جب سے جنرل پرویز مشرف واپس آئے ہیں، پوری قوم (اس کالم نگار سمیت ) ان کے پیچھے لگی ہوئی ہے ۔ یوں لگتا ہے وہ نفرت کی ایک علامت بن کر رہ گئے ہیں۔ ایک وکیل نے انہیں جوتا کھینچ مارا۔ جہاں جاتے ہیں، لوگ احتجاج کرتے ہیں۔ کیا وکلاء اور کیا جامعہ حفصہ کی طالبات، نفرت کی انتہا یہ ہے کہ گنتی کے جو چند افراد ان کی دسترس میں رہ گئے ہیں ان سے بھی عوام نفرت کرنے لگے ہیں۔ ان میں ان کے وکیل بھی شامل ہیں۔ اس میں شاید مبالغہ نہ ہوکہ اگر آج مشرف صاحب حفاظتی حصار کے بغیر کسی بازار، مسجد یا شاہراہ پر عوام کے ہتھے چڑھ جائیں تو انہیں جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ لال مسجد سانحے کا ذمہ دار بھی انہیں ٹھہرایا جاتا ہے، اکبر بگتی کے بھی وہ قاتل سمجھے جاتے ہیں، ڈرون حملوں کی ذمہ داری بھی ان پر ہے، طالبان کے خلاف یوٹرن بھی انہوں نے لیا تھا، اور سب سے بڑے جرم، این آر او کا طوق بھی انہی کے گلے میں پڑا ہوا ہے۔ ان کے مائنڈ سیٹ کے بارے میں بھی بہت کچھ کہا اور لکھا جارہا ہے جو اتنا غلط بھی نہیں۔ لال مسجد کے بارے میں ان کا موقف عجیب و غریب ہے کہ بچیا ں وہاں تھیں ہی نہیں۔ اکبر بگتی کے قتل سے بھی وہ منکر ہیں۔ لیکن جنرل پرویز مشرف کی آج ایک اور حیثیت بھی ہے ، جس کا ہم میں سے بہت کم لوگوں کو احساس ہے۔ آج کا جنرل پرویز مشرف ایک علامت ہے ہماری ناانصافی کی! ایک علامت ہے ہمارے مجموعی قومی رویے کی۔ رویہ جو شرم ناک حدتک غیرذمہ دارانہ ہے۔ آج کا جنرل پرویز مشرف ایک جیتا جاگتاگوشت پوست کا ثبوت ہے اس حقیقت کا کہ ہم ایک تماش بین قوم ہیں۔ ہم من حیث القوم غیر سنجیدہ ہیں۔ ہماری حیثیت اس ہجوم سے زیادہ نہیں جو چوک پر جمع ہوتا ہے جس میں غالب تعداد بے فکرے کھلنڈروں کی ہوتی ہے جن کا واحد مقصد تماشہ دیکھنا، تالیاں پیٹنا اور ہاہا کرنا ہوتا ہے۔ چوک پر اگر میراثی چودھری کی بے عزتی کردے تو بے فکرے کھلنڈروں کا یہ ہجوم میراثی کے لیے تالیاں پیٹنے لگتا ہے اور اگر چودھری کے پالتو مشٹنڈے میراثی کی ٹھکائی کردیں تو یہ انہیں داد دینے لگ جاتے ہیں۔ جب ڈاکٹرعبدالقدیر خان پر الزام لگتا ہے کہ وہ ایٹمی ٹیکنالوجی دوسرے ملکوں کو شفٹ کرتے رہے تو ہمارا جواب ہوتا ہے کہ کیا وہ یہ کام تن تنہا کرتے رہے ؟ اور کیا یہ ایسا کام تھا جسے چھپ کر کیا جاسکتا تھا؟ یہ جواب منطقی انصاف پر مبنی ہے ۔ لیکن اس منطق اور اس انصاف کا اطلاق ہم جنرل پرویز مشرف پر کیوں نہیں کررہے ؟ کیا لال مسجد کے سانحے کے وہ اکیلے ذمہ دار ہیں؟ کیا اکبر بگتی کا قتل انہوں نے خود اپنے ہاتھ سے کیا اور اس وقت کوئی اور شخص دور ونزدیک وہاں موجود نہیں تھا؟ طالبان کے خلاف جب انہوں نے یوٹرن لیا تو کیا اس سڑک پر اور کوئی سواری نہیں تھی؟ کیا ڈرون حملوں کی اجازت انہوں نے اکیلے دی؟کیا این آر او صرف اُن کی تخلیق ہے؟ اگر وہ واقعی اتنے طاقت ورتھے کہ کابینہ بھی مخالف تھی، سب سے بڑی اتحادی جماعت قاف لیگ بھی ساتھ نہیں دے رہی تھی، کورکمانڈر بھی خلاف تھے اور اس کے باوجود یہ سارے کام انہوں نے تن تنہا انجام دیے تو پھر انصاف کی بات تو یہ ہے کہ وہ انسان نہیں، دیوتا ہیں۔ طاقت اور زور کا دیوتا! آپ غور فرمائیے، چودھری شجاعت حسین ہماری سیاست میں شرافت اور متانت کی ایک اعلیٰ مثال ہیں، وہ کسی کے خلاف ناشائستہ زبان نہیں استعمال کرتے، ان میں ایک رکھ رکھائو ہے۔ وہ صلح جوئی کے لیے معروف ہیں۔ ان کے مذہبی رحجان سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ ان کے گھرانے کی خواتین سیاست اور میڈیا سے احتراز کرتی ہیں۔ لال مسجد کا ذکر کرتے ہوئے وہ روبھی پڑے تھے۔ لیکن کیا وہ اس ٹریجڈی کے بعد حکومت سے علیحدہ ہوئے؟ کیا انہوں نے اس وقت جنرل پرویز مشرف کی (سانحے کی نہیں، سانحے کی مذمت تو سب کررہے تھے) مذمت کی؟ اکبر بگتی کا قتل ناروا تھا۔ لیکن اس کے قتل پر مشرف کے کتنے ساتھی اس سے الگ ہوئے؟ جب ذوالفقار علی بھٹو اپنے عہد اقتدار میں چودھری ظہورالٰہی مرحوم کو جان سے مارنا چاہتے تھے تو اکبر بگتی ان کے راستے کی دیوار بن گیا تھا۔ اس کے باوجود ، دوسروں کو تو چھوڑیے، خود چودھری شجاعت حسین اکبر بگتی کے قتل پر حکومت سے الگ نہ ہوئے! شیخ رشید کی مثال لے لیجیے، یہ وہی شیخ صاحب ہیں جو پرویز مشرف کا نام سید پرویز مشرف کہہ کر لیتے تھے۔ آج جو میڈیا پرویز مشرف کی دھجیاں بکھیر رہا ہے وہ پرویز مشرف کے انتہائی قابل اعتماد رفیق سفر شیخ رشید کو رات دن سرآنکھوں پر بٹھا رہا ہے۔ سچ پوچھیے تو ہمارے بعض اینکر حضرات چوک پر جمع ہونے والے کھلنڈرے بے فکروں کی بہترین مثال ہیں۔ آج شیخ رشید احمد کے پہروں طویل انٹرویو لیے جارہے ہیں۔( کیا کسی نے حساب لگایا ہے کہ تمام چینلوں کے انٹرویو جمع کیے جائیں تو کتنے سو، کتنے ہزار گھنٹے شیخ رشید کی نذر ہوچکے ہیں)۔ کل پرویز مشرف پٹخنی دے کر اوپر آگیا تو یہی اینکر حضرات اپنے سٹوڈیو میں اس کا میک اپ کررہے ہوں گے۔ چودھری پرویز الٰہی ، پرویز مشرف کو دس بار وردی سمیت منتخب کروا رہے تھے۔ امیر مقام اس کے بھائی تھے ۔ طارق عظیم ٹیلی ویژن پر اس کے ہراچھے اور ہر برے اقدام کا دفاع کررہے تھے۔ ماروی میمن نے بھی یہی کچھ کیا۔ خورشید محمود قصوری پانچ سال وزیر خارجہ کی حیثیت سے پرویز مشرف کے اقدامات کی پورے کرۂ ارض پر دفاع اور تحسین کرتے رہے۔ حنا ربانی کھر اور عمر ایوب خان ان کے عہد میں خزانے کے وزیر رہے۔ شوکت عزیز حکومت کا سربراہ تھا اور اس قدر طاقت ورتھا کہ 2007ء میں جب اس نے اور اس کے پچاس رکنی وفد نے میقات پر احرام نہ باندھا تو دَم کے انیس ہزار ریال بھی قومی خزانے سے دلوائے گئے۔ پاکستانی عوام اور خواص نے ان سب حضرات کو عملی طورپر، زبان حال سے، معصوم قرار دے دیا ہے ۔ ان میں سے کسی کے خلاف احتجاج ہوا نہ کسی نے کسی عدالت میں ان پر مقدمہ درج کرایا۔ یہ سب حضرات جو پرویز مشرف کے ہرجرم میں ان کا دست وبازو بنے رہے، آج تحریک انصاف ، نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے شیش محلوں میں کمخواب کی مسندوں پر جلوہ فرما ہیں۔ خدام مورچھل ہلا رہے ہیں۔ کنیزیں پائوں دبارہی ہیں۔ غلام دست بستہ کھڑے ہیں اور پرویز مشرف اپنی جان بچاتے پھررہے ہیں۔ کیا اس بارے میں دوآرا ہوسکتی ہیں کہ ہم ایک غیرسنجیدہ، انصاف دشمن اور تماش بین قوم ہیں؟