یہ ایک بادشاہ کی کہانی ہے جو ایک عالی شان محل میں رہتا تھا۔ یہ محل ایک پہاڑ پر بناہوا تھا ۔اس پہاڑ پر پہنچنا کسی کے لیے بھی ممکن نہ تھا۔ پہاڑ کے چاروں طرف پہرہ تھا۔ پہریدار بندوقوں توپوں راکٹوں اور گرنیڈوں سے مسلح تھے۔ ان کے کانوں پر طاقت ورٹیلی فون لگے رہتے تھے۔ ان ٹیلی فونوں پر ذرا سی آہٹ کی آواز بھی صاف سنائی دیتی تھی۔ سلطنت کے لوگ غریب تھے۔ ان کے پاس لالٹینیں ٹوٹی ہوئی تھیں اور دیئے مٹی کے تھے۔ دیئے جلانے کا تیل راشن پر ملتا تھا۔ لوگ ہاتھوں میں ڈبے پکڑے قطاروں میں کئی کئی دن کھڑے رہتے۔ رعایا کی اکثریت چیتھڑوں میں ملبوس تھی۔ گرانی اس قدرتھی کہ دووقت کی روٹی حاصل کرنا عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ امن وامان کا سرے سے وجود ہی نہ تھا۔ مسلح جتھے پوری سلطنت میں بلاخوف وخطر پھرتے رہتے اور جہاں موقع ملتا پرامن شہریوں کو قتل کردیتے۔ دکاندار دن دہاڑے لوٹ لیے جاتے۔ بچے کیا، بڑے بھی اغوا ہوجاتے۔ جوشخص بھی اپنا گھوڑا کسی درخت کے ساتھ باندھتا ، پانچ منٹ میں چوری ہوجاتا۔ بادشاہ رعایا سے بے نیاز ، محل ہی میں رہتا۔ وہ محل سے کبھی باہر نہ نکلتا۔ اس کا ایک ہی مشغلہ تھا۔ ہیرے جواہرات درہم دینار اشرفیاں جمع کرنا۔ اسے قیمتی پتھروں کا بھی شوق تھا۔ اس کے خزانے الماس ، زمرد، عقیق ، مروارید، نیلم اور مرجان سے بھرے ہوئے تھے ۔ وہ رات دن مزید دولت اکٹھی کرنے میں لگارہتا۔ جب اس کے محل میں جگہ باقی نہ رہی تو اس نے کوہ قاف میں ایک غار کرائے پر لیا اور اسے بھرنے میں لگ گیا۔ بادشاہ کی اپنے امیروں، وزیروں، مصاحبوں اور معاونین خاص کو بھی یہی نصیحت تھی کہ وقت کو غنیمت سمجھو۔ اقتدار ناقابل اعتبار ہے۔ جتنی اشرفیاں جتنے درہم ودینار جمع کرسکتے ہوکرو۔ بسااوقات تو وہ ان سے کمال شفقت سے پوچھ بھی لیتا کہ کون سا منصب درکار ہے؟ وہ حساب کتاب کرکے بتاتے کہ فلاں عہدے پر زیادہ اشرفیاں جمع کرنے کا امکان ہے۔ وہ اسی وقت فرمان جاری کردیتا اور مصاحب نئے منصب پر متمکن ہوکر اشرفیاں اکٹھی کرنا شروع کردیتا۔ وزیروں مشیروں اور معاونین خاص کر دور ونزدیک کے سارے رشتہ دار بھی سلطنت کے طول وعرض میں مختلف عہدوں پر براجمان یہی کام کررہے تھے۔ جسے خبر ملتی کہ سلطنت کے فلاں کونے میں فلاں شخص کے پاس کچھ اشرفیاں پائی گئی ہیں، فوراً گھوڑے پر سوار ہوتا، مسلح جتھا ہمراہ لیتا اور جب تک وہ اشرفیاں نکلوانہ لیتا، چین سے نہ بیٹھتا۔ دولت کی حفاظت پر ہروقت مسلح افراد مامور رہتے۔ کوہ قاف کے غار پر ایک بڑا پتھر رکھ دیا گیا تھا۔ اس پر غیرملکی محافظ چوبیس گھنٹے پہرہ دیتے۔ بادشاہ کے محل میں خصوصی جادوگر تعینات تھے جو اس کے لاتعداد خزانوں کی مافوق الفطرت حفاظت کے لیے جنتر منتر کرتے۔ ان میں سے ایک کی ہدایت پر ہرروز کالے رنگ کی دو لومڑیاں ذبح کی جاتیں اور گوشت کووں کو کھلایا جاتا۔ بادشاہ بہت کم بولتا۔ اس کا تکیہ کلام بھی مختصر تھا۔ ’’خریدلو‘‘ اس سے جب بھی کوئی بات کرتا، وہ آدھی بات سنتا اور کہتا ’’خریدلو‘‘ ایک بار وزیر تاریخ نے شکایت کی کہ مورخ کہا نہیں مان رہے اور تاریخ لکھتے وقت رعایا سے حالات پوچھتے پھرتے ہیں۔ بادشاہ نے کہا ’’خریدلو‘‘ ، چنانچہ عام مورخ خرید لیے گئے۔ پھر معلوم ہوا کہ نقارچی جو صبح صبح ڈھول پیٹ کر گلیوں بازاروں میں لوگوں کو تازہ خبروں سے آگاہ کرتے ہیں، بادشاہ کے خزانوں کے بارے میں بتاتے پھر رہے ہیں۔ بادشاہ نے انہیں بھی خریدنے کا حکم دیا۔ اکثر نقارچی بک گئے۔ باقی دبک گئے۔ جب شہزادوں کی تعلیم کا مرحلہ آیا تو پوچھا گیا ، کون سے مکتب درہم دینار لے کر اسناد دے دیتے ہیں ؟ مصاحبوں نے ایسے مکتبوں کے پتے دیئے، شہزادوں کو وہاں بھیجا گیا، وہ کچھ عرصہ وہاں رہے اور اسناد لے کر کامیابی کے پرچم لہراتے واپس آئے، بادشاہ نے انہیں ایک ہی نصیحت کی کہ جواہرات جمع کرو اور جو شے درکار ہو اور جو شخص قابو میں نہ آئے اور جو ادارہ اطاعت سے انکار کرے، خریدلو۔ ایک بار بادشاہ کو صحت کی ضرورت پڑ گئی۔ معلوم ہواکے ایک اور ولایت میں میسر ہے ۔ چنانچہ وہ وہاں گیا۔ اور صحت خرید لایا۔ ایک بار محل میں قانون کی ضرورت پڑ گئی۔ وہ بھی یوں کہ فرش پر بچھائی جانے والی قالینوں کو جگہ جگہ سے چوہے کتر گئے۔ مصاحبوں نے مشورہ دیا کہ اگر انہیں ہٹا کر قانون بچھالیا جائے تو اس کے اوپر چلنے سے پیروں کو عجیب لطف آئے گا اور جوتے بھی خراب نہیں ہوں گے۔ چنانچہ سلطنت میں جس قدر بھی قانون ملا، خرید کر فرش پر بچھا دیا گیا۔ بادشاہ اور اس کے وزیر امیر اور معاونین خاص اس پر چلتے اور لطف اندوز ہوتے۔ ایک بار جاسوس خاص نے خبردی کہ رعایا چراغ زیادہ جلانے لگ گئی ہے اور فضول خرچی پر مائل ہے۔ فیصلہ ہوا کہ سلطنت میں جتنا بھی تیل موجود ہے۔ اکٹھا کر لیا جائے۔ دربار میں بادشاہ نے پوچھا یہ مہم کون سرانجام دے گا۔ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے طبیب خاص نے جھرجھری لی اور ہاتھ کھڑاکردیا۔ فوراً طبیب خاص کو امیر تیل مقرر کردیا گیا۔ اس نے سلطنت کے اطراف واکناف سے سارا تیل منگواکر سٹورکرلیا۔ رعایا کو سبق حاصل ہوا اور مائل بہ اصلاح ہوئی۔ کرنا خدا کا، ایک بار بادشاہ سلامت کو عزت کی ضرورت پڑ گئی۔ فوراً حکم ہوا ’’خریدلو‘‘ ۔ گماشتے سلطنت میں کیڑوں کی طرح پھیل گئے۔ بازار چھان مارے گئے، سوئے ہوئے دکاندار جگاکر دکانیں کھلوائی گئیں، ڈھنڈورچی منہ مانگی قیمت کا اعلان کرنے لگے لیکن عزت کہیں سے بھی نہ ملی۔ تاجروں نے ادب کے ساتھ عرض گزاری کی کہ عالی جاہ! یہ جنس بدبخت ایسی ہے کہ منڈی میں میسر نہیں۔ بادشاہ نے چیخ کر کہا ’’یہ کیسے ممکن ہے۔ ہم ہر شے، ہرشخص ، ہرادارہ خریدسکتے ہیں اور خریدرہے ہیں۔ جائو عزت ، جہاں سے ملے خرید کر لائو۔‘‘ سہمے ہوئے مصاحب سلطنت سے باہر دنیاکے کونوں کھدروں تک گئے ،ہرامیر ہروزیر ہر معاون خاص عزت خریدنے کے لیے کوچہ کوچہ دروازہ دروازہ آواز لگارہا تھا۔ ایک ہاتھ میں تھیلا اور دوسرے میں جواہرات سے بھرا بقچہ ، ہراقلیم، ہرولایت ہرملک چھان مارا گیا۔ سمندروں کے پار، پہاڑوں سے اس طرف، لیکن عزت کی ایک رمق بھی کہیں سے میسر نہ آئی۔ ناکام ونامراد مصاحبوں نے آکر رپورٹ پیش کی۔ ہرشے خرید لینے والا بادشاہ آخر بے بس ہوگیا اور عزت کے بغیر زندہ رہنے پر مجبور ہوگیا۔ (یہ ایک فرضی کہانی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں )