہوا بیروزگار افراد کی تعداد میں زبردست اضافہ ہو رہا ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان میں لیبر فورس میں اضافے کی شرح تین فیصد ہے، جبکہ بھارت میں یہ شرح صرف 1.2 فیصد ہے۔ (Human Development in South Asia, 2013) کیا ہم صرف شفاف نظام کے ذریعے اس دھماکا خیز مسئلے پر عبور پا سکتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ کچھ عرصہ بعد غربت اور بے روزگاری کا مسئلہ پھٹ پڑے گا اور نہیں معلوم کیا کیا مسائل کھڑے کرے۔
متوسط طبقہ کے بہت سے افراد عمران خان کے سحر میں مبتلا ہیں۔ پارٹی کے ورکروں کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ کاش پارٹی ورکروں کی فکری اور سیاسی تربیت کی جاتی، یہ نہیں ہوا اور اُمید نہیں کہ مستقبل قریب میں ایسا ہوگا۔ ایسی تربیت خود پسند لیڈروں کے لیے خطرہ ہوا کرتی ہے۔ تربیت کا مفقود ہونا ایک نئے متوسط درجے کے جیالا کلچر کو فروغ دے چکا ہے مگر یہ کلچر پارٹی کے اس پروگرام کے لیے مددگار نہ ہو گا جسے گڈ گورننس کہتے ہیں۔ اگر اور جب تحریکِ انصاف پر وفاقی حکومت کی گورننس کی ذمہ داریاں آئیں تو اسے بیشتر انحصار بیوروکریسی پر کرنا پڑے گا۔ رائے عامہ کی موثر تائید میسر نہ آئے گی۔ رائے عامہ کا کردار اسی صورت میں موثر اور منظم ہوتا ہے کہ ورکروں کی فکری تربیت کی گئی ہو۔