شیرشاہ سوری سے شکست کھا کر ہمایوں ایران چلا گیا۔ ایک دن وہ اور اس کا میزبان، شاہ طہماسپ، شکار کو نکلے، آرام کا وقت آیا تو خدام نے قالین بچھا دیا۔ دونوں بادشاہ بیٹھ گئے لیکن ہمایوں کے ایک زانو کے نیچے قالین نہ تھا۔ اس کے ایک جاں نثار نے بجلی کی رفتار کے ساتھ اپنے ترکش کا غلاف تلوار سے چاک کیا اور زانو کے نیچے بچھا دیا۔ طہماسپ اس برق رفتاری سے متاثر ہوا۔ پوچھا‘ ایسے جاں نثاروں کی موجودگی میں ملک کس طرح ہاتھ سے نکل گیا۔ جواب دیا‘ بھائیوں کی عداوت نے کام خراب کیا۔ طہماسپ نے پوچھا مقامی آبادی کا رویہ کیسا تھا؟ جواب دیا غیر قوم اور غیر مذہب والوں سے رفاقت ممکن نہیں۔ طہماسپ نے اس پر کمال کا گر بتایا۔ کہا‘ ہندوستان میں دو گروہ ہیں… افغان (شاید اس کی مراد غیر مقامی لوگوں سے تھی جس میں افغان، ترک، عرب سب شامل تھے) اور راجپوت۔ اب کے خدا موقع دے تو افغانوں کو تجارت میں مصروف کرو اور راجپوتوں کے ساتھ محبت سے پیش آ کر انہیں شریک حال کرو! ہمایوں کو اقتدار تو دوبارہ مل گیا لیکن مہلت نہ ملی۔ طہماسپ کی نصیحت پر اکبر نے عمل کیا اور مقامی آبادی کو پیار سے تسخیر کرلیا۔ یوں کہ راجپوت سلطنت کا مضبوط ترین ستون بن گئے۔ یہ سارا معاملہ وژن کا تھا! اس وژن کا عشرِ عشیر بھی ہمارے سیاست دانوں میں ہوتا تو آج ملک قاش قاش ،پارہ پارہ نہ ہوتا۔ کوتاہ نظری کی انتہا ہے کہ جن علاقوں سے ووٹ نہ پڑیں ان سے برسراقتدار آ کر سوتیلا سلوک کیا جاتا ہے۔ یوں نفرتیں شدید ہوجاتی ہیں اور خلیج وسیع تر۔ امتیازی سلوک دشمن کو جنم دیتا ہے یہاں تک کہ محروم خلق خدا چیخ اٹھتی ہے۔ طہماسپ جیسا شخص میسر آئے تو مشورہ دے کہ جنہوں نے ووٹ نہیں دیے، ان کے ساتھ زیادہ شفقت برتو! نارووال سے نون لیگ کا امیدوار، جو کبھی جماعت اسلامی کے خیمے کا طناب بردار تھا ،کہتا ہے ’’میں نے اس شہر کو پیرس تو نہیں بنایا لیکن آدھا پیرس ضرور بنا دیا ہے!‘‘ درست فرمایا ہے۔ اس لیے کہ نارووال نے شریف برادران کے وفادار کو فتح سے ہمکنار کیا اور خزانے کا رخ اس طرف ہوگیا۔ وفادار بھی ایسا کہ ؎ اگر شہ روز را گوید شب است این بباید گفت ’’اینک ماہ و پروین!‘‘ بادشاہ دن کو رات کہے تو فوراً کہہ اٹھے، وہ رہے چاند ستارے! نارووال آدھا پیرس بن گیا لیکن اٹک کی چھوٹی سی بستی جھنڈیال کو پانچ سال،پورے پانچ سال، ڈسپنسری کی تعمیر کے لیے بیس لاکھ کی رقم اس لیے نہیں ملی کہ ڈسپنسری کی منظوری قاف لیگ کے ضلع ناظم میجر طاہر صادق نے دی تھی۔ نون لیگ کو پنجاب پر قبضہ کے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہوچلا تھا جب اس کالم نگار نے پریس میں اس مسئلے کو اجاگر کیا اور خادم اعلیٰ کی خدمت میں اہل دیہہ کی طرف سے عرض گزاری کی۔ کالم نگار لاہور سے اسلام آباد کی طرف سفر کررہا تھا۔ جی ٹی روڈ پر نصف فاصلہ طے ہوچکا تھا۔ محکمہ اطلاعات پنجاب کے حقیقی مدار المہام کا ٹیلی فون آیا اور اس نے وجہ بیان کردی: ’’ڈسپنسری کی منظوری شہباز شریف نے تو نہیں دی تھی…!‘‘ وقت بھی کیا کیا ستم ظریفیاں دکھاتا ہے۔ یہ مدار المہام، سلطنت اطلاعات پنجاب کے یہ شہنشاہ، کالم نگار کے چالیس سالہ پرانے دوست تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ شعر فہمی میں اس شخص کا ثانی کوئی نہیں۔ خود شعر کم کہے لیکن جو کہے‘ ان میں سے کچھ تو ضرب المثل ہی بن گئے۔ افسوس! بلا کے اس ذہین شخص کو خدمت کی عادت نے درباروں سے باندھ ہی دیا۔ ایک کے بعد دوسرا دربار۔ سعدی نے کہا تھا، کمرِ زرّین… یعنی سنہری پیٹی باندھنا اور نوکری میں کھڑے رہنا ،جو اس مزے میں پڑ گیا وہ چالیس سالہ تعلق کی پشت میں بھی سرکاری ترجمانی کا خنجر بھونک دیتا ہے۔ منصب برقرار رکھنا جنگ سے کم نہیں۔ عباس تابش نے کہا تھا ؎ حالتِ جنگ میں آدابِ خور ونوش کہاں اب تو لقمہ بھی اٹھاتا ہوں میں تلوار کے ساتھ اسی لیے تو بزرگوں نے متنبہ کیا تھا ؎ عمر گران مایہ درین صرف شد تاچہ خورم صیف و چہ پوشم شتا ای شکم خیرہ! بنانی بساز تانکنی پشت بخدمت دوتا زندگی اسی فکر میں گزر گئی کہ گرمیوں میں کھائوں گا کیا اور جاڑے میں پہنوں گا کیا۔ اے کبھی نہ بھرنے والے پیٹ! خدا کے لیے ایک روٹی کی عادت ڈال تاکہ خدمت کرکر کے کمر دہری نہ کرنی پڑے۔ بخدا نون لیگ سے دشمنی نہیں، ہمدردی ہے۔ ہیہات! علاقائیت اور قومیت کی دبیز پٹی آنکھوں پر باندھے اس گروہ کو مطلق احساس نہیں کہ اس نے وسطی پنجاب کے تین چار اضلاع کو چھوڑ کرباقی پنجاب سے جو برتائو روا رکھا ہے اس کا عدل سے کوئی واسطہ نہیں۔ عابد شیر علی سے اسحاق ڈار تک اور رانا ثناء اللہ سے سیالکوٹ کے خواجگان تک ایک تنگ علاقائی پٹی، ایک پتلا کوریڈور ہے۔ رہے چودھری نثار علی خان تو وقت منتظر ہے کہ وہ اس علاقائی انجمن امداد باہمی سے کب کنارہ کش ہوتے ہیں۔ کل نہیں تو پرسوں۔ صبحِ دو شنبہ نہیں تو شبِ آدینہ! ع دل کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا ہمہ گیری کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ہر جگہ نون لیگ کے پرچم تلے امیدوار میسر ہیں۔ اس میں آخر تعجب کی کیا بات ہے۔ اول تو خود نون لیگ نے Electables تلاش کر کرکے اپنے تھیلے میں ڈالے۔ دوم‘ اکا دکا سواروں کو قافلہ درکار ہوتا ہے کوئی سا بھی ہو! قاف لیگ سُکڑی اور پی پی پی زرداری خاندان کی بھینٹ چڑھی تو بچھڑنے والے سوار یہاں آگئے۔ اودھ کی حکومت نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے مل کر روہیلہ ریاست ختم کی تو مرحوم ریاست کے لشکری نظام کے ہاں چلے گئے اور کچھ نے تو مرہٹوں کی ملازمت کرلی! مسافر ان قافلوں کو بھی مل جاتے ہیں جن کی منزل کوئی نہیں ہوتی! اعتزاز احسن نے تو یہاں تک کہا ہے کہ شہباز شریف صرف جنوبی لاہور کے وزیراعلیٰ رہے۔ نظر کی ’’وسعت‘‘ کا اندازہ لگایئے کہ مشیران کرام بھی ایک ہی شہر سے ہیں۔ ہمارے چالیس سالہ پرانے دوست گرامی بھی لاہور سے باہر نہیں دیکھ سکتے اور وہ ریٹائرڈ بیورو کریٹ بھی جو سیاہ و سفید کا مالک ہے۔ یہ صاحب اس وقت کے وزیراعظم کو یہ تصور ہی نہ دے سکے کہ فوج کا سربراہ ہمیشہ لڑاکا شعبوں سے ہوتا ہے۔ انفنٹری، آرٹلری یا آرمرڈ سے! باقی شعبے تو ثانوی ہوتے ہیں۔ پھر یہ کہنا کہ جب جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف بنایا گیا تو انہوں نے ’’سارے کور کمانڈروں کو کال کیا، میری موجودگی میں اور وہ آگے سے مبارکبادیں دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ سر مبارک ہو، ہم پھر کب آئیں مبارکباد دینے کو۔‘‘(یو ٹیوب پر ان صاحب کا انٹرویو موجود ہے۔)اس دعویٰ کا کوئی ثبوت؟ کیونکہ ٹیلیفون تو جنرل بٹ کے کان کے ساتھ لگا تھا۔ کمرے میں موجود شخص نے گفتگو کیسے سن لی اور کیا کسی مرحلے پر جنرل بٹ صاحب نے خود بتایا ہے کہ کور کمانڈر مبارکباد دے رہے تھے اور پوچھ رہے تھے کہ کب آئیں؟؟ نارووال ضرور پیرس بنے۔ وہ بھی ہمارے ہی ملک کا حصہ ہے اور ہمیں عزیز ہے لیکن جن علاقوں کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا ان کا حساب دینا ہوگا۔ ہر حال میں حساب! ع اپنا حق شہزادؔ ہم چھین لیں گے، مانگیں گے نہیں! کوتاہ اندیشوں اور کورچشموں سے‘ صرف اپنے خاندانوں اور اپنے قبیلوں کی پرورش کرنے والوں سے ضرور نجات ملے گی۔ پاکستان پر انصاف کا سورج ضرور طلوع ہوگا۔ کل نہیں تو پرسوں۔ نہیں تو ایک دن بعد۔ عمران خان کامیاب نہ ہوا تو کوئی اور آئے گا اور ضرور آئے گا ؎ ابھی اترا نہیں ہے آخری عاشق زمیں پر ہمارے بعد بھی یہ سلسلہ باقی رہے گا