"MMC" (space) message & send to 7575

ٹرمپ کی آمد

امریکی صدر ٹرمپ کی صدارت کا دوسرا دورانیہ 20جنوری 2025ء کو شروع ہو چکا ہے۔ ٹرمپ کو ناقابلِ پیش گوئی سمجھا جاتا ہے‘ اس مرتبہ ان کی انتخابی مہم بھی کافی جارحانہ تھی۔ انہوں نے منصِبِ صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد قوم سے خطاب کیا۔ کسی کی فطرت آسانی سے نہیں بدلتی‘ لیکن کہا جاتا ہے: زمانہ بہترین مُعلِّم ہے۔ پس ان کے تازہ خطابات سے جو اُن کی فکر سامنے آئی ہے‘ ہم اس کے اہم نکات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے گزشتہ آٹھ برسوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ''جن حالات سے مجھے گزرنا پڑا‘ ڈھائی سو سال میں امریکہ کے کسی صدر کو ان حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا‘‘۔ اُن کی شخصیت میں قدرے توازن کا ایک عملی ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے صدر بائیڈن کی تقریبِ حلف برداری کا بائیکاٹ کیا تھا‘ لیکن آج ان کی تقریب ِ حلف برداری میں بائیڈن اور ہیرس سمیت سابق صدور جارج بش‘ بل کلنٹن اور اوباما بھی موجود تھے‘ اس بار انہوں نے سب کا نام لیا۔
گزشتہ دورِ صدارت میں وہ اپنے خطابات میں اکثر 'اسلامک ٹیررازم‘ کی اصطلاح استعمال کرتے‘ پاکستان کو بھی نشانے پر رکھتے‘ لیکن موجودہ خطاب میں اُنکا انداز بدلا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا: حالیہ صدارتی انتخابات کو سب سے بڑے اور نتیجہ خیز انتخابات کے طور پر یاد رکھا جائے گا‘ جیسا کہ ہماری فتح نے ظاہر کیا کہ پوری قوم تیزی سے ہمارے ایجنڈے کیساتھ متحد ہو رہی ہے‘ عملی طور پر معاشرے کے تقریباً ہر طبقے کی جانب سے ہماری حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ نوجوان‘ بوڑھے‘ مرد و خواتین‘ افریقی‘ اسپینش‘ ایشیائی‘ عرب‘ الغرض سب نے ہمیں ووٹ دیا ہے۔ سات معلّق ریاستوں میں ہمیں فتح ہوئی اور بڑے پیمانے پر حمایت ملی۔ نیز انہوں نے سیاہ فام امریکیوں کے ہیرو مارٹن لوتھر کنگ کا نام لے کر کہا: آج مارٹن لوتھر کنگ کا دن ہے‘ یہ اُنکے اعزاز کا دن ہے اور ہم اُن کے خواب کو حقیقت میں بدلیں گے اور سچ ثابت کریں گے۔ واضح رہے: مارٹن لوتھر کنگ سیاہ فام امریکی رہنما تھے‘ انہوں نے انسانی حقوق میں امتیاز کے خلاف تحریک چلائی اور قتل کیے گئے۔ ان کا نام لینے کا مقصد یقینا سیاہ فام امریکیوں کے دل جیتنا تھا۔ گزشتہ دور میں وہ اپنے آپ کو صرف سفید فام امریکیوں کا نمائندہ سمجھتے تھے‘ اچھا ہے اب اُن کی سوچ میں وسعت پیدا ہوئی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کو بھی نشانہ نہیں بنایا۔
