"MBC" (space) message & send to 7575

مسجدیں :سیاسی انقلاب کا ذریعہ

ہماری مسجدیں،ایوانِ اقتدار ،پارلیمنٹ ، غیر ملکی وفود کے لیے نشست گاہ ہونی چاہئیں آج ہم اپنے معاشرے میں جب مسجد کا لفظ بولتے ہیں تو ہمارے ذہن میں ایک ایسا مذہبی مقام آتا ہے، جہاں نماز پڑھی جاتی ہے، جہاں جمعہ اور عیدین کا اجتماع ہوتا ہے۔ جہاں قابض یا مالک مذہبی فرقے کے نقطۂ نظر سے مختلف کوئی بات کرنا ناممکن ہوتا ہے، اگر کوئی حوصلہ مند ایسی بات کر دے تو اس کے لیے جان بچانا مشکل ہوجاتا ہے، دوسرے فرقے کے مسافر لوگ اگر وہاں رات بسر کرنے کی کوشش کریں تو انھیں باہر نکال دیا جاتا ہے اور جس کا لاؤڈ اسپیکر شب وروز بڑی فراخ دلی کے ساتھ استعمال ہوتاہے اور یوں ہمسایوں کے حقوق خوب ادا کئے جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہماری مسجدیں (معاذاللہ) اللہ کا گھر نہیں رہیں ،مذہبی فرقوں کی ریاستیں بن گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف فرقوں کے مابین ان ’’ریاستوں‘‘ پر حملہ اور قبضہ کرنے کی کوششیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ ہمارے ملک کے ایک مذہبی فرقے کے عالم دین نے ایک جماعت بنائی ۔ ایک صحافی کو انھوں نے جماعت بنانے کا ایک مقصد یہ بھی بتایا کہ ہماری بعض مسجدوں پر ایک فرقے نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ ہم ان سے وہ مسجدیں چھڑائیں گے۔ پھر انھوں نے ایک خاص تعداد کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ہم اتنی مسجدیں واپس لے چکے ہیں اور اس جدوجہد میں ہمارے اتنے ساتھی شہید ہو چکے ہیں۔ ایک دفعہ ایک دانش ور نے ’’مسجدیں وا گزار ‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا: ’’میں نے برطانیہ کے ایک شہر میں بند مسجد دیکھی جسے شاہ فیصل کی مالی امداد سے تعمیر کیا گیا تھا اور جو اس وقت برطانوی پولیس کی تحویل میں تھی۔ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے فرقوں میں اختلاف اس حد تک بڑھا کہ مسجد عبادت گاہ کی جگہ مقام فساد بن گئی۔ برطانوی حکومت نے کہا کہ ہمیں نہ کسی دیو بندی سے غرض ہے ،نہ کسی بریلوی سے، ہمیںتو اپنے ملک میں امن و امان درکار ہے ، اس لیے یہ مسجد بند کی جاتی ہے، جب امن کی یقین دہانی کرائی جائے گی تو مسجد کھول دی جائے گی۔ اسی طرح لاہور شہر میں دیکھا گیا کہ نماز جمعہ کے وقت مسجد کے باہر پولیس پہرہ دے رہی ہے ، اندر مولوی صاحب چنگھاڑ رہے ہیں ۔ … جب لاہور کی ایک مسجد میں نماز جمعہ پولیس کے پہرے میں ادا ہوتے دیکھی تو سر شرم سے جھک گیا… نئی نسل کی اکثریت جو یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھتی ہے ،علماء کے یہ رنگ ڈھنگ دیکھ کر اسلام سے ہی برگشتہ ہو گئی۔ ہمارے مذہبی رہنماؤں نے محراب و منبر سے جو اسلام پیش کیا اور اس کی تبلیغ و غلبہ کے لیے جو طریقے استعمال کیے، وہ جدید اور کشادہ ذہن کے نوجوانوں کو قبول نہیں تھے ۔ وہ ویسے ہی جدید دور کی تہذیب سے متاثر تھے،موجودہ ’’مسجد‘‘ انھیں اور دور لے گئی اور یہ بدامنی اور دہشت گردی ملک کی معاشی زندگی پر بھی قیامت بن کر ٹوٹ پڑی۔ پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری مسجدیں کیسی ہونی چاہئیں؟ہماری مسجدیں تو مسجد نبوی ، مسجد قبا کی طرح ہونی چاہئیں۔ ہماری مسجدیں فرقہ نہیں، تقویٰ کی بنیاد پر قائم ہونی چاہئیں۔ ہماری مسجدیں فتوے نہیں، علم کو فروغ دینے والی ہونی چاہئیں۔ ہماری مسجدیں خلفشار نہیں، اتحاد کی تعلیم دینے والی ہونی چاہئیں۔ ہماری مسجدیں تنگ نظری نہیں، وسیع القلبی کا درس دینے والی ہونی چاہئیں۔ ہماری مسجدیں نفرت نہیں، محبت کی ترغیب دینے والی ہونی چاہئیں۔ ہماری مسجدیں صرف اسلام اور مسلمانوں کی مسجدیں کہلانی چاہئیں۔ ہماری مسجدیں ہر مسلمان کو اپنی مسجدیں محسوس ہونی چاہئیں۔ہماری مسجدیں نوجوان مسلمانوں کو اسلام کے قریب لانے کا باعث ہونی چاہئیں۔ ہماری مسجدیں ہر صاحب علم کے درس کے لیے کھلی ہونی چاہئیں۔ ہماری مسجدیں سیاسی اور معاشرتی مرکز کی حیثیت کی حامل ہونی چاہئیں۔ ملائشیا،متحدہ عرب امارات، سعودی عرب،بحرین اور ایران میں مساجد کی تعمیر اور دیکھ بھال بنیادی طور پر حکومت کے ذمہ ہے ،چنانچہ یہ دیکھا جاسکتاہے کہ وہاں مذہبی مسائل کس قدر کنٹر ول میں ہیں۔ایران میں قانون کے مطابق کوئی شیعہ یا سنی مسجدنہیںہے۔تمام مساجد اللہ کے گھر ہیں۔جن علاقوں میں اہل سنت کی اکثریت ہے وہاںاہل تشیع کو اپنی مسجد بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ان کے لیے یہی قانون ہے کہ وہ اہل سنت امام کے پیچھے ہی نماز پڑھیں۔ایسے اہل سنت ان علاقوں میں یہ طرز عمل اختیار کریں جہاں اہل تشیع کی اکثریت ہے۔ایران میں بالعموم اسی قانون پر عمل ہوتاہے۔ ہمارے ہاں علما حکمرانوں اور سیاست دانوں کو خوب بُرا بھلاکہتے ہیں۔ان کی امانت اور صداقت پر اعتراض کرتے ہیں۔لانگ مارچ کرتے ہیں۔دھرنے دیتے ہیں۔خطبہ جمعہ کا موضوع عام طور پر مخالف فرقہ ہوتا ہے یا حکمرانوں کی بدکرداریاں۔رسو ل اللہﷺ نے مسجد کے حوالے سے جو سنت قائم کی تھی ،علما نے اس سے مجرمانہ چشم پوشی کا مظاہرہ کیاہے ۔آج اگر پروفیسر طاہر القادری ، مولانا فضل الرحمن،سید منور حسن اور تمام مذہبی رہنما پوری سرگرمی کے ساتھ یہ مہم چلائیں کہ حکمران مساجد کے معاملے میں اپنی ذمہ داری نبھائیںتوانقلاب کا اہم سلسلہ شروع ہوسکتاہے۔یہ لوگ فوراً اپنی مساجد حکومت کے حوالے کرنے کا اعلان کر دیں۔ یہ ایک مشکل کام ہے۔ اس لیے تدریج کے ساتھ ہی ہوگا مگر آغاز تو ہوجائے ۔ حکمرانوں کا مسجد سے تعلق قائم ہوگا تو اللہ و رسول سے بھی قائم ہوگا۔ اس سے ان کے اندر کرپشن سے بھی بیزاری پیدا ہونے لگے گی ۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ چند برسوں میں ملک میں کیا تبدیلی آسکتی ہے۔سیاست دانوں اور حکمرانوں کی ایک خوبی کا بہرحال اعتراف کرناپڑتاہے کہ ان کے اندر متعصب اورفرقہ پرست مولویوںکے مقابلے میںاجتماعی شعور بہتر سطح پر ہوتا ہے اس لیے جب یہ مساجدکا کنٹرول سنبھالیں گے توفرقہ بندی کی رگوں کو خون ملنا بھی بند ہوجائے گا۔مساجدکے ماحول میں وسعت پیدا ہوگی جو معاشرے میں بھی خوش گوار صورت حال پیدا کرے گی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں