لمباتڑنگا علائوالدین جسے اس کے دوست پیار سے اللہ دین کہتے ہیں سوڈان کا ہے ۔ وہ کئی سال سعودی عرب میں میڈیکل کی پریکٹس کرکے آسٹریلیا آیا جہاں وہ ’’جسمانی بحالی‘‘میں مہارت حاصل کررہا ہے۔ یہ میڈیکل کے میدان میں ایک نسبتاً نیا شعبہ ہے۔ اس کی بیوی بھی سوڈانی ہے اور ماہر نفسیات کے طورپر کامیاب پریکٹس کررہی ہے ۔ آسٹریلیا میں قیام کے دوران علائوالدین کے ساتھ اکثر ملاقات رہتی ہے اس لیے کہ دوستوں کا حلقہ مشترکہ ہے۔ ایسی ہی ایک نشست میں میں نے اس سے پوچھا کہ جنوبی سوڈان کے نصرانی ملک سے الگ ہوگئے ہیں۔ کاش ایسا نہ ہوتا، آخر سوڈان اس تقسیم پر کیوں راضی ہوا ؟ اس کے ساتھ ہی میں نے کچھ دلائل پیش کیے ۔ میرے دلائل کا لب لباب یہ تھا کہ سوڈان کی تقسیم میں مغربی ملکوں نے کلیدی کردار ادا کیا بالکل اسی طرح جیسے مشرقی تیمور کو دنیا کے نقشے پر لانے کے لیے ان ملکوں نے سرگرمی دکھائی تھی۔ علائوالدین جوپکا نمازی ہے، خاموش رہا۔ مجھے محسوس ہوا کہ اس کی باڈی لینگویج میرے دلائل کا ساتھ نہیں دے رہی۔ وہ کافی تامل کے بعد گویا ہوا :’’ ہوسکتاہے تمہارے دلائل مشرقی تیمور کے ضمن میں درست ہوں۔ مجھے وہاں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ لیکن میں سوڈانی ہوں۔ میں ڈاکٹربننے تک سوڈان ہی میں رہا۔ اس کے بعد سعودی عرب سے اور اب آسٹریلیا سے ہر سال دوتین ماہ وہیں گزارتا ہوں۔ میں جنوبی سوڈان کے نصرانیوں کو کلی طورپر سوڈان کی تقسیم کا ذمہ دار نہیں سمجھتا۔ ہم مسلمان اگر ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے، اگر ان کے حقوق ادا کرتے، اگر ملازمتوں میں انہیں ان کا جائز حصہ دیتے اور اگر سماجی حوالے سے انہیں وہ مقام عطا کرتے جس کے وہ سوڈانی شہری کے لحاظ سے حق دار تھے تو اس بدقسمت تقسیم سے بچا جاسکتا تھا۔‘‘ مجھے ایک نظر میں علائوالدین کے دلائل بودے اور متعصبانہ لگے، لیکن سوڈان کے بارے میں میرا علم کتابی اور اخباری تھا جس کا اس کی معلومات سے ظاہر ہے کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ تاہم اس کا اصل نکتہ یہ تھا کہ ہم مسلمان غیرمسلموں کو اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں۔ ایسا اگر ہم آخرت کے حوالے سے کرتے تو ہوسکتا ہے کوئی جواز ہوتا، لیکن ہم قانون اور حقوق کے حوالے سے انہیں کم تر سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد اس نے ثبوت کے طورپر کئی واقعات بیان کیے، کالم جن کی طوالت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ایک یہ تھا کہ وہ ایک مسلمان ملک کے ایک شہر میں بطور ڈاکٹر کام کررہا تھا۔ ایک دن اس کی موجودگی میں ہسپتال کے ایک مسلمان اہلکار نے ایک غیرمسلم نرس کو جسمانی طورپر ہراساں کیا۔ علائوالدین اس شعبے کا سربراہ تھا۔ اس نے جسمانی مداخلت کرکے عورت کو چھڑایا، ساتھ ہی اہلکار کو لعن طعن کی اور دھمکی دی کہ وہ اس کے خلاف کارروائی کرے گا۔ اہلکار خاموشی سے سنتا رہا۔ جب علائوالدین اپنا غصہ نکال چکا تو اہلکار نے ہنس کر مختصر بات کی:’’ کیا تم ایک غیرمسلم کو مجھ پر ترجیح دوگے؟ میں مسلمان ہوں۔‘‘ علائوالدین کی باتیں سن کر مجھے اسلام آباد کا ایک واقعہ یاد آگیا ۔ یہ چند سال پہلے کا ذکر ہے۔ سیکٹر جی 10-میں دو منزلہ مکان بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی نے کرائے پر لے رکھا تھا۔ اوپر کی منزل میں ایک پاکستانی پروفیسر رہتا تھا۔ گرائونڈ فلور ایک مصری پروفیسر کے پاس تھا۔ اقلیت سے تعلق رکھنے والی ایک خادمہ اوپر رہنے والے پاکستانی پروفیسر کے گھر کا کام کاج کرتی تھی۔ ایک دن کپڑے دھوکر وہ ٹیرس پر لٹکارہی تھی کہ نچوڑنے سے پانی یا پانی کے کچھ چھینٹے نچلی منزل پر جاپڑے۔ مصری پروفیسر صاحب اس وقت وہاں سے گزررہے تھے۔ وہ غضب ناک ہوگئے۔ خادمہ کام ختم کرکے باہر نکلنے کے لیے گرائونڈ فلور سے گزر ی تو پروفیسر صاحب انتظار کررہے تھے ۔ انہوں نے اسے پکڑ لیا اور یکے بعد دیگرے کئی تھپڑ رسید کیے۔ پروفیسر صاحب کی بدقسمتی کہ خادمہ کی پہنچ پولیس تک تھی۔ غالباً وہ کسی پولیس افسر کے گھر میں بھی کام کرتی تھی۔ دوسرے دن ایک سپاہی آیا اور مصری پروفیسر کو بلاکر پولیس سٹیشن لے گیا۔ قصہ مختصر ، انہوں نے خادمہ سے معذرت بھی کی اور تلافی کے طورپر کچھ رقم بھی پیش کی۔ لیکن اصل بات وہ شکوہ ہے جو مصری پروفیسر نے اپنے پاکستانی رفقائے کار سے کیا۔’’میں مسلمان ہوں اور وہ خادمہ غیرمسلم۔ کیا پاکستانی پولیس کو اس کا احساس نہیں؟‘‘ نہیں معلوم کہ ہم ان چند واقعات کی بنیاد پر کوئی تعمیم (GENERALISATION) کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ علائوالدین کی رائے سوڈان کے بارے میں سوفی صد درست ہے۔ ہوسکتا ہے بہت سے سوڈانی اس نکتہ نظر سے اختلاف کرتے ہوں۔ بظاہر یہ بھی معلوم ہورہا ہے کہ ہم پاکستانی غیرمسلموں کے حوالے سے اپنے دیگر اسلامی بھائیوں کی نسبت کم متعصب ہیں ، کم ازکم میں نے کسی پاکستانی سے یہ بات نہیں سنی کہ اسے مسلمان ہونے کی بناپر قانون کی نظر میں ایک غیرمسلم کے مقابلے میں زیادہ حقوق حاصل ہیں۔ لیکن یہ ساری بحث ہمیں سوچنے کی دعوت ضرور دے رہی ہے۔ ہم میں سے اگر کچھ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے ہم ملکی قانون یا اسلامی قانون یا معاشرے یا خدا کے سامنے عزیز تر ہیں تو ہمیں یہ غلط فہمی فوراً اپنے ذہنوں سے نکال دینی چاہیے۔ عہد رسالت اور خلفائے راشدین کے عہد کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جو اس غلط فہمی کی تردید کرتے ہیں۔ آج اگر ہم نے غیرمسلموں کو ان کے حقوق نہ دیے تو بات یہیں پر ختم نہ ہوگی۔ کل مسلمانوں ہی کا کوئی فرقہ ہمارے حقوق کو اس بنیاد پر پامال کرے گا کہ ہمارا تعلق کسی اور فرقے سے ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ زنداں کی دیوار چمن تک آپہنچے!!