یہ ذکر ہے 1993ء کاجب مرحوم غلام اسحاق خان صدر مملکت تھے اور نواز شریف کی جمہوری حکومت آئین کے آرٹیکل 58 (2)bکے تحت برخاست ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر بحال ہو چکی تھی۔ لیکن اس بحالی کے بعد بھی ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم نے سینگھ جوڑے رکھے۔ ایسا سیاسی بحران پیدا ہوا کہ عسکری قیادت کو میدان میں آنا پڑا۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے مسئلے کا یہ حل دیا کہ غلام اسحاق خان اور نواز شریف دونوں گھر جائیں اور عوام ایک بار پھر نئی جمہوری قیادت کا انتخاب کریں۔ اس حل کو غلام اسحاق خان اور نواز شریف نے (بادل نخواستہ) قبول کر لیا۔ دونوں کو اپنے عہدوں سے بیک وقت استعفیٰ دینا تھا۔ صدر مملکت نے اپنے انگریزی میں لکھے استعفیٰ میں لفظ Resignationکی جگہ Relinquish the charge (چارج چھوڑتا ہوں) کے الفاظ استعمال کیے۔ نواز شریف کی جانب سے شکوک سے بھرا اعتراض سامنے آ یا کہ کہیں ایسا نہ ہو وہ استعفیٰ دے دیں اور اس کے بعد لفظوں کی شعبدہ بازی میں غلام اسحاق خان فائدہ نہ اٹھا لیں۔ انہوں نے عسکری ثالثوں سے گلہ کیا، ایوان اقتدار میں موجود ماہرین نے ڈکشنریاں کھولیں اور دونوں لفظوں کے لغوی اور اصطلاحی معنی تلاش کیے گئے۔ فیصلہ ہوا کہ غلام اسحاق خان سیدھا سیدھا Resignationکا لفظ لکھیں گے اور کوئی مبہم لفظ استعمال نہیں کریں گے۔اس قصے کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ انگریزی ہماری سرکاری زبان چلی آ رہی ہے، اگر انگریزی کی ایک اصطلاح پر ایوان اقتدار شکوک و شبہات میں پڑ سکتا ہے تو پھر انگریزی نہ سمجھنے والے عوام تو سرکاری چٹھیاں پڑھوانے کے لیے بابوئوں کو ہی ڈھونڈتے رہیں گے۔ اسی لئے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اردو اور انگلش میڈیم کا فرق ختم کرنے کے لیے اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کے احکامات دے ڈالے کہ یہ ایک آئینی تقاضا تھا جس سے مختلف حکومتیں 27 برس سے چشم پوشی کرتی آئی ہیں۔ اس کی وجہ بہت واضح ہے کہ جس طرح جاگیردار اور وڈیرے اپنے علاقوں میں اس ڈر سے سکول نہیں کھولنے دیتے کہ کہیں کمیوں اور مزارعوں کے بچے علم حاصل کر کے ان کے سامنے سر اٹھا کر نہ کھڑے ہو جائیں۔ اگر غریب اور متوسط طبقوں کے بچے سرکاری سکولوں میں پڑھ کر اچھی تعلیم حاصل کر بھی لیں تو انہیں طبقاتی نظام تعلیم کی مار دی جاتی تھی۔ پڑھ لکھ کر بھی اردو میڈیم اور انگلش میڈیم کا فرق صاف نظر آتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سفید پوش طبقہ بھی پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو انگلش میڈیم سکولوں میں بھیجنے کو ترجیح دیتا۔ اب جسٹس جواد ایس خواجہ نے اردو کے نفاذ کا دبنگ فیصلہ تو سنا دیا لیکن معاملہ وہی ہے کہ اس پر عمل انہوں نے کرنا یا کروانا ہے جن کی نوکریاں انگریزی کی مرہون منت ہیں۔
وفاقی حکومت نے 6 جولائی2015ء کو تمام وفاقی وزارتوں اور ان کے ماتحت ڈویژنز کو ایک مراسلہ بھیجا۔ اس مراسلے کی منظوری وزیر اعظم نواز شریف نے بقائمی ہوش و حواس دی۔ اس مراسلے کے مطابق وفاق اور اس کے زیر انتظام تمام اداروں کو تین ماہ کے عرصہ میں اپنی پالیسیاں، قوانین ، ویب سائٹس اور ہر طرح کے فارم کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنا تھا۔ تمام عوامی اہمیت کی جگہوں پر اردو کے سائن بورڈ زنصب کرنے تھے، یہاں تک کہ صارفین کے لیے بجلی، گیس، پانی، ٹیلیفون اور دیگر سرکاری بلوںکی اردو میں فراہمی یقینی بنانا تھے۔ وزیر اعظم کی جانب سے سپریم کورٹ کو یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ اردو کے نفاذ کے لیے یہ مراحل تین ماہ میں مکمل کر لیے جائیں گے، لیکن افسوس کہ یہ مدت ختم ہو گئی اورسابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے احکامات پر عملدرآمد ندارد ہے۔گزشتہ دنوں وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اردو کی بجائے انگریزی زبان میں خطاب کیا اور تنقید کرنے والوں کو موقع مل گیا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کر دی۔ مثالیں پیش کی گئیں کہ جب چین اور فرانس کے صدر سمیت دیگر عالمی راہنما جن کی قومی زبان انگریزی نہیں ہے، اگر وہ اپنی تقریر مادری یا قومی زبان میں کرنے کو ترجیح دیتے ہیں تو ہمارے وزیر اعظم نے فرنگی زبان کے استعمال سے کس کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔ حکومتی پیش رفت سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 251کے تحت اردو زبان کا سرکاری سطح پر مکمل نفاذ مشکل نظر آتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اردو کے
نفاذ کے سب سے بڑے محرک جسٹس جواد ایس خواجہ ریٹائر ہو چکے ہیں۔ ہمارے نظام میں تو حاضر سروس ججوں کے فیصلوں پر عملدرآمد کرانے کے لیے دھکا لگانا پڑتا ہے، ریٹائرڈ چیف جسٹس کے احکامات تو پھر دور کی بات ہوئی؛ اگرچہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اردو کے مقدمے پر عملدرآمد کی رپورٹ طلب کر رکھی ہے جو ان کے دیگر ساتھی جج صاحبان دیکھیں گے۔ لیکن بات وہی ہے کہ رپورٹس دینا اور رپورٹس لینا حکومت کے لیے کون سا مشکل کام ہے۔
اردو سے محبت اپنی جگہ لیکن سچی بات یہ ہے کہ برصغیر کی تاریخ میں تعلیم کے سب سے بڑے سفیر سر سید احمد خان نے بھی سامراجی نظام میں انگریزوں سے مقابلے کے لیے مسلمانوں کو انگریزی زبان سیکھنے کی ترغیب دی تھی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا آج بھی ہم بالواسطہ طور پر سامراجی قوتوں کی تحویل میں نہیں ہیں، کیا آج ہم ایک آزاد معاشرہ کہلا سکتے ہیں؟ کیا آج بھی مغربی آقائوں نے اپنا ایجنڈا ہم پر مسلط نہیں کر رکھا؟ کیا فرنگیوں کے ایجنٹ ہم پر حکمرانی نہیں کر رہے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا ہم نے سائنس اور دیگر علوم میں اتنی ترقی کر لی ہے کہ ترقی یافتہ قوموں کی زبان سے چھٹکارا حاصل کر لیں؟کیا ترقی یافتہ ملک کی زبان کو نظر انداز کرنا ہمیں دوبارہ پستی کی جانب نہیں دھکیل دے گا؟ ذریعہ تعلیم ہو، ذرائع پیغام رسانی یا ذرائع معلومات ، زبان کا انتخاب انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یوپی تاریخ میں جس دور کو Dark agesکا نام دیا جاتا ہے یہ دورعرب مسلمان سائنسدانوں اور دانشوروں کی علم و حکمت کے
بول بالا کا دور تھا۔ پھر مسلمانوں کا یہی علم و دانش یورپی زبانوں میں منتقل ہوا تو یورپ میںنشاۃ ثانیہ (Renaissance)کا سورج طلوع ہوا۔ آج سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں ہم اپنی رفتار کو دیکھیں تو کہا جا سکتا ہے کہ ہم Dark ages سے گزر رہے ہیں اورRenaissance کے انتظار میں ہیں۔ لیکن یہ نیا سورج اس وقت تک طلوع نہیں ہو گا جب تک ہم سائنسی میدان کا جدید علم و دانش حاصل نہ کر لیں۔ اورکڑوا سچ یہی ہے کہ فی الحال انگریزی کو بھلا کر آپ اپنے آباء کے علم و دانش اور اس پر ہونے والی جدید تحقیق تک صرف اردو کے سہارے رسائی حاصل نہیںکر سکتے۔
مگر وہ علم کے موتی،کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ
یہ کالم نہ تو اردو سے محبت میں لکھا جا رہا ہے اور نہ ہی انگریزی کی مخالفت میں، لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ جسٹس جواد ایس خواجہ پوری قوم کو اردو میڈیم بنانے کی بجائے طبقاتی نظام تعلیم کو ختم کرنے اور یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کا حکم دیتے۔ یکساں نصاب کا حکم دیتے۔ غریب کا بچہ بھی سرکاری سکول میں آکسفورڈ کی کتابیں پڑھتا۔ اسے بھی انگریزی پڑھانے والے قابل ٹیچر میسر آتے۔ وہ بھی انگریزی بول چال میں نجی سکولوں کے طالب علموں کے ہم پلہ ہوتے۔ غیر طبقاتی نظام میں اسے اردو میڈیم ہونے کا احسان کمتری نہ ہوتا۔ لیکن کیا گارنٹی ہے کہ ایسے کسی فیصلے پر بھی عمل ہوتا ہے یا نہیں۔ موجودہ صورت حال میں انگریزی کا پلہ بھاری نظر آتا ہے۔ ڈر یہ ہے کہیں ایسا نہ ہو اردو کے چکر میں متوسط طبقہ تھوڑی بہت انگریزی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے اور انگلش میڈیم طبقے کو مقابلے کاپورا میدان خالی مل جائے۔