کُل جماعتی کانفرنس؟ کون سی کل جماعتی کانفرنس؟ ہر ذی ہوش کو علم ہے کہ یہ ایک سیاسی سرگرمی تھی۔ مولانا فضل الرحمن کو سیاسی پیش منظر پر نمایاں سے نمایاں تر کرنے کے لیے۔ وکی لیکس نے بتایا تھا کہ انہوں نے امریکیوں سے وزیراعظم بننے کے لیے مدد چاہی تھی۔ کل جماعتی کانفرنس کے بعد بھی انہوں نے امریکی سفیر کو اپنی کارکردگی سے آگاہ کیا۔ ان کی اُفتادِ طبع انہیں بلند سے بلند تر کرنا چاہتی ہے۔ انگریزوں نے اس کے لیے ایک لفظ بنایا ہے AMBITIOUS۔ اس میں قباحت بھی کوئی نہیں۔ ہر شخص کو اپنے ارمان پورے کرنے کا حق ہے۔ اگر اس ملک میں بلخ شیر مزاری، جتوئی اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بن سکتے ہیں تو فضل الرحمن کیوں نہیں؟ کم از کم وہ ہر روز نیا ڈیزائنر سوٹ تو نہ پہنیں گے اور کرپٹ بیوروکریٹ انہیں شیشے میں بھی نہ اُتار پائیں گے۔ سب درست لیکن کل جماعتی کانفرنس محض ایک سیاسی سرگرمی تھی۔ اس میں اے این پی کے لیے بھی ’’جوابِ آں غزل‘‘ تھا۔ پاکستانی طالبان سے معاملہ کرنا اتنا آسان ہوتا تو کنونشن سنٹر میں کل جماعتی کانفرنس بہت پہلے منعقد ہو جاتی۔ اصل فریق تین ہیں۔ پاکستانی عوام، جن کے بچے، عورتیں، بوڑھے اور مرد خودکش دھماکوں کی نذر ہوئے۔ پاکستانی افواج، جن کے افسروں اور جوانوں کے گلے کاٹے گئے اور طالبان خود۔ کل جماعتی کانفرنس میں ان تینوں کی نمائندگی نہیں تھی۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ طالبان جو صرف قبائلیوں پر مشتمل نہیں، ان میں تمام پاکستانی علاقوں کے لوگ شامل ہیں، اگر جنگی سرگرمیوں سے باز آ جائیں تو کریں گے کیا؟ ؎ کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا مسئلہ مائنڈ سیٹ کا ہے۔ بے شمار مدرسوں میں پانی پاکستان کا پیا جاتا ہے اور امیر المومنین ملا عمر کو کہا جاتا ہے۔ اس کالم نگار نے چند ماہ قبل سکردو کی ایک مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کی۔ مولوی صاحب نے آدھی تقریر ملا عمر کے فضائل پر کی۔ لاکھوں نرسریاں ہیں جن میں پودوں کو پانی دیا جا رہا ہے۔ ان پودوں کو تناور درخت بننے سے کون روک سکتا ہے؟ کون سی کل جماعتی کانفرنس؟ کون سا الیکشن کمیشن؟ کون سے انتخابات؟ کل کے اخبارات میں جو خبر شائع ہوئی، اس سے دل بیٹھ رہا ہے۔ اس ملک کے سیاست دان اس ملک کو کبھی پھلنے پھولنے نہیں دیں گے۔ ان کی ذہنیت بیمار ہے۔ مالی کرپشن بعد کی بات ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا سیاست دان ذہنی افلاس کا شکار ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اسے درست نہیں کر سکتی۔ جس ملک میں سیاست دان میرٹ کا قتل کریں اور اس میں ملک کا وزیراعظم پیش پیش ہو‘ اس میں کون بدبخت رہنا پسند کرے گا۔ خبر کے مطابق وفاقی حکومت نے اپنی مدت ختم ہونے سے قبل سیاسی سفارشوں پر کمرشل اتاشیوں کی تعیناتیاں کر دیں۔ سفارش کرنے والوں میں وزیراعظم، نائب وزیراعظم، وزراء اور بیوروکریسی بھی شامل ہیں۔ چوالیس میں سے صرف چھ افسروں کو سفارش کے بغیر تعینات کیا گیا ہے۔ سفارش کرنے والوں کے نام دیکھیے: جو صاحب باکو میں تعینات ہوئے ہیں ان کے سفارشی وزیراعظم راجہ پرویز اشرف خود ہیں۔ جو صاحب میکسیکو میں لگائے گئے، ان کی سفارش بھی وزیراعظم نے کی۔ جو افسر میڈرڈ میں پوسٹ ہوا ہے اس کی سفارش بھی وزیراعظم نے کی۔ امین فہیم بھی اس کے سفارشی ہیں۔ سڈنی میں پوسٹ ہونے والے افسر کے سفارشی بھی وزیراعظم ہیں۔ تہران میں جو لگا ہے اس کی سفارش بھی وزیراعظم نے کی۔ جس شخص کو شکاگو میں تعینات کیا گیا ہے اس کی سفارش راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی دونوں نے کی۔ ریاض میں تعینات ہونے والے کے سفارشی بھی وزیراعظم ہیں۔ نیروبی میں بھی تعیناتی وزیراعظم نے کرائی۔ باقی گھوڑوں کے مالکان یہ ہیں: بیجنگ میں جس شخص کی تقرری ہوئی اس کے سفارشی نائب وزیراعظم پرویز الٰہی ہیں۔ بنکاک والے کے سفارشی خورشید شاہ ہیں۔ اوساکا والے کے سفارشی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین ندیم افضل چن ہیں۔ آستانہ (قازقستان) والے کے ڈپٹی سپیکر فیصل کریم کنڈی۔ جوہانسبرگ والے کے رانا فاروق سعید اور امین فہیم، مانچسٹر والے کے میر ہزار خان بجرانی، مونٹریال والے کے امین فہیم۔ واشنگٹن والے کے امین فہیم اور یوسف رضا گیلانی۔ ہیگ والے کے حبیب اللہ کلور، پیرس والے کے وزیر خزانہ سلیم مانڈی والا۔ کابل کے لیے مولانا فضل الرحمن نے سفارش کی۔ پراگ کے لیے امین فہیم اور چنگیز جمالی دونوں کام آئے۔ یہاں یہ ذکر بھی کر دینا چاہیے کہ ان امیدواروں کو کامیاب کرنے کے لیے امتحان میں مطلوبہ نمبروں کی حد بھی 60 سے کم کرکے 40 کی گئی تھی۔ ان لوگوں کو منتخب کرنے کی سرگرمی کا آغاز 2010ء میں ہوا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے دھاندلی روکنے کے لیے حکم امتناعی دے دیا پھر جب حکومت نے یقین دلایا کہ تقرریاں میرٹ پر کی جائیں گی تو عدالت نے حکم امتناعی ختم کیا اور اب خبر کے مطابق وزارت تجارت کے حکام نومنتخب کمرشل اتاشیوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ڈپلومیٹک پاسپورٹ ملنے کا انتظار کیے بغیر متعلقہ ممالک میں جا کر جلد از جلد اپنے عہدے سنبھال لیں۔ جس ملک میں خود وزیراعظم میرٹ کا گلا گھونٹ کر اپنے پسندیدہ افسروں کو منتخب کروا رہا ہے، اس میں باقی سیاست دان کیسے ہوں گے۔ یہ اندازہ کرنے کے لیے زیادہ ذہانت کی ضرورت نہیں۔ وزیراعظم تو پورے ملک کے نوجوانوں کے باپ کی طرح ہے۔ اسے تو میرٹ کی بالادستی قائم کرنی چاہیے۔ وزیراعظم اگر ملک کے خیر خواہ ہوتے تو اس امر کو یقینی بناتے کہ ساری تقرریاں میرٹ اور صرف میرٹ پر ہوں۔ یہ کام مشکل نہ تھا۔ لیکن ہمارا سیاست دان بدعنوانی کے بغیر ایک لمحہ بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ مالی بدعنوانی، ٹیکس چوری، بغیر لائسنس اسلحہ، ڈیروں پر مجرموں کی پُشت پناہی، تقرریوں، تبادلوں،تعیناتیوں میں مکروہ عمل دخل، استانیوں، پٹواریوں، ڈپٹی کمشنروں، تھانیداروں کے تبادلوں میں انتہا درجے کی دلچسپی، بھرتیوں میں اپنا حصہ جگا ٹیکس کی طرح۔ پستی اس سطح پر اتر آئی ہے کہ واپڈا کے اہلکاروں کی تقرریوں پر بھی سیاست دانوں کے جھگڑے رپورٹ ہوئے ہیں اور گلیاں پکی کرانے میں بھی انہی کا عمل دخل ہے جبکہ کام ان کا اسمبلیوں میں بیٹھ کر قانون سازی کا تھا! کون سی کل جماعتی کانفرنس اور کون سا الیکشن؟ جو سیاست دان ٹہنیوں پر بیٹھ کر چہچہا رہے ہیں وہی تو درخت کی جڑوں کو کاٹ رہے ہیں۔ یہ میرٹ کے دشمن ہیں اور جو میرٹ کا دشمن ہے وہ ملک کا دشمن ہے۔ اس سے بھی بڑا المیہ ہے کہ جب بات کی جائے تو اس میرٹ کُشی کو یہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان کے دل سیاہ ہو چکے ہیں۔ ذہنوں پر تالے لگے ہیں۔ بادلوں کے اوپر سے ایک آواز آ رہی ہے ’’تم میں اگر ٹیلنٹ ہے تو یہاں سے نکل بھاگو، یہاں تمہارا کوئی مستقبل نہیں۔ یہاں صرف اس کا مستقبل ہے جس کی جیب میں سیاست دان ہیں۔ نکلو۔ بھاگو۔ پاسپورٹ بنوائو، ویزے لگوائو۔ کفار کے ملکوں میں میرٹ تمہارا انتظار کر رہا ہے۔ اسلام کے اس قلعے میں تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں ؎ زمین پر آگ سینہ سینہ بھڑک رہی ہے فلک پہ ہجرت ستارہ بن کر چمک رہی ہے اور اب اسے ایک غیب کا ہاتھ اُنڈیل دے گا کہ ظلم کی انتہا سے بستی چھلک رہی ہے