سپریم کورٹ میں آج کل ایک دلچسپ مقدمہ زیر سماعت ہے ۔ یہ کیس آٹے کی بڑھتی قیمت سے متعلق ہے لیکن عدالت عظمیٰ یہ معلومات حاصل کرنے میں دلچسپی لے رہی ہے کہ پاکستان میں ایک غریب آدمی اور اس کا خاندان مہنگائی کے طوفان میں کیسے گزارہ کر رہا ہے۔سات ہزار سے نو ہزار ماہانہ کمانے والا شخص اپنے چار افراد پر مشتمل خاندان کا بجٹ کیسے بناتا ہے؟کیا غریب اور اس کے بچوں کی غذائی ضروریات پوری ہو رہی ہیں؟یہ بنیادی انسانی اہمیت کے وہ سوالات جن پر عدالتوں میں کم ہی غور وفکر ہوتا ہے ۔لیکن بھلا ہو جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کا جنہوں نے غریب کی روٹی کے حق میں سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔اگرچہ زندہ رہنے کے لیے ضروری اشیاء کی فراہمی کی اولین ذمہ داری حکومت کی ہے، لیکن اگر حکومت خود ہی مہنگائی کی محرک ہو تو پھر جج صاحبان کے سامنے دُہائی دینا اور حکمرانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنا ہی آخری آپشن رہ جاتاہے۔سپریم کورٹ نے بھی اس مقدمے کی ترجیحی بنیادوں پر سماعت کی۔ شروع میں یہ مقدمہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سنا۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے اب تک سینئر جج جسٹس جواد ایس خواجہ اس مقدمے میں غریب کا کیس آگے بڑھا رہے ہیں ۔ جسٹس صاحب بات کی تہ تک پہنچ کر ہی دم لیتے اور مشکل
مقدمات میں بھی اگر محاورے کی زبان میں بات کی جائے تو بیل کو سینگوں سے پکڑنے کا گر جانتے ہیں۔ درخواست گزار نے تو صرف آٹے کی قیمت کے خلاف درخواست دائر کی مگر جسٹس خواجہ نے محکمہ خوراک کے تمام وفاقی اور صوبائی افسران کو طلب کر لیا۔فوڈ سکیورٹی یقینی بنانے والوں سے کہا کہ دو بالغ اور دو بچوں پر مشتمل ایک خاندان کا بجٹ بنا کر دکھائیں۔ فوڈ سکیورٹی کمشنر ڈاکٹر شکیل احمد خان نے بتایا کہ اوسطا ًدو بالغ افراد اور دو بچوں پر مشتمل خاندان کو صرف کھانے پینے (غذائی ضروریات) کے لیے چھ ہزار دو سو روپے ماہانہ درکار ہوتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں ایک چھوٹے خاندان کو زندہ رہنے کے لیے ہر مہینے اس رقم کی ضرورت ہوتی ہے ۔اگر علاج معالجے کے اخراجات بھی شامل کئے جائیں تو پھر سرکاری اعدادو شمار کے مطابق یہ خرچہ چودہ ہزار آٹھ سو اٹھاون روپے بنتا ہے۔ واضح رہے کہ اس تخمینے میں نہ تو گیس، بجلی اور پانی کے بل شامل ہیں اور نہ ہی رہائش کا کرایہ، نہ کپڑے اور نہ ہی بچوں کے سکول فیس اور دوسرے ناگہانی اخراجات۔ عدالت کے استفسار پر فوڈسکیورٹی کی وزارت نے یہ بھی بتایا کہ ایک
عام آدمی کو غذائی ضرورت پورا کرنے کے لیے ایک دن میں کم ازکم 2350 کلوریوں (حراروں) کی ضرورت ہوتی ہے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ اس بات کی یقین دہانی چاہتے ہیںکہ ملک میں غریب سے غریب شخص کو بھی کم از کم 2350 حراروں کے برابر خوراک ضرور ملے اور کوئی شخص رات کو بھوکا نہ سوئے۔لیکن یہ یقین دہانی کون کرائے؟ عدالت میںحکومتی ذمہ داروں نے اعدادو شمار تو پیش کر دیے لیکن اس بات کی ضمانت کسی نے نہیں دی کہ غریب کبھی بھوکا نہیںسوئے گا ۔ جسٹس خواجہ کے مطابق بنیادی انسانی ضروریات کی دستیابی انسان کا بنیادی حق ہے اور آئین پاکستان کے آرٹیکل9 اور14میں یہ حقوق واضح ہیں جبکہ آئین کے آرٹیکل 38کے مطابق عوام کی فلاح و بہبود بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔عدالت کو بتایا گیا کہ ملک بھر میں ایک غیر ہنرمند فرد کی آمدنی اوسطا ًسات ہزار روپے سے نو ہزار روپے تک ہے (ہمارے وفاقی بجٹ میں مزدور کی کم سے کم تنخواہ بارہ ہزار روپے ماہانہ مقرر ہے۔)
عدالت نے وفاق اور چاروں صوبوں کی سطح پر یہ جانے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں کہ کیا ان اعدادو شمار کے تناظر میں حکومت آئینی تقاضے پورے کر رہی ہے اور کیا کم سے کم خوراک کے معیار تک غریب کی رسائی ہو رہی ہے؟ کمیٹیوں کی رپورٹ میں صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ ملک میں کوئی آئیڈیل صورت حال نہیں ہے۔ عوام غذائی قلت کا شکار ہیں۔صرف آٹا ہی نہیں دیگراشیائے خور و نوش بھی غریب کی پہنچ سے بہت دور ہیں ۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ ان بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے حکومت ضروری اقدامات کرے۔عدالت کی منشا تو قابل ستائش ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی بے گھر غریب اور اس کے بچے کوڑے کے ڈ ھیروں سے اپنا رزق تلاش کر رہے ہیں۔سر چھپانے کا سائبان ہو نہ ہو، تن ڈھانپنے کے کپڑے ہوں نہ ہوں، دو وقت کی روٹی زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص دو وقت کی روٹی کا سوال کرتا ہے اور عام آدمی بھی روٹی پانی کے چکر سے باہر نہیں نکل پاتا۔
سپریم کورٹ میں غریب کا مقدمہ صحیح سمت میں جا رہا ہے لیکن اس کی رفتار بہت سست ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ بنیادی انسانی ضروریات کے دیگر مقدمات کی طرح کہیں غریب کا یہ مقدمہ بھی عدالتی مُوشگافیوںکا شکار نہ ہو جائے۔ اس سے پہلے بھی غریب عوام چینی،پٹرول ، سی این جی اور بجلی کی قیمتوں سے متعلق مفاد عامہ کے مقدمات کاـ نتیجہ بھگت چکے ہیں ۔اب اگر عوام آٹے کا مقدمہ بھی ہار گئے تو غریب کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی نا ممکن ہو جائے گا۔ خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معروف قول ہے کہ دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو ان سے پرسش ہو گی۔ آج کے حکمرانوں کو فرات کے کنارے جانے کی ضرورت نہیں ہے، ان کے پاس مکمل اعدادو شمار موجود ہیں کہ کتنے لوگ بھوکے ہیں ، کتنے بے لباس ، کتنے بے گھر خاندان فٹ پاتھ پر سوتے ہیں اور کوڑوں کے انبار سے کھانا کون چنتا ہے؟لیکن اپنی بھوک مٹانا ترجیح ہو تو کسی دوسرے کی بھوک کا احساس نہیں ہو سکتا۔ ایک مغربی مفکر کا کہنا ہے:غریب ہونا کتنا مہنگا کام ہے ؟یہ صرف وہی جانتا ہے جو خود غربت کی زندگی گزار رہا ہو۔