علامہ محمد اسدؒ پر اس کالم نگار نے 19اکتوبر 2010ء کے ایک روزنامہ میں ’’محمداسد؟ کون محمداسد؟‘‘ کے عنوان سے مضمون سپرد قلم کیا تھا جس کے آخر میں تجویز پیش کی تھی کہ ’’پاکستان کے اس پہلے شہری کو ہم فراموش کرچکے ہیں ۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ لاہور کی کسی شاہراہ اور اسلام آباد کے کسی خیابان کو محمد اسدؒ کے نام کردیا جائے ؟اگر آپ اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں ، تو آج ہی وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم پاکستان کے نام الگ الگ خط میں یہ مطالبہ کریں۔ کیا عجب فوڈ سٹریٹ میں دلچسپی لینے والے حکمران ہمارے قارئین کا یہ مطالبہ مان لیں اگرچہ ان سے چمٹی ہوئی ’’عالم فاضل‘‘ بیوروکریسی ضرور پوچھے گی کہ ’’محمد اسد؟کون محمد اسد؟‘‘ اسی تحریر میں ممتاز محقق جناب اکرام چغتائی کاذکر بھی کیا گیاتھا چغتائی صاحب نے محمداسدؒ پر سالہا سال تحقیق کی ہے۔ انہیں جرمن زبان پر عبور حاصل ہے جو اسد کی مادری زبان تھی۔ اس تحقیق کے عرصہ میں چغتائی صاحب نے آسٹریا اور جرمنی کے کئی سفر کیے۔ 1998ء میں انہیں آسٹریا کے صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازاگیا۔ محمد اسد ؒپر ان کی تصانیف کی تعداد نصف درجن سے زیادہ ہے جن میں اہم ترین پانچ ہیں۔ محمد اسد بندۂ صحرائی (اردو)‘ محمداسد ایک یورپین بدوی (اردو)‘ محمداسد…اسلام کی خدمت میںیورپ کا تحفہ (دوجلدوں میں بزبان انگریزی ) ۔ HOME -COMING OF THE HEARTمحمد اسدؒ کی خودنوشت کا دوسرا حصہ ہے ۔( پہلا حصہ ’’دی روڈ ٹو مکہ‘‘ ہے ) اس دوسرے حصے کو اکرام چغتائی نے مرتب کیا ہے اور اس پر حواشی بھی لکھے ہیں۔ اس کتاب کا آخری حصہ محمد اسدؒ کی وفات کے بعد ان کی بیگم پولا حمیدہ اسد نے تحریر کیا ہے۔ 19اکتوبر 2010ء کے اس مضمون کے بعد محمد اسد ؒکے بارے میں کچھ اوردوستوں کی تحریریں بھی وقتاً فوقتاًشائع ہوئیں۔ اتفاق کہیے یا سوئِ اتفاق کہ اس ضمن میں کچھ ایسی باتیں لکھی جارہی ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ مثلاًکچھ دوست جن میں قابل احترام بزرگ بھی ہیں اور محبت کرنے والے چھوٹے بھائی بھی، محمد اسدؒ کے بارے میں نسبتاً تواتر سے لکھے جارہے ہیں کہ: 1۔ محمد اسدؒ کو پاکستانی شہریت قائداعظمؒ نے دی۔ 2۔ قائداعظمؒ کی ہدایت پر لاہور میں محمد اسدؒ کی سربراہی میں ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن قائم ہوا۔ 3۔قائد اعظمؒ نے اسلامی آئین، طرز تعلیم اور اسلامی اقتصادیات پر حکومتی نمائندے کی حیثیت سے علامہ اسدؒ کو ستمبر 1947ء میں ریڈیو پر تقاریر کرنے کی ہدایت کی۔ 4۔ محمد اسدؒ کے محکمے نے اپنا تمام کام مکمل کرلیا تو وہ یہ سفارشات لے کر وزیراعظم لیاقت علی خان کے پاس گئے ۔ انہوں نے یہ سب کچھ اس وقت کے قادیانی وزیر خارجہ سرظفراللہ کے حوالے کیا جس نے انہیں ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ بدقسمتی سے محمداسدؒ کے بارے میں جودوست یہ باتیں لکھ رہے ہیں وہ کہیں بھی کوئی حوالہ، ثبوت یا شہادت نہیں پیش کررہے۔ محمداسدؒ کی خودنوشت ہردوحصوں میں منظرعام پر آچکی ہے۔ ان کے بارے میں ابوالحسن علی ندویؒ، سید سلیمان ندویؒ، محمداسحاق بھٹی، پروفیسر خورشید احمد، تحسین فراقی اور کئی دیگر مشاہیر کے تحریرکردہ مضامین بھی شائع ہوچکے ہیں۔اس بات کا کوئی ثبوت کہیں بھی نہیں کہ قائداعظمؒ کا محمد اسدؒ سے کوئی رابطہ تھا یا ملاقات ہوئی۔ اگر ایسا ہوتا تو محمد اسدؒ اپنی تحریروں میںکہیں تو اس کاذکر کرتے۔ ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن کیسے قائم ہوا؟ اس کے بارے میں محمد اسدؒ لکھتے ہیں کہ اکتوبر 1947ء کی ایک صبح نواب آف ممدوٹ، وزیراعلیٰ پنجاب نے انہیں اپنے دفتر بلایا۔ ’’جونہی میں ان کے دفتر میں داخل ہوا، ممدوٹ صاحب رسمی تکلفات کی پرواہ کیے بغیر کہنے لگے۔ ’’اسد صاحب میرے خیال میں اب ہمیں نظریاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھانا چاہیے۔ آپ نے ان کے بارے میں تقریراً اور تحریراً بہت کچھ کیا۔ اب آپ کیا تجویز کرتے ہیں ؟ کیا ہمیں قائداعظم سے رجوع کرنا چاہیے؟‘‘کئی روز سے مجھے ایسے سوال کا انتظار تھا چنانچہ میں نے پہلے ہی سے اس کا جواب سوچ رکھا تھا… ’’ابھی مرکزی حکومت نے ان مسائل کا ذکر نہیں کیا۔ اس لیے نواب صاحب !آپ ہی اس ضمن میں پہل کیجیے۔ میری رائے میں آپ ہی کو پنجاب میں ایک ایسا خصوصی ادارہ قائم کرنا چاہیے جوان نظریاتی مسائل کو زیر بحت لاسکے جن کی بنیاد پر پاکستان معرض وجود میں آیا ہے۔ خدانے چاہا تو آئندہ حکومتِ کراچی (مرکزی حکومت) بھی اس اہم فریضے کی جانب متوجہ ہوگی۔ اس وقت وہ اپنی خارجہ پالیسی کو تشکیل دینے میں مصروف ہے۔ ان حالات میں شاید وزیراعظم یا قائداعظمؒ ادھر زیادہ توجہ نہ دے سکیں‘‘۔ نواب صاحب فوری قوت فیصلہ کی صلاحیت کے مالک تھے چنانچہ انہوں نے مجھ سے اتفاق کرتے ہوئے پوچھا: ’’آپ کے اس مجوزہ ادارے کا کیا نام ہونا چاہیے ؟‘‘میں نے جواباً عرض کیا اس کا نام ’’ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن‘‘ مناسب رہے گا۔ ممدوٹ صاحب نے بلاتوقف کہا ’’بالکل درست۔ ایسا ہی ہوگا۔ آپ اس ادارے کے قیام کا منصوبہ اور اس کے اخراجات کا ایک تخمینہ تیار کیجیے۔ آپ کو سرکاری طورپر اس ادارے کا ناظم مقرر کیا جاتا ہے اور آپ کی ماہوار تنخواہ شعبہ اطلاعات کے ناظم جتنی ہوگی۔ مجھے امید ہے آپ اسے قبول کرلیں گے۔‘‘ مجھے امید نہیں تھی کہ اتنی جلدی فیصلہ ہوجائے گا۔ لیکن نواب ممدوٹ کے فیصلوں کا یہی انداز تھا۔‘‘ (محمداسد خودنوشت۔ مرتب اکرام چغتائی۔ مطبوعہ 2009ء ناشر دی ٹروتھ سوسائٹی گلبرگ III لاہور صفحہ 112-111) ریڈیو پر محمد اسدؒ کی تقاریر کا بھی قائداعظمؒ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ان کا سلسلہ بھی وزیراعلیٰ نواب ممدوٹ نے شروع کیا۔ محمد اسدؒ لکھتے ہیں۔ ’’اس پریشان کن صورت حال میں مغربی پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ نواب آف ممدوٹ نے جن کی صاف گوئی کے سبھی معترف تھے مجھے بلایا اور روزافزوں افراتفری کے سدباب کے لیے تعاون کی پیش کش کی؛ چنانچہ ریڈیو سے ہرروز میری تقریر نشر ہونے لگی۔ میری ان تمام ریڈیائی تقاریر کا عنوان تھا ’’تمام مسلمانوں کے لیے دعوت عام‘‘ (محمد اسد۔ خودنوشت۔ حوالہ مذکورہ بالا صفحہ 109)۔ محمد اسدؒ کو پہلا پاکستانی پاسپورٹ لینے کا شرف حاصل ہوا۔ اس کا بھی کوئی تعلق قائداعظم سے نہ تھا۔ خودنوشت کے صفحہ 128اور 129 پر محمد اسد ؒنے اس کی تفصیل لکھی ہے۔ محمد اسدؒ کی تعیناتی وزارت خارجہ میں ہوچکی تھی۔ وزیراعظم لیاقت علی خان نے انہیں مشرقی وسطیٰ کے سرکاری دورے پر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ ابھی پاکستانی پاسپورٹ بننے شروع نہیں ہوئے تھے۔ کبھی کہا جاتا کہ اسد کے پاسپورٹ پر برطانوی شہری لکھاہوگا‘ کبھی کہا جاتا کہ وہ آسٹرین ہیں۔ محمد اسدؒ لکھتے ہیں… ’’میں بے سروپا باتیں سن سن کر تنگ آگیا۔ بالآخر میں نے وزیراعظم کے ذاتی معاون کو فون کیا اور ان سے عرض کیا کہ براہ مہربانی وزیراعظم سے میری فوری ملاقات کرادیجیے‘‘ ۔ کچھ دیر بعد میں لیاقت علی خان کے دفتر پہنچا اور انہیں اپنی مشکل سے مطلع کیا۔ انہوں نے اپنے سیکرٹری کو کہا کہ فوراً پاسپورٹ افسر کو بلائیں۔ جونہی وہ کمرے میں داخل ہوا وزیراعظم نے انہیں جلد پاسپورٹ بنانے کا حکم دیا اور ساتھ ہی کہا کہ اس پر ’’پاکستانی شہری‘‘ کی مہر ثبت کرے۔ اس طرح مجھے پہلا پاسپورٹ حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہوا جس پر ’’پاکستانی شہری‘‘ لکھا گیا تھا‘‘۔ (حوالہ مذکورہ بالا۔ صفحہ 129)۔ جن باتوں کا قائداعظم سے کوئی تعلق نہیں، انہیں ان سے کسی شہادت کے بغیر منسوب کرنا تحقیق ومطالعہ کے منافی ہے۔ ایسا کرنے سے ان کی عظمت میں اضافہ نہیں ہوگا۔ حقیقت کو تبدیل نہ کرنے سے ان کی عظمت میں کمی بھی واقع نہیں ہوگی۔ رہی یہ بات کہ آئین، تعلیم اور اقتصادیات کے متعلق جب محمد اسدؒ کے محکمے نے اپنا کام مکمل کرلیا تو وہ یہ سفارشات لے کر لیاقت علی خان کے پاس گئے‘ انہوں نے یہ سب کچھ اس وقت کے قادیانی وزیر خارجہ ظفراللہ خان کے حوالے کیا جس نے انہیںردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ۔تو اس کی کوئی شہادت کہیں نہیں پائی جاتی۔ ظفراللہ خان کے بارے میں محمداسدؒ لکھتے ہیں: ’’وہ جماعت احمدیہ کا سرگرم رکن تھا تمام مسلمان اس جماعت کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں‘‘۔ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ’’سر محمد ظفراللہ خان غلام احمد قادیانی سے گہری عقیدت رکھتا تھااس لیے وہ تمام عمر انگریزوں سے زیادہ برطانیہ کا خدمت گزار رہا۔‘‘ (خودنوشت صفحہ 121)۔ لیکن اس بات میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ محمد اسدؒ کی سفارشات لیاقت علی خان نے ظفراللہ خان کے حوالے کیں۔ محمد اسدؒ نے ایسی کوئی سفارشات وزیراعظم کو پیش ہی نہیں کی تھیں۔ وہ ابھی ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن میں کام کرہی رہے تھے کہ وزیراعظم نے انہیں جنوری 1948ء میں کراچی بلایا اور وزارت خارجہ کو درپیش چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے وزارت خارجہ میں بھیج دیا۔ اسد کی تیارکردہ جو دستاویزلیاقت علی خان کو پیش ہوئی وہ خارجہ پالیسی کے بارے میں تھی۔ یہ قصہ ہم کسی اگلی نشست میں بیان کریں گے۔