دنیا میں جو واقعات رونما ہوتے ہیں اُن کے بارے میں اہلِ فکر ونظر کے نقطۂ نظر دو ہوتے ہیں: ایک مادّی کہ ہر چیز کو اسباب کے تحت دیکھتے ہیں اور رائے قائم کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ بلاشبہ یہ عالَمِ اسباب ہے اور دنیا میں رونما ہونے والے واقعات میں مسبَّب کا سبب کے ساتھ ایک تعلق ہوتا ہے لیکن اسباب مؤثر بالذّات نہیں ہوتے‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہوتے ہیں جو کہ مُسَبِّبُ الْاَسْبَاب ہے۔ اس لیے کامیابی ملے یا ناکامی‘ اہلِ ایمان صرف اسباب پر ہی غور نہیں کرتے‘ بلکہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس میں مسبّب الاسباب کی مشیت ہی مؤثر بالذات ہے‘ لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ کی غیبی تائید اور نصرت سے بے نیاز نہیں رہ سکتے۔ مزید یہ کہ کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھنا بلاشبہ ہرکامیاب انسان کا استحقاق ہوتا ہے‘ لیکن وہ اپنی حُسنِ تدبیر‘ دستیاب اسباب اور حُسنِ کارکردگی ہی کو مؤثر بالذّات نہیں مانتا‘ بلکہ کامیابی کو اللہ تعالیٰ کی طرف تفویض کرتا ہے اور خدا نخواستہ ناکامی ہو تو اُس کی نسبت اپنی تدبیر یا کارکردگی کی طرف کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''(اے مخاطَب!) تمہیں جو بھلائی پہنچتی ہے تو وہ اللہ کی طرف سے ہے اور تمہیں جو برائی پہنچتی ہے تو وہ تمہاری اپنی ذات کے سبب ہے‘‘ (النسآء: 79)۔
7 تا 10مئی پاکستان کی بھارت کے ساتھ جو جنگ ہوئی‘ اسے بھارت نے ٹریلر کہا ہے۔ ٹریلرسے مراد آئندہ ممکنہ طور پر کسی رونما ہونے والے واقعے کی ایک جھلک ہوتی ہے‘ پس ہمیں بھی اسے ٹریلر ہی سمجھنا چاہیے۔ ایک ایسے دشمن کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح ونصرت عطا فرمائی ہے‘ جس کی آبادی ہم سے کم وبیش چھ گنا‘ رقبہ چار گنا‘ افواج اور سامانِ حرب تین گنا‘ دفاعی بجٹ دس گنا اور معاشی قوت کے لحاظ سے تو کوئی تناسب ہی نہیں ہے۔ اس پر پوری پاکستانی قوم کو مُجسّم تشکّر وامتنان بن کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور تکبر واستکبار‘ نَخوت و غرور میں مبتلا ہونے کے بجائے سراپا پیکرِ عَجز وانکسار بننا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کو بندوں کا جو وصف سب سے زیادہ پسند ہے‘ وہ تواضع ہے۔ دینی امور میں تواضع کے معنی ہیں: رب کی رضا پر راضی ہونا‘ یعنی بندہ رب کی بندگی محض اس لیے نہ کرے کہ دین کی بات اس کے مزاج اور عادت کے مطابق ہے‘ بلکہ اس لیے کرے کہ وہ شارع کا حکم ہے‘ دین کیلئے عاجزی اختیار کرنا‘ یعنی رسول اللہﷺ کے حکم کے آگے جھک جانا۔ تواضع اعلیٰ انسانی قدر ہے‘ اللہ تعالیٰ کو بندے کا یہ وصف بہت پسند ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''صدقے سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی‘ معاف کرنے سے اللہ عزت میں اضافہ فرماتا ہے اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کے حضور تواضع کرے‘ اللہ اُسے رفعت عطا فرماتا ہے‘‘ (مسلم: 2588)۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ متواضع بندہ اپنے دل میں کشادگی رکھتا ہے اور دوسروں کی غلطی معاف کر دیتا ہے۔ ایک عَجز وانکسار اضطراری ہے جو حالات کے جبرکا نتیجہ ہوتا ہے۔ شیخ سعدی نے کہا ہے: ''گداگر تواضع کند خوئے اُوست‘‘۔ یعنی فقیر اگر عاجزی اختیار نہ کرے‘ تو اُسے خیرات کون دے گا‘ یہ تو اس کی مجبوری ہے۔ لیکن اگر کوئی عالی منصب تواضع کرے تو یہ اس کا وصفِ کمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے نتیجے میں اسے رفعت وسرفرازی عطا فرماتا ہے۔
حدیث پاک میں ہے: ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: عائشہ! اگر میں چاہوں تو سونے کے پہاڑ میرے ساتھ چلیں‘ میرے پاس ایک فرشتہ آیا‘ اس کی کمر کعبے کے برابر تھی‘ اس نے کہا: آپ کے رب نے آپ کو سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے: آپ چاہیں تو نبوت اور بندگی کو اختیار کر لیں اور چاہیں تو نبوت اور بادشاہت کو اختیار کر لیں‘ تو میں نے جبریل علیہ السلام کی طرف دیکھا‘ انہوں نے مجھے اشارہ کیا کہ عَجز کو اختیار کریں‘ تو میں نے کہا: میں نبوت اور بندگی کو اختیار کرتا ہوں‘‘ (شَرْحُ السُّنَّہ‘ج: 13‘ ص: 348)۔
