جناب جاوید ہاشمی اسلام آباد کی نشست چھوڑ رہے ہیں اور ملتان کی رکھ رہے ہیں۔ اسلام آباد والی نشست پر دوبارہ الیکشن ہوگا۔ نہیں معلوم یہ فیصلہ تحریک انصاف کا ہے یا جاوید ہاشمی کا اپنا۔ غالب ظن یہ ہے کہ یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے۔ اگر بظاہر یہ فیصلہ ان کی جماعت کا ہے تب بھی اس میں اصل کردار ایک اندازے کے مطابق، ان کے اصرار اور خواہش کا ہوگا۔ اگر یہ مسئلہ کلّی طور پر پارٹی کے سپرد کردیا جاتا تو فیصلہ اس قدر غیردانش مندانہ نہ ہوتا۔ جناب جاوید ہاشمی کی شخصیت کا تجزیہ کیا جائے تو کئی دلچسپ پرتیں کھلتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ تجزیہ سیاسی حوالے سے ہے‘ ورنہ ان کی ذات میں دلچسپی لینے کا کیا جواز بنتا ہے! تقسیم سے پہلے مسلمانوں کے سامنے دو ماڈل تھے۔ ایک علی برادران کا اور دوسرا اقبال اور قائداعظم کا۔ علی برادران کی سیاست جذبات اور ہنگاموں پر قائم تھی۔ اس میں گہرائی اور گیرائی تھی نہ زمانے کے اتار چڑھائو کے سامنے استقامت۔ یہ شعر ان دنوں زبان زدِ خاص و عام تھا: بولیں اماں محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دے دو جبکہ حالت یہ تھی کہ خود ترکی خلافت کی قبا اتار چکا تھا: یعنی من چہ می سرایم و طنبورۂ من چہ می سراید سطحی اور جذباتیت سے بھرپور ہنگامہ خیز زمانوں میں کون پوچھتا کہ خلافت کہاں قائم ہوگی؟ کئی دن رات کمرے میں بند رہ کر، صرف سگریٹ پر گزارہ کرکے، مولانا محمدعلی جوہر نے اپنا شہرۂ آفاق اداریہ CHOICE OF TURKS تحریر کیا۔ اخبار پر مصیبتوں کی بارش برسی، قید و بند کی صعوبتوں سے گزرے۔ یوسف زئی سپوت کیا خوبصورت انگریزی بولتا تھا۔ ایک انگریز نے متاثر ہو کر پوچھا، اتنی شستہ انگریزی کہاں سے سیکھی؟ بولے ایک چھوٹے سے گائوں میں۔ اس نے نام پوچھا تو مسکرا کر جواب دیا‘ آکسفورڈ! انگریزجج نے مقدمے کے دوران بکواس کی اور جوہر کو غنڈہ کہا۔ وہیں ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ ہاں، میں غنڈہ ہوں لیکن اللہ میاں کا غنڈہ ہوں، ملکہ برطانیہ کا غنڈہ نہیں ہوں۔ اس سب کے باوجود وقت نے اس طرزِ سیاست کے حق میں فیصلہ دیا جو اقبال اور قائداعظم نے اپنایا تھا۔ حاشا وکلّا، مقصود‘ علی برادران کی قربانیوں سے صرف نظر کرنا نہیں! ہرگز نہیں! تاریخ نے جو تاج کسی کے سر پر پہنا دیا ہے، اسے اتارنے کا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ نہ ہی محمدعلی جوہر اور اقبال یا محمد علی جوہر اور قائداعظم ایک دوسرے کے مد مقابل تھے۔ بات طرز سیاست کی ہورہی ہے۔ احرار ہی کو دیکھ لیجیے۔ جیلوں میں گئے، ناقابل بیان اذیتیں برداشت کیں لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ آخر کار دامن خالی تھا۔ اس کے مقابلے میں اقبال اور قائداعظم نے سوچ بچار سے کام لیا‘ منصوبہ بندی کی‘ جنگ قانون کے میدان میں لڑی اور جیت لی۔ جاوید ہاشمی کئی بار جیل گئے۔ اگر گستاخی پر محمول نہ کیا جائے تو اس میں جاوید ہاشمی کی افتاد طبع کا دخل زیادہ رہا اور سیاست کی مجبوریوں کا کم! بسا اوقات جو کام زہر سے نکلتا ہے‘ گڑُ سے بھی نکل سکتا ہے! گَھسُن مارنا ہر موقع پر بہادری نہیں کہلاتا۔ پھر یہ بھی ہے کہ قید و بند کی صعوبتوں اور جذباتی سیاست کے ساتھ سنجیدہ پروگرام بھی مطلوب ہوتے ہیں۔ بقول ضمیر جعفری ؎ کچھ ہنر، کچھ سعی و کوشش اے مرے نور نظر! صرف ایک پتلون کس لینے سے کام آتا نہیں سیاستدان لیڈر اس وقت بنتا ہے جب اس کے پاس مستقبل کا کوئی خاکہ بھی ہو۔ ہاشمی صاحب نے ملک کو درپیش مسائل پر کبھی بات نہیں کی۔ معلوم نہیں زرعی اصلاحات کے بارے میں ان کے کیا خیالات ہیں؟ سرداری نظام کو وہ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ تعلیمی میدان میں جو دو رویں متوازی چل رہی ہیں اور ایک دوسرے سے مسلسل دور ہیں‘ ان کے حوالے سے وہ کیا سوچ رکھتے ہیں۔ صرف نوازشریف اور نون لیگ پر تنقید سے سیاسی میدان کب تک سجایا جائے گا۔ آصف زرداری کے مقابلے میں انہیں صدارتی امیدوار نہیں بنایا گیا، اس پر بھی رونا دھونا زیادہ دیر تک کام نہیں آسکتا۔ فراق گورکھپوری نے کہا تھا ؎ جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی پھر وہی مرحلۂ سود و زیاں ہے کہ جو تھا غالباً تحریک انصاف کا کراچی میں جلسہ تھا۔جاوید ہاشمی صاحب کی تقریر کا ساٹھ ستر فیصد حصہ ’’میں باغی ہوں، میں باغی ہوں‘‘ کے نعرے پر مشتمل تھا۔ اس کے مقابلے میں تحریک کے کچھ دیگر ارکان کی تقریروں میں ٹھوس نکات تھے اور حکومت وقت پر منطقی تنقید تھی‘ محض نعرے نہیں تھے! اسلام آباد کی جیتی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست تحریک انصاف اور جاوید ہاشمی دونوں کے لیے ایک بیش بہا اثاثہ تھی! اس نشست کی ایک علامتی اہمیت تھی۔ حریف سیاسی جماعت کے لیے اس نشست سے ہاتھ دھونا ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ ہاشمی اگر سنجیدگی سے گہرائی میں جا کر غورو فکر کرتے تو اس نشست کو ہرگز نہ چھوڑتے۔ یہ جن لوگوں کے ووٹوں سے جیتی گئی تھی ان کی اکثریت پہلی مرتبہ اپنے آئینہ خانوں سے نکلی تھی۔ ضروری نہیں کہ وہ بار بار نکلیں۔ یوں بھی اسلام آباد کی اپنی حرکیات (Dynamics) ہیں۔ یہ ملتان یا فیصل آباد کی طرح نہیں‘ نہ ہی یہاں پشاور یا لاہور کی طرح کوئی پرانا اسلام آباد واقع ہے۔ یہ تو خانہ بدوشوں کا شہر ہے۔ سرکاری ملازموں نے خیمے کاندھوں پر رکھے ہوئے ہیں اور ایف 6سے نکلتے ہیں تو کورنگ ٹائون جا نکلتے ہیں یا پی ڈبلیو ڈی کالونی یا پھر ذرا آگے ڈی ایچ اے میں۔ جن کروڑ پتیوں کے عالی شان سیکٹروں میں اپنے محلات ہیں وہ بھی ووٹ دینے آبائی علاقوں کو نکل جاتے ہیں۔ اسلام آباد کے مڈل کلاس اور اپرکلاس کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے تحریک انصاف کے لیے بے پناہ کام کیا۔ انتھک محنت کی۔ ڈی چوک پر جو دھرنے دیے اور جلوس نکالے، ان کی گونج پورے ملک میں سنائی دی۔ ان کی دلجوئی ضروری تھی۔ یہ نشست چھوڑ کر جاوید ہاشمی تو غلطی کر ہی رہے ہیں‘ تحریک انصاف بھی ایک بڑا خطرہ مول لے رہی ہے۔ ملتان کی نشست کو دوبارہ جیتنا اتنا مشکل نہ ہوتا۔ وہاں جاوید ہاشمی کا اثر کام آتا۔ اسلام آباد میں ان کا کوئی اثر ورسوخ نہیں۔ نہ ہی انہوں نے یہاں انتخابی مہم چلائی۔ یہ تو تحریک کے یا عمران خان کے ووٹ تھے اور یہ ووٹ ہر بار شاید نہ ملیں۔ انتخابی غلغلہ اسلام آباد میں دوبارہ برپا ہوا تو کہیں تحریک انصاف ظفر اقبال کا یہ شعر نہ پڑھتی پھرے ؎ دل نے خود پہلی محبت کو سبوتاژ کیا دوسری کے لیے‘ اور دوسری ہے بھی کہ نہیں؟