’’اگر عوام نے آئندہ الیکشن میں پیپلزپارٹی یا نون لیگ کو ووٹ دیے اور انہیں دوبارہ اقتدار ملا تو میں پاکستان چھوڑ جائوں گا۔ میرے ساتھ بہت سے دوستوں اور چاہنے والوں نے بھی طے کیا ہوا ہے کہ ہم اس بے امان ملک میں نہیں رہیں گے کہ جہاں انسان کی زندگی کی کوئی قدر نہیں۔ ہمارے بزرگوں نے اس ملک کو بہت مشکلوں کے بعدحاصل کیا تھا جب کہ چند مفاد پرست لوگوں نے ذاتی مفادات کی خاطر اس کی عزت اور وقار کو دائو پر لگادیا ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون چوروں اور لٹیروں کی پارٹیاں ہیں‘‘۔ یہ ابرارالحق کا بیان ہے۔ لاکھوں کروڑوں نوجوان ہرروز صبح گھر سے نکلتے ہوئے اور شام کو لوٹتے وقت یہی کچھ کہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سب ملک چھوڑ کر نہیں جاسکتے اور قہر درویش برجان درویش کے مصداق صرف سلگ سکتے ہیں ۔ ابرارالحق کی بدقسمتی یا خوش قسمتی کہ وہ ایک مشہور شخصیت ہے اور موسیقی میں اس کا ایک مقام ہے۔ چنانچہ اس کے اس بیان پر مضامین لکھے گئے ، کچھ نے تمسخراڑایا اور کچھ نے دلائل دیے۔ اکثر وبیشتر جب کوئی شخص کہتا ہے کہ میں یہ ملک چھوڑ کر کہیں چلا جائوں گا تو یہ یاس کا اظہار اور ابلاغ کا ایک اسلوب ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ مصمم ارادے یا پروگرام کا عندیہ ہو۔ کوئی بزرگ جب اپنے بیٹوں کی نافرمانی سے تنگ آکر کہتا ہے کہ میں یہ گھر چھوڑ جائوں گا ۔ یا کوئی خاتون خانہ تنگ آکر کہتی ہے کہ میں چلی جائوں گی تو یہ بیان کا ایک انداز ہے۔ غالباً ابن انشا کا شعر ہے ؎ ہوجائیں گے پردیس میں جاکر کہیں نوکر یہاں سال میں اک بار بھی آیا نہ کریں گے تاہم معاملے کا دوسرا پہلو بھی ہے۔ ملک کن حالات میں چھوڑا جاتا ہے اور ہجرت کیوں کرنا پڑتی ہے؟ جب جان‘ مال اور عزت محفوظ نہ ہوں۔ جب انصاف عنقا ہوجائے جب زمین ظلم سے بھر جائے۔ جب انسان پکار اٹھے ظہرالفساد فی البروالبحر۔ ’’خشکی اورتری میں فساد برپا ہوگیا ہے‘‘۔ جب دعا کے لیے ہاتھ بے اختیار اٹھ جائیں اور کہیں سے ایک آواز آئے۔ ’’ان کی تباہی کے لیے صبح کا وقت مقرر ہے‘‘ ۔ الیس الصبح بقریب! صبح ہوتے اب دیر ہی کتنی ہے!! جذبات کی بات الگ ہے۔ بندآنکھوں کو کوئی نہیں کھول سکتا۔ منہ سے نکلتی ہوئی جھاگ اور گلے کی ابھری ہوئی سرخ رگوں کے سامنے بولنا لاحاصل ہے، لیکن سچ کیا ہے؟ کیا اس ملک میں جان‘ عزت اور مال محفوظ ہے ؟ مراعات یافتہ طبقات کے ارکان اس صورت حال کا تصور بھی نہیں کرسکتے جس سے ایک عام شہری گزررہا ہے اور دن میں کئی بار گزرتا ہے۔ آپ اس شخص کی بے چارگی کا تصور کیجیے جس کی موٹرسائیکل یا گاڑی کو حادثہ پیش آیا ہے اور قصور دوسری پارٹی کا ہے یا جس کے گھر میں چوری ہوئی ہے‘ اس کی موٹرسائیکل یا گاڑی کے کاغذات پولیس والا لے جاتا ہے۔ پھر وہ ہے اور تھانے کے پھیرے ہیں۔ اس کے گھر سے چرایا ہوا مال برآمد ہوبھی جائے تو تھانے والے اسے کس طرح واپس کرتے ہیں اور کتنا واپس کرتے ہیں۔ وہ مراعات یافتہ لوگ جن کی صبحیں اور شامیں سیاست دانوں کے درباروں میں گزرتی ہیں اور مناصب اور خلعتیں جن کے لیے معمول ہیں، اس صورت حال کا کبھی بھی ادراک نہیں کرسکتے۔ کئی ہفتے تھانے کے چکر لگانے کے بعد وہ شخص ایک آہ سینے سے نکالتا ہے اور آنکھوں میں آنسو بھر کر کہتا ہے ۔ میں یہ ملک چھوڑ جائوں گا۔ اور وہ جس کی گاڑی‘ جس کی زندگی بھر کی کمائی اٹھالی جاتی ہے۔ پھر وہ دربدر ٹھوکریں کھاتا ہے۔ مہینوں خاک چھاننے کے بعد اسے سراغ ملتا ہے کہ قبائلی علاقے کے فلاں گوشے میں تمہاری گاڑی دیکھی گئی ہے۔ یہ سب کچھ پولیس اور ایجنسیوں کے ان سینکڑوں اہلکاروں اور افسروں کی موجودگی میں ہوتا ہے جن پر ٹیکس دینے والے عوام کروڑوں روپے خرچ کررہے ہیں۔ وہ علاقہ غیر میں پہنچتا ہے۔ حجرے میں اس کے ’’کیس‘‘ کی ’’سماعت‘‘ ہوتی ہے اور جرگہ ، جس کے سارے ارکان نمازی اور باریش ہیں۔ ’’فیصلہ‘‘ سناتا ہے کہ دس لاکھ کی گاڑی ہے تو چارلاکھ ادا کرو۔ ایسے میں وہ شخص اگر ملک چھوڑنے کا ارادہ نہ کرے تو کیا ملک پر اپنی اور اپنے بچوں کی جان قربان کرنے کا عزم کرے ؟؟ ظہرالفساد فی البر والبحر۔ ملک کا ہرگوشہ فساد سے بھر چکا ہے۔ روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں جناب سلمان غنی نے رپورٹ فائل کی ہے ۔’’مسلم لیگ نون کے سربراہ نواز شریف، وزیراعلیٰ شہباز شریف، سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی، چودھری شجاعت حسین، سابق وزیراعلیٰ سردار دوست محمد کھوسہ کے ساتھ’’ڈیوٹی‘‘ پر تعینات ایک ہزار ساٹھ پولیس اہلکار اور باسٹھ گاڑیاں واپس ہورہی ہیں‘‘ فرض کیجیے فی الواقع واپس ہو بھی رہی ہیں تو پانچ سال میں اس ’’ڈیوٹی‘‘ پر کتنے اخراجات اٹھے؟ وہ ہزاروں گارڈ اور سینکڑوں گاڑیاں ان کے علاوہ ہیں جو سیاست دانوں، اراکینِ اسمبلی، وزیروں اور مشیروں کے ساتھ ’’ڈیوٹی‘‘ کررہی ہیں۔ یہی حال وفاق اور باقی صوبوں میں ہے۔ یہ کروڑوں اربوں کھربوں کا خرچ ہے جو آپ اور میں اٹھارہے ہیں کیوں کہ ٹیکس صرف آپ اور میں دے رہے ہیں۔ ملک میں انصاف کی کیا صورت حال ہے؟ جہاں شدید ترین گرانی کے ہاتھوں ستائے ہوئے مفلوک الحال کلرک چند سو روپے ماہانہ کے اضافے کے لیے ہڑتالیں کرنے پر مجبور ہیں وہاں لوٹ مار کی ایک جھلک‘ صرف ایک جھلک ملاحظہ فرمائیے۔ ’’اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے وفاقی پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین اور ممبران کی تنخواہوں اور مراعات میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔ چیئرمین کی تنخواہ بڑھا کر چارلاکھ 25ہزار‘ سپیشل الائونس 60ہزار روپے‘ تفریح الائونس چھ ہزار روپے‘ کرایہ مکان 75ہزار، بجلی گیس چارجز 22ہزار ۔ اور یہ سب ماہانہ ہے۔ نجی وسرکاری استعمال کے لیے 1600سی سی کار مع شوفر اس کے علاوہ ہے۔ اس سے پہلے چیئرمین صاحب کی تنخواہ صرف ترانوے ہزار روپے تھی۔ کمیشن کے ارکان کی تنخواہ بھی چار لاکھ کردی گئی ہے۔ ایک لاکھ 33ہزار روپے کے ماہانہ الائونس اور کارمع شوفر مع پٹرول اس کے علاوہ ہے ۔ لوٹ مار کی خبر کا عبرت ناک حصہ یہ ہے۔ ’’مشاہرے میں غیرمعمولی اضافے کرائے میں کمیشن کے رکن اور سابق سیکرٹری خزانہ عبدالواجد رانا کا خصوصی کردار بتایا جاتا ہے۔‘‘ اس لوٹ مار کو آپ چارسے ضرب دیجیے کہ صوبوں میں بھی پبلک سروسزکمیشن ہیں جو اس غارت گری کی پیروی کریں گے۔ اور یہ ارکان کس طرح تعینات ہوتے ہیں؟ کوئی طریق کار؟ کوئی کمیشن یا باڈی جوان کی تعیناتی طے کرتی ہے ؟ نہیں کچھ بھی نہیں! صرف، صرف اور صرف تعلقات اور رسائی۔ نوکر شاہی کے جن گماشتوں نے ریاست کی نہیں شخصیات کی ’’خدمت ‘‘ کی ہوتی ہے، انہی کووفاق اور صوبائی پبلک سروس کمیشنوں میں خدمت کے عوض ممبری ملتی ہے۔ آپ اندازہ لگائیے کہ وفاق اور صوبوں میں یہ ’’انصاف پسند‘‘ ممبر، بھرتیاں کس بنیاد پر کرتے ہوں گے! جس ملک میں حکومت خود اعتراف کرے کہ نوے ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی ہے اور یہ نوے ارب روپے آپ اور میں ادا کررہے ہیں اور جس ملک میں دوسو سے زیادہ گھر نذر آتش ہونے کے بعد، صوبے کا وزیراعلیٰ راکھ ہو چکے گھروں کی مرمت کا سنگ بنیاد رکھتے وقت باقاعدہ تصاویر کھنچوائے اور وہ تصاویر ملک کے اطراف واکناف میں پریس کو بھیجی جائیں، اس ملک میں اگر کسی دل جلے نے آہ بھری ہے اور ملک چھوڑنے کا کہا ہے تو کیا غلط ہے؟