''معراج کے موقع پر جب نبیﷺ درجاتِ عالیہ اور مراتبِ رفیعہ میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی: ''اے محمد! میں آپ کو شرف دینا چاہتا ہوں‘ آپﷺ نے عرض کی: اے میرے رب! مجھے اپنی خصوصی بندگی کا شرف عطا کیجیے تو اللہ تعالیٰ نے آیتِ معراج نازل فرمائی‘‘ (سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَاد‘ج: 3‘ ص: 11)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ کا فقر اضطراری نہیں بلکہ اختیاری تھا؛ چنانچہ آپﷺ نے فرمایا: ''مجھے کمزوروں میں تلاش کرو‘ کیونکہ تمہیں انہی کمزوروں کی (دعائوں کی) برکت سے رزق عطا کیا جاتا ہے اور نصرتِ الٰہی نصیب ہوتی ہے‘‘ (ترمذی: 1702)۔
لوگوں کا ظاہری حال دیکھ کر انہیں حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ حدیث پاک میں ہے: ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: بہت سے پراگندہ حال ایسے ہیں کہ انہیں دروازوں سے دھتکار دیا جاتا ہے (دوسری حدیث میں ہے: ''(ظاہری حال کودیکھ کر) لوگ ان کی طرف نظرِ التفات نہیں کرتے‘ المستدرَک: 7932) لیکن (اللہ کی بارگاہ میں ان کا مقام یہ ہے کہ) اگر وہ کسی بات کے بارے میں اللہ کی قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ انہیں سرخرو فرماتا ہے‘‘ (مسلم: 2622)۔ حدیثِ پاک میں ہے: حضرت سعدؓ نے (اپنی شجاعت کے سبب) یہ سمجھا کہ انہیں دوسرے لوگوں پر فضیلت حاصل ہے تو نبیﷺ نے فرمایا: تمہیں جو نصرتِ الٰہی ملتی ہے اور رزق عطا کیا جاتا ہے‘ وہ تمہارے کمزوروں (کی دعائوں) کے طفیل ہے‘‘ (بخاری: 2896) مزید فرمایا: ''کمزوروں کی عبادات‘ دعائوں اور اخلاص کے طفیل اللہ تعالیٰ اس امت کے (مجاہدین کی) نصرت فرماتا ہے‘‘ (نسائی: 3178)۔ بعض صحابہ اپنی شَجاعت اور میدانِ جہاد میں نمایاں کارکردگی کے سبب اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھتے تھے تو رسول اللہﷺ نے انہیں عَجز وانکسار کی تعلیم دی اور عُجبِ نفس میں مبتلا ہونے سے بچایا۔
الغرض ہم نے حسبِ توفیق جشنِ فتح منا لیا‘ اگرچہ یہ فتح اُس معنی میں نہیں ہے کہ میدانِ جنگ میں فریقِ مخالف نے شکست تسلیم کر کے باقاعدہ ہتھیار ڈال دیے اور ہماری فتح کو حقیقت پسندی کے ساتھ تسلیم کر لیا‘ بلکہ اس فتح کے معنی یہ ہیں کہ مشترکہ دوستوں کے توسّط سے جنگ بندی کی پیشکش پہلے بھارت نے کی اور پھر پاکستان نے اسے قبول کیا۔ پاکستان کی ترجیح تو جنگ کبھی نہیں تھی‘ اس لیے وہ بھارت کو کھلے دل سے پیشکش کر چکا تھا کہ پہلگام واقعہ کی غیر جانبدار ذرائع سے تحقیقات کرا لی جائیں‘ اگر اس میں بھارت کے پاس پاکستان کے ملوّث ہونے کے شواہد ہیں تو پیش کرے۔ لیکن اُس وقت بھارت تکبر اور غرور میں مبتلا تھا‘ اُس نے پاکستان کی اس پیشکش اور امن پسندی کو کمزوری پر محمول کیا۔ پاکستان کی حربی صلاحیت کو کمتر اور اپنی صلاحیت کو حد سے زیادہ سمجھا‘ اسی تکبر نے اُسے ذلّت سے دوچار کیا۔ بھارت کے دعووں کے باوجود مغربی دنیانے اس کی برتری کے موقف کو ردّ کر دیا اور پاکستان کی برتری کو تسلیم کر لیا‘ کیونکہ شواہد اُن کے سامنے تھے۔ اس فتح کے معنی یہ ہیں کہ پاکستان نے برتر پوزیشن میں رہتے ہوئے جنگ بندی قبول کی‘ اسی کو جدید اصطلاح میں ''نیو نارمل‘‘ سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ مگر پاکستان کو ہر وقت بیدار اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے‘ جنگ کا خطرہ ٹلا نہیں ہے‘ کیونکہ بھارت نے اسے وقفے سے تعبیر کیا ہے۔ ''سندھ طاس معاہدے‘‘ سے ہماری بقا وابستہ ہے‘ بھارت کو اسے یکطرفہ طور پر معطّل یا منسوخ کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جا سکتی۔ اگر بھارت اپنی برتری کے زعم میں اس پر کوئی مزید اقدام کرے گا تو پھر پاکستان کیلئے نتائج سے بے پروا ہو کر جوابی اقدام ناگزیر ہو گا۔ اس لیے ہمیں تمام تر دستیاب ممکنہ اسباب کے حصول کی کوششوں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعائوں کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔ عزت اور ذلّت اُسی کے دستِ قدرت میں ہے۔ قوم کو اعتماد اور حوصلہ دینے کے ساتھ ساتھ آئندہ ممکنہ خطرات کیلئے بھی ذہنی طور پر تیار رکھنا چاہیے تاکہ اچانک کوئی نازل ہونے والی مصیبت حوصلہ شکنی کا باعث نہ بنے۔