آواز ریکارڈ ہونا شروع ہوئی تو لوگ دنگ رہ گئے۔ ایک انسان بولتا ہے اور اس کی آواز محفوظ کرلی جاتی ہے! اس سے پہلے بغیر آواز کی فلمیں شروع ہوچکی تھیں۔ وہ جو قیامت کے منکر تھے کہ اعمال کس طرح دکھائے جائیں گے،سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ انسان فلم بنا سکتا ہے اور آواز ریکارڈ کرسکتا ہے تو انسانوں کا خالق کیوں نہیں کرسکتا۔ریڈیو اور ٹیلیویژن کی نشریات کا آغاز ہوا تو عقل والوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ دو اور دو چار کی طرح معلوم ہوگیا کہ اذا الصّحف نشرت۔(جس دن صحیفے نشر کیے جائیںگے!!) کا کیا مطلب ہے۔قیامت سے پہلے بہت کچھ دکھا دیا گیا تاکہ تدبّر کرنے والے، روز قیامت پر ایمان لے آئیں، اگر بڑے بڑے عزت نشان دنیاہی میں رسوائی کی علامت بن سکتے ہیں تو کل حشر اٹھے گا تو کیا نہیں ہوگا۔ یہ جو چھوٹی چھوٹی قیامتیں دنیا میں دکھائی جاتی ہیں اور دکھائی جارہی ہیں تو یہ سب اس لیے کہ بڑی قیامت پر ایمان لایا جا سکے!کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ یورپ میں ایک وقت وہ آئے گا کہ پادری کی وقعت پرِکاہ نہیں رہے گی؟ کیا زمانہ تھا جب پوپ شہنشاہوں کا شہنشاہ تھا! کلیسا کے حکم پر لوگوں کو زندہ جلا دیا جاتا تھا، ہاتھ پیر کاٹ دیئے جاتے تھے۔ سولی پر چڑھانا تو نرم ترین سزا تھی۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ لوگ نہ صرف یہ کہ انہیں پوچھتے نہیں تھے، مذاق اُڑاتے تھے۔ آج کلیسا کے ایسے ایسے کرتوت ظاہر ہوئے ہیں اور معصوم مظلوم بچوں نے بڑے ہو کر وہ وہ راز کھولے ہیں کہ ہوس کے یہ چھپے ہوئے پجاری منہ چھپاتے پھرتے ہیں اور لوگ تف تف کررہے ہیں! کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ پاکستان میں، ایک سابق آرمی چیف کی کشتی عدالتوں کے گرداب میں ہچکولے کھائے گی۔ اس کا وکیل خلق خدا کے سامنے گریہ کناں ہو کر ضعیف ماں کی بیماری کی دہائی دے گا اور کسی کو خاطر میں نہ لانے والا شخص ججوں کے سامنے سر جھکا کر کھڑا ہوگا! کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ صحافی، جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، برہنہ ہوجائیں گے! دوسروں کے کرتوت اچھالنے والے، دوسروں کے راز افشا کرنے والے، کالموں میں دوسروں کا لباس تار تار کرنے والے، رپورٹنگ میں دوسروں کے گردے نکال کر تار پر لٹکا دینے والے اور ٹیلیویژن کے پردۂ سیمیں پر بیٹھ کر دوسروں کی آمدنی کے گوشوارے دیواروں پر آویزاں کرنے والے! ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ ان کے اپنے اعمال نشر ہو رہے ہوں گے۔ قیامت کا سماں ہے ؎ بہت ترتیب سے سارے جہاں گرنے لگے ہیں کہ ہفت اقلیم پر ہفت آسماں گرنے لگے ہیں خزانے یا زمیں کے راز اوپر آرہے ہیں ستارے یا فلک سے شمعداں گرنے لگے ہیں صرف ایک مثال پر اکتفا کیجیے۔ ایک صاحب وزیراعظم کے ہر پرنسپل سیکرٹری کی شان میں ایسی ’’رپورٹنگ‘‘کرتے آئے ہیں کہ قصیدہ خوانی اس رپورٹنگ کے سامنے مات پڑ جائے۔ خواہ یہ پرنسپل سیکرٹری محمد میاں سومرو کا تھا یا شوکت عزیز کا، یوسف رضا گیلانی کا تھا یا راجہ پرویز اشرف کا۔ کون نہیں جانتا کہ پرنسپل سیکرٹری ناانصافیوں کا سرچشمہ ہوتا ہے اور سب کچھ کرنے کرانے کے بعد کوئی تو بیرون ملک تعیناتی کرالیتا ہے اور کوئی نیپرا جیسے ادارے کا سربراہ لگ جاتا ہے (اس موضوع پر تفصیلی تحریر پھر کبھی) لیکن یہ صاحب پابندی کے ساتھ ہر پرنسپل سیکرٹری کی شان میں قصیدہ لکھتے تھے۔ اب جب ’’صحیفہ نشر‘‘ ہوا ہے تو ان کا نام اس میں بار بار دیکھ کر تعجب نہیں ہوا۔ ’’سپیشل اسائنمنٹ‘‘ کے لیے سیکرٹ فنڈ سے تین لاکھ ملتے ہیں۔ ایک ماہ بعد پھر ایک لاکھ روپے۔ مہینے ڈیڑھ مہینے بعد پھر ایک لاکھ روپے۔ کون سی سپیشل اسائنمنٹ؟ اور یہ تو مشتے نمونہ از خروارے ہے! سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تیز ہوا کو حکم دیتا ہے کہ دستاریں گرا دے اور پارسائی کی سفید چادریں اڑا لے جائے۔ ؎ گھوڑے، حشم، حویلیاں، شملے، زمین، زر میں دم بخود کھڑا رہا کتبوں کے سامنے صحافیوں کی اکثریت نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری پوری کی۔ غلطیاں بھی ہوئیں، افراط بھی اور تفریط بھی۔ سیاست دانوں کو مکمل آزادی ہے کہ وہ وضاحت کریں۔ چنانچہ خبر آنے یا کالم یا رپورٹ چھپنے کے چند ثانیے بعد وہ جواب آں غزل پیش کردیتے۔ جرنیلوں کے پاس قوت ہے۔ وہ اپنے اسلوب سے صحافیوں کو جواب دیتے ہیں۔ مظلوم ترین طبقہ اس کھیل میں سرکاری ملازموں کا ہے جن کے پاس جواب دینے کے لیے کوئی فورم ہے نہ پلیٹ فارم۔ بیورو کریسی کی اکثریت ایماندار ہے اور غریب۔ سب پرنسپل سیکرٹری لگتے ہیںنہ ڈپٹی کمشنر، نہ سب وزیراعظم کی صفائی عدالت میں پیش کرکے تحسین حاصل کرتے ہیں۔ چند کالی بھیڑیں ہیں اور معاف کیجیے، صحافی ان کالی بھیڑوں کے کاندھے پر بندوق رکھ کر ساری بیورو کریسی کو نشانے پر رکھتے رہے ہیں۔ ٹیلیویژن پر آ کر مذہب کا پرچار کرنے والے صحافیوں نے تو تحقیر سے سرکاری ملازموں کو بابو لکھا اور اس تواتر سے کہ یہ لفظ لغت کا حصہ ہی بن گیا۔ مذہب کا لبادہ اوڑھنے والے ان نام نہاد پارسائوں کو اللہ کی کتاب کا حکم کبھی یاد نہ آیا۔ ولا تنا بزوا بالالقاب۔ (ایک دوسرے کو بُرے القاب سے نہ یاد کرو۔) زندگی بھر کی محنت شاقہ کے بعد کسی سرکاری ملازم کو سواری ملتی ہے یا سر ڈھانپنے کے لیے چھت، تو اس پر وہ ہاہاکار مچتی ہے کہ شرفاء کونوں کھدروں میں چھپ جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ شاید اس میں کارفرما کچھ دوستوں کا احساس کمتری بھی ہو جو مقابلے کے امتحان میں سرخرو نہ ہوسکے! صحافت مقدس پیشہ ہے۔ سیکرٹ فنڈسے جنہوں نے ناروا فائدہ اٹھایا، وقت ان کے ساتھ خود ہی نمٹ لے گا۔ لیکن ؎ سنو علاقے ہیں اور بھی یاد رفتگاں کے سنو میں اندازِ نوحہ خوانی بدل رہا ہوں صرف مالی بے احتیاطی ہی باعثِ تشویش نہیں۔ دیانت کی ساری صورتیں لازم ہیں۔ علاقے کی بنیاد پر طرفداری کرنا ہر گز مستحسن نہیں۔ یہ اصول تو جنگ بدر ہی میں طے پا گیا کہ رفاقت کی بنیاد ،انصاف ہے، علاقہ نہیں، مکہ سے آنے والا لشکر جن مہاجرین پر حملہ آور ہوا وہ مکہ ہی کے تو تھے اور مہاجرین کی خاطر جو جانوں کا نذرانہ پیش کررہے تھے‘ وہ مدینہ کے تھے ۔صحافت کی بنیاد حقائق ہونے چاہئیں اور سچائی… نہ کہ علاقہ! اگر بدعنوانی واضح ہے اور پوری دنیا اس کی گواہی دیتی ہے تو علاقے کی بنیاد پر کسی کا ساتھ دینا سچے اور انصاف پسند صحافی کو زیبا نہیں۔ رومی ؒدیوان شمس تبریز میں کیا خوب تنبیہ کرتے ہیں ؎ ہلہ ہش دار کہ در شہر دوسہ طرارند کہ بہ تدبیر‘ کلہ از سرِمہ بردارند ہشیار‘ خبردار‘ شہر میں دو تین ایسے شعبدہ باز ہیں کہ چاند کے سر سے بھی ٹوپی اتارلائیں!!!