مصرکے گورنر حضرت عمرو بن عاص کے صاحبزادے نے ایک شخص کو تازیانے مارے۔ مارتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے۔ لے میں بڑوں کی اولاد ہوں‘‘ مظلوم مدینہ پہنچا اور فریاد کی۔ عمرفاروق اعظم ؓنے اسے اپنے پاس ٹھہرایا اور گورنر اور ان کے بیٹے کو بلا بھیجا۔ دونوں مجلس قصاص میں پیش ہوئے دوسرے خلیفہ راشد نے بلند آواز میں کہا۔ مصر ی کہاں ہے ؟ لے یہ درہ اور بڑوں کی اولاد کو مار‘‘ مصری مارتا جاتا تھا اور فاروق اعظم کہتے جارہے تھے، ’’بڑوں کی اولاد کو مار‘‘۔ اس نے جی بھر کر مارا اور جب درہ خلیفہ کو واپس کرنے لگا تو انہوں نے کہا، عمرو کے سرپر مار، خدا کی قسم بیٹا ہرگز نہ مارتا اگر اسے باپ کے اقتدار کا گھمنڈ نہ ہوتا۔ گورنر نے احتجاج کیا ’’امیرالمومنین آپ سزادے چکے ہیں۔‘‘ مصری نے بھی کہا ’’امیرالمومنین!جس نے مجھے مارا تھا میں نے اس سے بدلہ لے لیا ہے‘‘۔ آپ نے فرمایا ، خدا کی قسم اگر تو عمروبن عاص کو مارتا تو میں اس وقت تک درمیان میں نہ آتا جب تک تو خود اپنا ہاتھ نہ روکتا۔ یہ تھا وہ موقع جب عمرفاروقؓ نے، خدا ان پر کروڑوں رحمتیں نازل کرے، وہ لافانی فقرہ کہا جسے روسو سے منسوب کیا جاتا ہے۔ روسو نے کہا ہوگا لیکن وہ تو اٹھارہویں صدی میں تھا بارہ سو سال بعد! حضرت عمرؓ نے عمروؓبن العاص کو مخاطب کیا۔ ’’عمرو! تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنایا؟ ان کی مائوں نے تو انہیں آزاد جنا تھا۔‘‘ درست کہا ہے نواز شریف نے کہ اگر بڑوں کو چھوڑ دیا جائے اور عام مجرموں ہی کو سزادی جائے تو پھر قانون تو صرف چھوٹوں ہی کے لیے رہ جائے گا۔ یہ صفحات گواہ ہیں کہ اس کالم نگار نے شریف برادران پر اور نون لیگ پر اکثر وبیشتر تنقید کی ہے اور کسی جھجک اور خوف کے بغیر کی ہے ۔ یہاں تک کہ بہت سے دوست ناراض ہوگئے۔ نوجوان صحافی اجمل شاہ دین نے کیا ہی میٹھا گلہ کیا کہ آپ ہمارے دل کا خیال نہیں کرتے۔ لیکن میاں نوازشریف نے کل جوکچھ کہا ہے اس کی حمایت نہ کرنا ناانصافی ہوگی کہ یہ آواز پوری قوم کی آواز ہے۔ ہمارے جو دوست نون لیگ سے وابستہ ہیں ان کی خدمت میں یہ بھی عرض ہے کہ حمایت بھی انہی کی طرف سے معتبر ہوتی ہے جو اختلاف کی جرأت رکھتے ہیں۔ جن لکھاریوں کے بارے میں پڑھنے والے طے کرلیتے ہیں کہ یہ تو ہرحال میں ساتھ دیتے ہیں، ہربات کی تعریف کرتے ہیں اور اختلاف نہ کرنے پر مجبور ہیں، وہ جائز تعریف بھی کریں تو اس کی کوئی وقعت نہیں۔ ہرروز شیر آیا شیر آیا کہا جائے تو جس دن شیر آجائے آواز پر‘ کتنی ہی بلند کیوں نہ ہو، کوئی نہیں کان دھرتا۔ نواز شریف نے کہا ہے کہ ڈکٹیٹر کو سزادینے سے جو پنڈورابکس کھلتا ہے، اسے کھلنا چاہیے اور آئین توڑنے والے کو ضرور سزا ملنی چاہیے، ’’اگر میں وزیراعظم بنا تو پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت ضرور کارروائی کروں گا۔ نواز شریف بہرطور ایک سیاست دان ہیں اور اس ملک کے عوام سیاست دانوں پر بہت زیادہ اعتماد نہیں کرتے، ہوسکتا ہے میاں نواز شریف برسراقتدار آکر یہ وعدہ بھول جائیں‘ لیکن اگر نہ بھولے اور جو کہہ رہے ہیں وہ کردکھایا تو یہ واقعی ایک کارنامہ ہوگا۔ اس ملک کو اندر سے کھانے والا اصل سرطان ’’مٹی پائو‘‘ کا رویہ ہے۔ کیوں مٹی پائو؟ اس لیے کہ بڑوں کے پکڑے جانے کا امکان ہے ؟پنڈورابکس نہ کھولو، کیوں نہ کھولو؟پنڈورابکس کھلنا چاہیے ۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہونا چاہیے۔ سیاہ کو سیاہ اورسفید کو سفید کہہ کر سیاہ اور سفید کو الگ الگ کرنا چاہیے۔ آٹھ سال تک جن لوگوں نے پرویز مشرف کے ساتھ بیٹھ کر حلوہ کھایا ہے اور کھانے کے بعد دونوں ہاتھ مل کر چکنائی سے مونچھوں کو مزید اکڑایا ہے، انہیں کٹہرے میں کھڑا ہونا چاہیے۔ بھاگنے والے، وزیراعظم شوکت عزیز کو بھی، جو جاتے ہوئے کروڑوں روپے کے سرکاری تحائف ساتھ لے گئے، واپس بلانا چاہیے، ان کے اعمال کا محاسبہ ہونا چاہیے اوررات کو دو بجے قلفی کی دکان کھلوا کر، جگر ٹھنڈا کرنے والے سے ان قلفیوں کا بھی حساب لینا چاہیے جو کرنسی کی شکل میں تھیں۔ یہ عجیب وغریب اسلامی ملک ہے جس میں صبح و شام پیغمبراسلام ؐ کے اس فرمان کی عملی مخالفت اور توہین ہوتی ہے کہ تم سے پہلی امتیں اس لیے ہلاک ہوئیں کہ طاقت وروں کو چھوڑ دیتی تھیں اور کمزوروں کو سزادیتی تھیں (یہ مفہوم ہے، اصل الفاظ نہیں) یہ کیسا اسلامی ملک ہے جہاں ڈنکے کی چوٹ کہا گیا کہ ’’فلاں مالو مصلی نہیں ہے‘‘ اگر یہ اسلامی ملک ہوتا تو ایسا کہنے والے سے بازپرس ہوتی، اسلام کی نظر میں مالو مصلی ، چودھری، خان، سردار، سب برابر ہیں۔ شرم آنی چاہیے ہم علم برداران اسلام کو کہ کافر ملکوں میں آج مالو مصلی اور چودھری برابر ہیں۔ برطانوی وزیراعظم کی بیوی ٹرین میں بغیر ٹکٹ سفر کرتے ہوئے پکڑی جاتی ہے تو عدالت میں لے جائی جاتی ہے۔ سنگاپور کے وزیراعظم کا بیٹا ٹریفک قانون کو پامال کرتا ہے تو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ کرہ ارض کا طاقت ور ترین صدر اپنی قوم سے جھوٹ بولتا ہے تو کٹہرے میں کھڑا کردیا جاتا ہے اور عدالت کی کارروائی پوری دنیا دیکھتی اور سنتی ہے۔ لیکن افسوس!یہودیوں کا قول کہ ہم برتر ہیں، اب ہم میں بھی در آگیا ہے۔ ہم ہرشخض کا منہ نوچتے ہیں اور اپنے بدبو دار گریبان میں نہیں جھانکتے ۔ تو کیا میاں نواز شریف، پرویز مشرف کے ان ساتھیوں کو بھی اس کے ساتھ کٹہرے میں کھڑا کریں گے جو آج، اپنے جرائم چھپانے کی خاطر، ان کے ساتھ آملے ہیں ؟کتنا مضحکہ خیز ہے یہ منظر جب پرویز مشرف کا آٹھ سال دفاع کرنے والے طارق عظیم صاحب ٹیلی ویژن سکرین پر مسلم لیگ نون کا موقف بیان کررہے ہوتے ہیں۔ اس کالم نگار کو وہ منظر بھی یاد ہے جو ٹیلی ویژن پر دیکھا تھا۔ ہری پور کے گردونواح میں شوکت عزیز ایک غیرمعیاری ، ابکائی آور، تقریر کررہے تھے۔ ان کی عادت تھی کہ تقریر کرتے وقت جسم کا زور کبھی ایک پائوں پر ڈالتے، کبھی دوسرے پر، تقریر میں بار بار یہی فقرہ تھا کہ ہم ترقی لائیں گے ، ہم پاکستان میں ترقی لائیں گے، اور ان کے ایک طرف گوہرایوب کھڑے تھے اور دوسری طرف عمرایوب ، آج دونوں مسلم لیگ نون کی زینت ہیں۔ اور بے شمار دوسرے بھی! پنڈورابکس ضرور کھلنا چاہیے، اور یہ سب جو بھیڑوں کی کھال اوڑھے ، تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کے ریوڑ میں شامل ہیں انہیں ریوڑ سے باہر نکالنا چاہیے پھر ان کے اوپر سے بھیڑ کی کھال اتار دینی چاہیے تاکہ ان کا اصل روپ سامنے آجائے۔ پھر انہیں ان جرائم کی سزا ملنی چاہیے جوانہوں نے پرویز مشرف کی گود میں بیٹھ کر کیے۔ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔ گورنر کے بیٹے کے لیے اور اس مصری کے لیے بھی جسے اس نے مارا تھا۔ پرویز مشرف کے خلاف ضرور کارروائی ہونی چاہیے۔ اس کے اتحادیوں کے خلاف بھی ۔ خواہ وہ کوئی بھی ہوں ۔ اور ان کے خلاف بھی جوٹیلی ویژن پر آکر ملفوف قسم کی دھمکیاں دیتے ہیں کہ ہمارے خلاف کارروائی کی گئی تو فلاں ادارہ برداشت نہیں کرے گا۔ ادارے نے ثابت کردیا ہے کہ وہ کسی مجرم کی پشت پناہی نہیں کرے گا۔ لوگ ادارے سے محبت کرتے ہیں۔ بے پناہ محبت! کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ ادارے کی آڑ لے کر جرائم کرتا پھرے!!