انہوں نے اپنی اسٹیبلشمنٹ کو بنیاد پرست اور بدعنوان قرار دیتے ہوئے کہا: ''انہوں نے ہمارے شہریوں سے طاقت اور دولت چھین لی ہے‘ ہمارا معاشرہ جن ستونوں پر قائم تھا‘ انہیں کمزور کیا ہے۔ اسی طرح انہوں نے عدلیہ کو بھی نشانہ بناتے ہوئے کہا: ''ہم اپنی خودمختاری دوبارہ حاصل کریں گے‘ ہماری سلامتی بحال ہو گی‘ انصاف کے ترازو کو دوبارہ متوازن بنایا جائے گا‘ ہماری حکومت کا محکمۂ انصاف کو ابلیسی‘ پُرتشدد اور غیر منصفانہ ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا سلسلہ ختم ہوگا‘ ہماری اولین ترجیح ایک ایسی قوم کی تخلیق ہو گی جو اپنے آپ پر فخر کرے‘ خوشحال اور آزاد ہو‘‘۔ یہ ہماری سیاسی قیادت کیلئے بھی ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ پارلیمنٹ میں ہمارے نمائندے ایک دوسرے کی توہین‘ تضحیک اور تذلیل تو بہت کرتے ہیں‘ لیکن اہم مواقع پر قومی اور ملّی وحدت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
ٹرمپ کا خطاب لفاظی کا شاہکار تھا‘ یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ ان الفاظ کی معنویت صدر ٹرمپ کے عملی کردارمیں ڈھلتی ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا: ''ہماری شاندار تقدیراور ہماری آزادیوں کی اب زیادہ دیر تک نفی نہیں کی جا سکے گی‘ ہم بہت جلد اپنی یکجہتی‘ اہلیت اور وطن سے وفا کو ثابت کریں گے‘ ہم ہر بحران کا مقابلہ وقار‘ قوت اور طاقت سے کریں گے۔ ہم نسل‘ مذہب‘ عقیدے اور رنگ کی تمیز کے بغیر سرعتِ رفتار سے کسی امتیاز کے بغیر ہر شہری کیلئے امید‘ خوشحالی اور امن کو واپس لائیں گے‘‘۔ انہوں نے اس بار دہشتگردی کو کسی مذہب یا ملک کیساتھ نہیں جوڑا‘ بلکہ کہا: ''ہمارا نظام خطرناک مجرموں کیلئے پناہ گاہ اور تحفظ فراہم کرتا ہے‘ مجرموں کی بڑی تعداد اور ذہنی اعتبار سے معذور افراد کے اداروں میں ہے‘ یہ لوگ غیر قانونی طور پر ہمارے ملک میں داخل ہوئے ہیں‘ ہماری حکومتیں دوسرے ممالک کی سرحدوں کے دفاع کیلئے تو لامحدود رقوم خرچ کرتی رہی ہیں‘ لیکن اپنے ملک کی سرحدوں کے تحفظ میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کیا‘‘۔ پس غیر قانونی تارکینِ وطن ٹرمپ کا نشانہ بنے رہیں گے‘ ان میں زیادہ اسپینش ہیں جو میکسیکو سے امریکی سرحد پار کر کے امریکہ میں داخل ہوتے ہیں۔ اس لیے ٹرمپ نے امریکہ کی جنوبی سرحد پر ایمرجنسی لگانے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے: فوج اس کی نگرانی کرے گی۔ پہلے سرحدوں کی نگرانی 'ہوم لینڈ سکیورٹی‘ کی ذمہ داری تھی۔
امریکہ میں پیدا ہونے کے سبب امریکی آئین کی رو سے شہریت کا حق مل جاتا ہے‘ اس لیے کئی امیر لوگ اپنی بیویوں کو زچگی سے پہلے امریکہ لے جاتے ہیں تاکہ بچہ وہاں کے ہسپتالوں میں پیدا ہو اور پیدا ہوتے ہی امریکی پاسپورٹ مل جائے‘ ٹرمپ اس رعایت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے: آئینی ترمیم کے بغیر یہ رعایت ختم نہیں کی جا سکتی اور آئینی ترمیم کیلئے کانگریس میں دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے‘ جو سرِدست ٹرمپ کو دستیاب نہیں ہے۔ لہٰذا یہ معاملات سپریم کورٹ تک جائیں گے۔ ایک ماہر کے بقول‘ ممکن ہے جو لوگ غیر قانونی طور پر امریکہ میں مقیم ہیں یا اُن کا امریکہ میں داخلہ قانونی طور پر نہیں ہوا‘ عدالتیں انہیں اس سہولت سے محروم کر دیں‘ لیکن جو لوگ قانونی طور پر امریکہ میں مقیم ہیں یا قانونی دستاویزات کے ساتھ امریکہ میں داخل ہوئے ہیں‘ شاید انہیں محروم نہ کیا جا سکے۔ آخرکار عدالتوں سے کیا فیصلہ آتا ہے‘ یہ وقت بتائے گا۔
