بیساکھی

آپ جو چاہیں کہیں‘ میں اس معاملے میں مولانا فضل الرحمن کی بھرپور تائید کرتا ہوں۔ الیکشن کمیشن نے مذہب یا فرقہ پرستی کے نام پر ووٹ مانگنے کو جرم قرار دیا ہے۔ مولانا نے اس کی مخالفت کی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ مذہب کے نام پر ووٹ نہ مانگنا نظریۂ پاکستان کے منافی ہوگا اور یہ پابندی لگا کر الیکشن کمیشن اپنے آپ کو سیکولر ثابت کر رہا ہے۔ مجھے مولانا کا موقف مبنی برحق لگتا ہے۔ ہم مسلمان ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ ووٹ مانگتے وقت ووٹروں کے مذہبی جذبات کو بیدار کریں۔ اسلام کا حوالہ دیں اور سیکولر ازم کی کشتی میں سوراخ کریں۔ مولانا کے موقف کی تائید کرکے مجھے سکون محسوس ہو رہا تھا۔ اتنے میں دستک ہوئی‘ باہر جماعت اسلامی کا امیدوار کھڑا تھا۔ اُس نے مذہب کے نام پر میرے ووٹ کا مطالبہ کیا۔ وہ ایک مذہبی سیاسی جماعت کا نمائندہ تھا۔ اُس کی جماعت نے اسلام کے لیے طویل جدوجہد کی تھی۔ وہ مجھے قائل کر ہی رہا تھا کہ جے یو آئی کا امیدوار آ گیا۔ وہ بھی مذہب کے نام پر میرے ووٹ کا خواستگار تھا۔ اُس کی جماعت ایک قدیم مذہبی روایت کی نام لیوا تھی۔ وہ اپنا رشتہ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ سے جوڑ رہا تھا‘ دیوبند کے مدرسہ کی اور دیوبند مکتبِ فکر کی برِّصغیر میں بے پناہ مذہبی خدمات ہیں۔ میں اُس کا موقف خاموشی سے سُن رہا تھا کہ ایک اور مولانا تشریف لائے۔ اُن کے ساتھ بھی نیک لوگوں کا گروہ تھا۔ یہ جمعیت علمائے پاکستان کے امیدوار تھے۔ انہوں نے بھی مذہب کے نام پر میرا ووٹ مانگا۔ ان کی خدمات سے کون انکار کر سکتا ہے۔ فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خان کی ایک دنیا معترف ہے۔ ایک زمانہ ان سے فیض یاب ہوا۔ عشقِ رسولﷺ ان کا سرمایۂ حیات تھا۔ مولانا احمد لدھیانوی کا نمائندہ تشریف لے آیا۔ وہ بھی مذہب ہی کے نام پر ووٹ کا مطالبہ کر رہا تھا۔ پھر مولانا ساجد نقوی کا نمائندہ آیا۔ وہ بھی مذہب کے نام پر ووٹ مانگ رہا تھا اور سچ پوچھیے تو اُس کا بھی حق بنتا تھا۔ پھر اہلِ حدیث دوست تشریف لائے۔ ان کا بھی اندازِ طلب یہی تھا۔ میں حیرت و اضطراب کے دریائے بے کنار میں غوطے کھا رہا تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی مذمت کی اور اسے نظریۂ پاکستان کے منافی قرار دیا۔ مجھے ان کا فیصلہ دل کی گہرائیوں سے پسند آیا۔ لیکن عملاً جو صورتِ حال سامنے آ کھڑی ہوئی‘ اُس نے میرے ہوش ٹھکانے لگا دیے۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ کس کا مطالبہ ٹھکرایا جائے اور کس کا قبول کیا جائے کہ مسلم لیگ نون والے آ دھمکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت مذہبی نام رکھنے والی کسی بھی جماعت سے کم مذہبی نہیں ہے۔ اس کے ارکان کی بہت بڑی تعداد نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج کی پابند ہے۔ بات درست تھی۔ یہ لوگ بھی اتنے ہی مذہبی ہیں جتنے جماعت اسلامی‘ جے یو آئی یا دوسری مذہبی جماعتوں کے ارکان۔ یہی حال تحریک انصاف‘ پیپلز پارٹی‘ اے این پی اور ایم کیو ایم کا ہے۔ غلام احمد بلور کا داخلہ مغربی ملکوں میں اس لیے بند کردیا گیا کہ انہوں نے گستاخانہ فلم بنانے والوں کے قتل پر انعام کا اعلان کیا۔ ایم کیو ایم والے سید سلیمان ندوی اور شبلی نعمانی کی روایات کے امین ہیں۔ وہ کسی سے کم مذہبی نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی والوں میں بھی ان گنت لوگ شعائرِ اسلام کے پابند اور حرمتِ رسولؐ پر کٹ مرنے والے ہیں۔ آخر مذہب کے نام پر کوئی پارٹی‘ کس طرح ووٹ کا مطالبہ کر سکتی ہے؟ مذہب پر کسی کی اجارہ داری نہیں۔ سب مسلمان ہیں۔ کوئی شخص دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ دوسرے سے بہتر مسلمان ہے اور کوئی شخص کسی دوسرے کو کم تر مسلمان نہیں ثابت کر سکتا۔ مولانا فضل الرحمن کو ضرور غلط فہمی ہوئی ہوگی! ووٹ مانگتے وقت تو یہ بتانا ہوگا کہ کس کے پاس بہتر اقتصادی پروگرام ہے؟ کون ملک کو باعزت خارجہ پالیسی دے گا؟ کون قوم کو آئی ایم ایف کے سنہری جال سے نکالے گا؟ غیر ملکی قرضوں کی زنجیریں کون توڑے گا؟ صدیوں پرانا جاگیردارانہ نظام کون ختم کرے گا؟ اور تباہ حال نظامِ تعلیم کو کون سنبھالے گا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے والی جماعتوں کے پاس کوئی ٹھوس پروگرام نہیں ہے اور انہوں نے اپنا ہوم ورک نہیں کیا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ مذہب کے نام پر عوام کے جذبات کا استحصال کرتی ہیں۔ جذباتی بلیک میلنگ کرتی ہیں اور اپنا اُلّو سیدھا کرتی ہیں۔ جنرل مشرف کے زمانے میں ان مذہبی جماعتوں کی حکومت ملک کے بڑے حصے پر قائم رہی لیکن اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ ان کی کارکردگی دوسرے صوبوں پر حکومت کرنے والی غیر مذہبی جماعتوں سے کسی صورت میں بہتر نہیں تھی! کیا اب وقت آ نہیں گیا کہ مذہب کے نام پر لوگوں کا سیاسی‘ تجارتی اور جذباتی استحصال بند کیا جائے؟ شہد کو اسلامی شہد کے نام پر فروخت کرنے والوں کو بتایا جائے کہ دنیا بھر میں پیدا ہونے والے سارے شہد کا ایک ایک قطرہ خدائے بزرگ و برتر کے حکم سے بنتا ہے اور کوئی شہد غیر اسلامی نہیں ہوتا۔ دکان چلانی ہے تو خدا کے لیے مذہب کو درمیان میں نہ لایئے۔ اس مثال سے اُن سیاسی جماعتوں کی ’’حکمت عملی‘‘ سمجھ میں آ جانی چاہیے جو اپنی سیاست کو ’’اسلامی سیاست‘‘ کے نام سے فروخت کرنا چاہتی ہیں۔ جمال احسانی مرحوم لطیفہ سنایا کرتے تھے۔ کراچی میں ایک صاحب کا دعویٰ تھا کہ وہ مغل خاندان کا آخری چشم و چراغ ہیں۔ شاعری بھی کرتے تھے جس کا سر ہوتا تھا نہ پیر۔ خارج از وزن اور مضحکہ خیز۔ ایک دن جوشؔ کے ہاں گئے اور کہا شعر سنانے آیا ہوں۔ جوشؔ دو تین شعر ہی سن سکے۔ پھر ان کی ہمت جواب دے گئی۔ ملازم سے کہا انہیں باہر نکال دو۔ وہ صاحب باہر نکلتے نکلتے کہہ رہے تھے: ’’جوش صاحب! ہمت ہے تو شاعری میں مقابلہ کیجیے‘ غنڈہ گردی پر کیوں اُتر آئے ہیں؟‘‘ سو‘ مذہب کے نام پر سیاسی سودا بیچنے والوں کی خدمت میں نہایت ادب سے گزارش ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود کا پروگرام لے کر آگے بڑھیے۔ مذہب بہت مقدس ہے اور لائقِ صد احترام۔ ازراہِ کرم اسے بیساکھی کے طور پر نہ استعمال کیجیے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں