تو کیا ہمارے ریٹرننگ افسروں کو اس معیار کا بالکل علم نہیں جو حضرت عمر فاروق ؓنے مقرر کیا تھا؟ یہ واقعہ اتنا مشہور ہے کہ ہم میں سے ہر شخص نے سنا ہوا ہے۔ دوسرے خلیفہ راشد نے ایک صاحب کے بارے میں لوگوں کی رائے لی۔ بتایا گیا کہ خشو ع و خضوع سے نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں اور عبادت میں بہت زیادہ سرگرم۔ امیر المومنین نے کہا نہیں، یہ بتائو کہ یہ شخص لوگوں کے ساتھ معاملات میں کیسا ہے؟ جس قبیل کے سوالات ریٹرننگ افسر پوچھتے رہے ہیں اس سے یہ تصویر مکمل طور پر واضح ہوگئی ہے جو اسلام کے بارے میں ہمارے ذہنوں میں بنی ہوئی ہے۔ افسوس! یہ تصویر نامکمل ہے۔ ہم نے اسلام کو خانوں میں بانٹا ۔ پھر جو خانے ہمیں پسند آئے ہم نے چن لیے۔ جو خانے مشکل لگے، ہم نے چھوڑ دیئے۔ ہم نے خدائے بزرگ و برتر کے اس حکم کو پس پشت ڈال دیا کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجائو۔ افسوس ہے ہمارے اس فہم پر جو اسلام کے متعلق ہمیں حاصل ہے اور جس کا ہمیں دعویٰ ہے! یہ ریٹرننگ افسر جو دعائے قنوت سنتے رہے، چھ کلمے سنتے رہے (ہمارے دوست خورشید ندیم نے روزنامہ دنیا میں کیا پتے کی بات لکھی کہ اسلام میں تو ایک ہی کلمہ تھا!) اور امیدواروں سے وعدے کرواتے رہے کہ نمازیں پڑھیں گے۔ ان ریٹرننگ افسروں نے یہ کیوں نہ پوچھا کہ جھوٹ کے بارے میں ہادیٔ اعظم ﷺ کا کیا فرمان ہے؟ وعدہ خلافی کے متعلق کیا کہا گیا ہے؟ پڑوسیوں کے حقوق کے ضمن میں اسلامی احکام کیا ہیں؟ کم تولنے والوں کے متعلق قرآن کا کیا فیصلہ ہے؟ منافق کی کیا نشانیاں بتلائی گئی ہیں؟ انہوں نے مولوی صاحب سے کیوں نہ پوچھا کہ کروڑوں کی زمین کس قانون کے تحت پرویز مشرف کی وساطت سے حاصل کی گئی؟ فہمیدہ مرزا سے کیوں نہ پوچھا کہ تاحیات اس مفلوک الحال ملک سے ملازم، گاڑیاں، علاج کی سہولت اور مشاہرہ اپنے نام کرا لینا کون سی دیانت ہے؟ نوازشریف سے کیوں نہ پوچھا کہ سو محافظ کس قانون کے تحت پہریداری کررہے ہیں؟ شہباز شریف سے کیوں نہ پوچھا کہ ہر بیوی کے لیے الگ محافظ، رشتہ داروں کے لیے الگ محافظ، پرائیوٹ سیکرٹریوں کے لیے الگ محافظ، کس قانون کے تحت مامور کیے گئے۔ اس مد میں اب تک کتنے ارب روپے لگے اور کیا یہ سب جائز ہے؟ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا تھا کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ بات کرے تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرتا ہے اورامانت سونپی جائے تو خیانت کرتا ہے۔ کیا اس سے زیادہ سخت بات ہوسکتی ہے کہ جو ملاوٹ کرے ،وہ ہم میں سے نہیں۔ کیا آپ ؐنے نہیں فرمایا کہ نقص والی شے، بتائے بغیر بیچنے والے پر اللہ کی لعنت ہے۔ کیا یہ تنبیہ نہیں کی گئی کہ جس کا جو حصہ حرام مال سے پرورش پائے گا آگ سے محفوظ نہیں رہ سکے گا؟ کیا بار بار نہیں بتایا گیا کہ بندوں کے حقوق پامال کیے گئے تو جزاکے دن صرف بندے ہی معاف کرسکیں گے؟ اسلام کے یہ حصے ہم نے ایک طرف رکھ دیے۔ یہ مشکل ہیں اس لیے ان کا ذکر ہی نہیں کیا جاتا۔ دعائے قنوت سنا دینے والا اور چھ کلمے توتے کی طرح پڑھ دینے والا قابل قبول ہے ؛اگرچہ وہ جھوٹ بولے، خیانت کرے، ملاوٹ کا مرتکب ہو، ٹیکس چور ہو، پڑوسیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے، دشنام طرازی کرے اور سرکاری مال میں خوردبرد کرے۔ پیپلزپارٹی کے وزیروں اور رہنمائوں کو توچھوڑیے ، لیکن کیا فضل الرحمن، نوازشریف، شہباز شریف اور امیر حیدر خان ہوتی اپنے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر یقین دہانی کراسکتے ہیں کہ سرکاری خزانے کو انہوں نے اپنی ذات پر اور اپنے متعلقین پر ناروا خرچ نہیں کیا؟ ہم جنرل ضیا ء الحق پر الزام دھرتے ہیں کہ اس نے اسلام کی ’’واعظانہ‘‘ تعبیر کو عام کیا اور روح کو پس پشت ڈالا۔ یہ ایک حد تک درست ہے۔ مرحوم جرنیل کا فہم اسلام ریاض الصالحین سے شروع ہوتا تھا اور اسی پر ختم ہوجاتا تھا لیکن انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ صورتحال کو موجودہ نہج تک لانے کی ساری ذمہ داری اس پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ آج وہ ہم میں نہیں اور جیسا کہ دنیا میں ہوتا آیا ہے اس سے فائدے اٹھانے والے اس کی مدافعت میں ایک لفظ کہنا پسند نہیں کرتے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید نہ کہا جائے۔ اسلام کی اس حد درجہ تنگ اور آرام طلب تعبیر کی ذمہ داری اس طبقے پر ہے جو اسلام کا عالم ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ،جو کسی اور کو ایسا دعویٰ کرنے کا حق نہیں دیتا اور جس کی منبرو محراب پر، وعظ و تلقین پر، مدرسہ اور فتویٰ پر مکمل اجارہ داری ہے۔ اس اجارہ داری کو جو چیلنج کرنا چاہتا ہے، منہ کی کھاتا ہے! اس طبقے کی اکثریت کا ان لوگوں سے خاموش معاہدہ ہے جو جھوٹ بولتے ہیں، وعدہ خلافی کرتے ہیں، کم تولتے ہیں، ٹیکس چراتے ہیں اور سرکاری خزانے کو اپنے اوپر اور اپنے متعلقین پر بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔ یہ طبقہ لوگوں کو یہ تو تلقین کرتا ہے کہ تمہارا ظاہر ایسا ہونا چاہیے لیکن یہ نہیں بتاتا کہ صبح سے لے کر شام تک جو کچھ تم کررہے ہو، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ آج عملی طور پر یہ ہورہا ہے کہ ہم نماز فجر کے بعد مسجد سے نکلتے وقت اسلام سے گلے ملتے ہیں اور تسلی دیتے ہیں کہ جناب! آپ مسجد ہی میں تشریف رکھیے۔ ظہر کے وقت دوبارہ آپ سے یہیں ملاقات ہوگی۔ ظہر کی نماز تک ہمارا اسلام سے دور کا تعلق بھی نہیں رہتا۔ اگر یہ بات غلط ہے تو پھر خدا کے لیے کوئی بتائے کہ کم تولنے والوں، ملاوٹ کرنے والوں، ناجائز نفع کمانے والوں اور ٹیکس چوری کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد ظاہری طور پر کٹر مسلمان کیوں ہے؟ ستم بالائے ستم یہ کہ اس سب کچھ کے علاوہ، ہم میں ایک ایسی جماعت بھی ہے جس کے ارکان لوگوں کو گھروں سے بلا کر مسجدوں میں لاتے ہیں۔ انہیں اپنے ازدواجی، معاشرتی ،کاروباری اور قانونی فرائض سے کاٹ کر مہینوں، رات دن اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور تعلیم صرف ظاہر کی دیتے ہیں۔ ان کے نام نہاد نصاب میں اس اسلام کا کوئی عمل دخل نہیں جو عملی زندگی پر نافذ ہوتا ہے۔ یہ حضرات ساری زندگی فضائل قرآن پڑھتے اور پڑھاتے ہیں لیکن قرآن کے نزدیک جاتے ہیں نہ جانے دیتے ہیں۔ بھلا قرآن کے بغیر اور قرآن کے معانی و مفاہیم جانے بغیر کوئی اسلام سے کس طرح آشنا ہوسکتا ہے؟ حالت یہ ہے کہ عام مسلمان مسجد کی تعمیر و توسیع کے لیے کچھ پیش کرے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ ہمیں نہیں معلوم آپ کی آمدنی کس حد تک پاک صاف ہے لیکن اگر کوئی وزیراعلیٰ یا سابق حکمران مرکز کے لیے پچھتر کنال زمین پیش کرے تو نہ صرف قبول کر لی جاتی ہے بلکہ سب سے بڑے واعظ خود استقبال بھی کرتے ہیں۔ اس شخص نے جو واعظین کے طبقے سے نہیں تھا لیکن اسلام کو سمجھتا تھا، کہا تھا ؎ چو می گویم مسلمانم، بلرزم کہ دانم مشکلات لا الہ را کہ میں مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہوں تو کانپنے لگتا ہوں اس لیے کہ مجھے اس راستے کی مشکلات کا اندازہ ہے۔ یہ راستہ بہت مشکل ہے۔ اس میں ہر وقت اس بات کا التزام کرنا ہوتا ہے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو، کسی کے حق پر پائوں نہ آجائے۔ ذرا سا شک بھی حرام کا پڑ جائے تو کروڑوں روپے پھینک دینے ہوں گے، لیکن یہ تو بہت مشکل ہے۔ اس کا آسان علاج ہے کہ میں ظاہر بدل لوں، ہاتھ میں تسبیح پکڑ لوں، پھر کسی کی کیا مجال ہے جو مجھ پر اعتراض کرے، کرے گا تو اسلام کا مخالف کہلائے گا اور نسلوں کو بھی سبق حاصل ہوجائے گا! اگر آج عمر فاروقؓ ہوتے تو ریٹرننگ افسروں کے سوالات پر جناب کا ردعمل کیا ہوتا؟