اگر چرواہا ہی بکریوں کو بھیڑیے کے آگے ڈالنا شروع کردے؟ اگر باڑھ ہی کھیت کو کھانا شروع کردے؟ اگر میڈیا ہی جانب دار ہو جائے؟ چار دن پہلے جب عدالت عالیہ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین کی معطلی کا فیصلہ صادر کیا تو ایک معروف تجزیہ کار نے ٹیلی ویژن سکرین پر گویا سرخ قمیض کو جھنڈے کی صورت میں لہرانا ہی شروع کردیا۔ نام نہاد تجزیے کا لبّ لباب یہ تھا کہ محصول جمع ہو رہا تھا۔ ٹیکس پالیسیاں بن رہی تھیں۔ معیشت کو سہارا دیا جا رہا تھا۔ یہ بھلا کون سا وقت تھا ایف بی آر کے چیئرمین کو ہٹانے کا۔ اگر ٹیلی ویژن کے تجزیہ کار اور اخبارات کے کالم نگار سرخ قمیضوں کو بانسوں پر لٹکا کر جانب دار ہو جائیں گے اور معاملے کے ایک ہی پہلو کو سامنے لائیں گے تو یہ وہ میڈیا نہیں رہے گا جسے ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ یہ تو دوسرے تین ستونوں کو گرانے والا میڈیا ہوگا۔ ایف بی آر وہ ادارہ ہے جو پورے ملک سے محصولات جمع کرتا ہے۔ آمدنی پر ٹیکس لگاتا ہے۔ کسٹم کے محصولات اکٹھے کرتا ہے۔ سیلز ٹیکس کا ذمہ دار ہے۔ دولت پر ٹیکس لگاتا ہے۔ ملک کی معیشت کا دارومدار اسی آمدنی پر ہے۔ یہاں سینکڑوں افسر اور ہزاروں اہلکار ہیں۔ ان افسروں اور اہلکاروں کی استعداد کار کا انحصار اس بات پر ہے کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ ایک شخص تیس پینتیس برس کی شبانہ روز محنت کے بعد اس مرحلے پر پہنچتا ہے کہ اسے اپنے ادارے کا سربراہ بنایا جائے۔ سینیارٹی‘ کارکردگی‘ دیانت سارے عوامل اُس کے حق میں ہوتے ہیں۔ اچانک ایک شخص کو جس کا اس ادارے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا‘ سربراہ بنا دیا جاتا ہے۔ پورے ادارے پر مایوسی اپنے پر پھیلا دیتی ہے۔ اگر یہی ہونا ہے تو پھر کام کا کیا فائدہ؟ انسان‘ انسان ہوتے ہیں۔ فرشتے نہیں ہوتے۔ حوصلہ افزائی سے ان کی کارکردگی بڑھتی ہے۔ انصاف سے ان میں محنت کا جذبہ دوبالا ہوتا ہے۔ ناانصافی انہیں گھائل کر دیتی ہے۔ ان کی استعدادِ کار کو گھُن لگ جاتا ہے۔ وہ نہ صرف خود مایوس ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی مشورہ دیتے ہیں کہ یہاں سے نکل بھاگو۔ وہاں جائو جہاں محنت کا پھل ملتا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں پاکستان کی معیشت پر ماتم کیا ہے اور یہ رونا بھی رویا ہے کہ مستقبل قریب میں بہتری کے آثار عنقا ہیں۔ ایک سبب اس صورتِ حال کا بینک نے یہ بتایا ہے کہ بیوروکریسی پالیسی سازوں (یعنی سیاست دانوں) کے سامنے صحیح تصویر پیش نہیں کرتی۔ کاش‘ ایشیائی ترقیاتی بینک ایک مطالعہ اس امر کا بھی کرواتا کہ پاکستان میں بیوروکریسی کو کس طرح تباہ و برباد کیا جاتا رہا اور بدستور کیا جا رہا ہے۔ بیرون ملک تعیناتیوں کی تو بات ہی نہ کیجیے کہ ننانوے فی صد فیصلے اس ضمن میں سفارش اور اقربا پروری سے ہوئے‘ اندرونِ ملک بھی جو کچھ ہوتا رہا‘ خدا کسی دشمن ملک کو بھی اس سے دوچار نہ کرے۔ ضیاء الحق کے زمانے میں بھی فردِ واحد کی خواہش ہی قانون کا درجہ رکھتی تھی اور بیوروکریسی اس آمریت کا خوب تختۂ مشق بنی۔ لیکن پرویز مشرف نے تو تباہی کا نیا راستہ دریافت کیا۔ اُس نے بڑے بڑے محکموں میں فوجی افسروں کو لگانا شروع کیا اور وہ جو مستحق تھے وہ کونوں کھدروں میں چھپ کر بیٹھ گئے یا عدالتوں کے چکر لگاتے لگاتے گھروں کو چلے گئے۔وفاقی حکومت کا ایک بہت بڑا محکمہ ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ کہلاتا ہے، یعنی چھائونیوں اور عسکری زمینوں کا انتظام و انصرام کرنے والا محکمہ۔ اس محکمے کو چلانے والے افسر مقابلے کا امتحان پاس کرکے آتے ہیں۔سربراہ ہمیشہ انہی پیشہ ور لوگوں میں سے ہوتا تھا۔پرویز مشرف نے یہ سربراہی ایک جرنیل کو سونپ دی پھر دوسرا جرنیل آیا، پھر تیسرا ، یوں محکمے کے افسر بددلی کا شکار ہوتے گئے۔پرویز مشرف نے ڈاکخانے کی سربراہی بھی ایک ریٹائرڈ جرنیل کو سونپ دی۔وفاقی محکمہ تعلیم کی سربراہی ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کے حوالے کردی گئی جسے چار بار (یا غالباً پانچ بار) توسیع دی گئی۔وفاقی محکمہ تعلیم کے افسر اور پروفیسر ، جو پوری پوری زندگی کے بعد اس سربراہی پر فائز ہوتے تھے اور جن کا استحقاق تھا، بددل، مایوس اور گھائل ہوکر سرجھکا کر قسمت کو روتے رہے۔کہیں شنوائی تھی نہ فریاد رسی ، ظلم کا دور دورہ تھا اور رعونت کی حکمرانی تھی۔ پرویز مشرف نے اسی پر بس نہ کیا۔سول سروس کے سب سے مقدس تربیتی ادارے ، سٹاف کالج لاہور میں بھی ایک جرنیل کو بٹھا دیا۔یہ صاحب کارگل شہرت یافتہ تھے۔سول سروس کے ارکان ایک دوسرے سے پوچھتے پھرتے تھے کہ کیا کاکول میں سول سروس کے کسی فرد کو لگایا جاسکتا ہے؟ نہیں تو ، پھر ایک ریٹائرڈ جرنیل کو پوری سول سروس کے اوپر کیوں لابٹھا دیاگیا ہے؟ ناانصافی کا یہی کھیل پیپلزپارٹی نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں کھیلا۔تیس تیس پینتیس پینتیس سال کے تجربے کے بعد جو پیشہ ور افسر اس انتظار میں تھے کہ ان میں سے کسی کو سربراہی کا موقع ملے گا، بیٹھے رہ گئے اور تقرر نجی شعبے سے کردیاگیا۔افسروں میں بددلی پھیل گئی۔بددلی ایک جگہ نہیں رکتی۔سفر کرتی ہے اور اوپر سے نیچے تک ہر شخص کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہے۔کچھ نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ تعیناتی کے لیے جو معیار مقرر کیاگیا تھا ، اسے مدنظر نہیں رکھا گیا۔عدالت نے داد رسی کی اور اب جس افسر کو سربراہ مقرر کیاگیا ہے اس کی تین دہائیاں اس وادی کے نشیب و فراز میں کٹی ہیں۔ظاہر ہے کہ وہ افرادی قوت سے بھی آشنا ہوگا اور ان بے شمار دیگر مسائل سے بھی جن کا باہر سے آکر مسلط ہوجانے والے کو کچھ علم نہیں ہوتا۔ نجی شعبے میں بہت ٹیلنٹ ہے اور ذہانت بھی۔لیکن وہ جو سرکاری محکموں میں بیٹھے ہوئے ہیں ان کے دماغوں میں بھی بُھس تو نہیں بھرا ہوا۔اگر وہ اہل ہیں تو انہیں سربراہی تک جانے کا حق ہے۔اگر وہ اہل نہیں تو انہیں اب تک نکالا کیوں نہیں گیا؟ اقربا پروری اور سیاسی مداخلت نے سول سروس کو بدحال کررکھا ہے۔پولیس ہی کو دیکھ لیجیے، پوری کی پوری پولیس فورس سیاسی مداخلت کا تختہ مشق بنی ہوئی ہے۔کسی افسر یا اہلکار کو تین سال کی مدت کسی جگہ پوری ہی کوئی نہیں کرنے دیتا۔جن افسروں اور اہلکاروں کا بستر ہمیشہ لپٹا ہوا ہوگا اور کوچ کے لیے ہر وقت تیار بیٹھے ہوں گے،ان سے استعداد کی توقع کوئی احمق ہی کرسکتا ہے اور احمقوں کی ہمارے ہاں بہتات ہے! انصاف ! انصاف ! سول سروس میں انصاف درکار ہے۔ سیاسی مداخلت ختم کردیجیے۔اقربا پروری اور سفارش کے طاعون سے نجات حاصل کیجیے۔دامادوں ، بھتیجوں ، بھانجوں ، بیٹوں کو اپنی قابلیت پر بھروسہ کرنے کی عادت ڈالیے۔سچ بولنے پر سزا نہ دیجیے غلط حکم نہ ماننے پر تعاقب نہ کیجیے‘ تحسین کیجیے ‘ پھر دیکھیے ، یہی سول سروس آپ کے ملک کو سنگاپور بھی بناسکتی اور سوئٹزرلینڈ بھی ۔ ع تو چہ دانی کہ درین گرد سواری باشد اسی گرد وغبار سے شہسوار برآمد ہوں گے!