ٹرمپ نے امریکی نظامِ صحت اور مجموعی نظام پر بھی تنقید کی‘ نارتھ کیرولائنا کے طوفان اور لاس اینجلس کی آتشزدگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ قدرتی آفات سے امریکیوں کی تحفظ میں ناکام رہا ہے‘ اس نے لاس اینجلس کی آتشزدگی کے امیر متاثرین کی بحالی کا وعدہ کیا ہے۔ ریپبلکن پارٹی ویسے بھی سرمایہ داروں کے مفادات کی محافظ ہے۔ ٹرمپ کی تقریبِ حلف برداری میں صفِ اول میں امیر ترین طبقے کے افراد ایلون مسک‘ مارک زکربرگ اور جیف بیزوس کی موجودگی پیغام ہے کہ ٹرمپ کا موجودہ دور سرمایہ داروں کے عروج کا دور ہوگا اور ریاست اُن کے مفادات کی محافظ ہوگی۔ ٹرمپ نے امریکیوں میں جوش اور ولولہ پیدا کرنے کیلئے بہت بلند بانگ دعوے کیے ہیں‘ مصنوعات کی صنعتوں کو واپس لانے کا خواب دکھایا ہے‘ زیرِ زمیں سیّال سونے یعنی قدرتی ذخائر کو استعمال کرکے منہگائی کو کم کرنے کا یقین دلایا ہے‘ نیز مرّیخ پر خلانورد اتارنے اور امریکی جھنڈا گاڑنے اور فضائوں کی تسخیر کا وعدہ کیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ اُنہوں نے خود کو امن کے علمبردار کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا ہے: میں امن پسند اورقوم کومتحد کرنے کی وراثت چھوڑ کر جائوں گا‘ نیز انہوں نے جنگیں روکنے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے‘ پس یوکرین کی جنگ کو ختم کرنا ان کیلئے آزمائش ہو گی۔ نیز انہوں نے اپنا ہدف چین‘ پاناما اور میکسیکو کو قرار دیا ہے‘ خلیجِ میکسیکو کا نام بدل کر خلیجِ امریکہ رکھ دیا ہے اور نہرِ پاناما کو حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے‘ جو اس وقت چین کے انتظامی کنٹرول میں ہے۔ ایسا ہو پاتا ہے یا نہیں‘ یہ وقت بتائے گا۔ انہوں نے غزہ کی عارضی جنگ بندی کا سہرا اپنے سر باندھا اور کہا: یہ الیکشن میں ہماری غیر معمولی کامیابی کا نتیجہ ہے اور یہ کسی حد تک درست بھی ہے‘ کیونکہ بائیڈن پندرہ ماہ میں جنگ بندی کرانے میں ناکام رہے۔ کہا جاتا ہے: نیتن یاہو کو ٹرمپ کے سفارتی نمائندے نے معاہدہ قبول کرنے پر مجبور کیا۔ ہمارے نقطۂ نظر سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے دوٹوک انداز میں اعلان کیا کہ جنسی صنف صرف دو ہیں: مرد یا عورت‘ اس سے ایل جی بی ٹی کے فتنے کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ نیز ہماری اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کیلئے سبق ہے‘ وہ میڈیا میں شہرت کیلئے ایسے معاملات کو بہت اچھالتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں