وفاق میں مسلم لیگ نون کی حکومت قائم ہوچکی ہے۔ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی خیبرپختونخوا اور سندھ میں برسراقتدار آچکی ہیں۔ بلوچستان میں ڈاکٹر عبدالمالک وزیراعلیٰ تعینات ہوگئے ہیں۔ تاریخ پاکستان کا طالب علم وقت کے اس مقام پر سوچتا ہے کہ کسی مذہبی سیاسی پارٹی کو کہیں بھی اقتدار نہیں ملا۔ ایک صوبے میں جہاں جماعت اسلامی حصہ دار بنی ہے، وہ اعدادوشمار کی مجبوری ہے۔ ایک اور مذہبی سیاسی جماعت مرکز میں کیک کا ٹکڑا حاصل کرنے کی مقدور بھر سعی کررہی ہے ! مجیدامجد نے ’’شب رفتہ‘‘ کے منظوم دیباچے میں ایک بند یوں کہاتھا: ؎ بیس برس کی کاوشِ پیہم سوچتے دن اور جاگتی راتیں ان کا حاصل ایک یہی اظہار کی حسرت! چھیاسٹھ برس سے مذہبی جماعتیں سیاست میں دخیل ہیں اور پوری طرح دخیل ہیں۔ انہیں ہر قبیل کی آزادی میسر ہے اور رہی ہے۔ گزشتہ انتخابات کی بات نہ بھی کی جائے تو حالیہ انتخابات سب کے لیے قابل قبول ٹھہرے ہیں۔ دھاندلی کی شکایات اس پیمانے پر نہیں ہیں کہ الیکشن کے مجموعی نتائج کو چیلنج کرسکیں۔ اکثر نے زبانی بھی اور تقریباً سب نے عملاً نتائج کو تسلیم کرلیا ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ چھیاسٹھ برس کی مسلسل جدوجہد کے بعد بھی کوئی مذہبی جماعت کہیں بھی کسی قسم کی اکثریت نہیں حاصل کرسکی؟ یہ وہ سوال ہے جو سنجیدہ جواب مانگتا ہے۔ ایسا جواب جو نعرے پر مشتمل نہ ہو، جس میں تڑی اور دھمکی نہ ہو‘ جس میں چیخ و پکار بھی نہ ہو‘ واویلا اور گریہ وزاری بھی نہ ہو! ابوالحسن علی ندوی کے پائے کے علمائے کرام نے جب سید ابوالاعلیٰ مودودی کی اسلام کی سیاسی تعبیر کی مخالفت کی تھی تو وہ بلاسبب نہ تھی اور دلائل کے بغیر نہ تھی۔ پاکستان عالم اسلام کے ان دویاتین ملکوں میں سے ہے جہاں مذہبی جماعتوں نے بھرپور اور مسلسل سیاست کی ہے۔ لیکن صورت حال اس وقت نہ صرف دلچسپ بلکہ مضحکہ خیز لگتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس وقت پاکستان برہنہ جنسی مناظر (پورنو گرافی) دیکھنے والے ملکوں میں سرفہرست ہے۔ ایک اور زاویے سے جائزہ لیجیے۔ عالم اسلام کا کون سا ملک ہے جہاں پاکستان سے زیادہ جھوٹ بولا جاتا ہے اور پاکستان سے زیادہ وعدہ خلافی کا ارتکاب کیا جاتا ہے ؟ شاید کوئی بھی نہیں! پاکستان ایسا ملک ہے جہاں ایک انتہائی قلیل تعداد کو چھوڑ کر ہر شخص صبح سے شام تک مسلسل جھوٹ بولتا ہے۔ بڑے معاملات میں بھی اور چھوٹے معاملات میں بھی۔ اولاد ماں باپ کے ساتھ، ماں باپ اولاد کے ساتھ، بیوی میاں کے ساتھ، میاں بیوی کے ساتھ۔ ملازم ماتحت کے ساتھ، ماتحت افسر کے ساتھ۔ وکالت، سیاست اور تجارت… یہ تین شعبے ایسے ہیں جو کلی طورپر دروغ گوئی کی بنیاد پر چل رہے ہیں۔ تجارت پر ان حضرات کا غلبہ ہے جو لباس اور شکل سے متشرع ہیں۔ مذہبی اور تبلیغی جماعتوں میں سرگرم کار ہیں۔ حج اور عمرے ادا کرتے ہیں۔ خیرات اور صدقہ دیتے ہیں لیکن عبرت ناک حقیقت یہ ہے کہ وہ سارے کام جو شریعت میں حرام ہیں، تجارت کے شعبے میں ہورہے ہیں۔ ناجائز نفع خوری، بیچتے وقت شے کا نقص نہ بتانا، ٹیکس چوری، ادویات، غذائی اجناس یہاں تک کہ معصوم بچوں کے دودھ تک میں ملاوٹ، تجاوزات اور تجاوزات کی آمدنی۔ یہ سب اس شعبے میں رات دن ہورہا ہے ! اور غالباً عالم اسلام میں اس وسیع وعریض پیمانے پر اور کہیں بھی نہیں ہورہا! یہی صورت حال وعدہ خلافی کی ہے ۔ اگر یہ کالم نگار بھول نہیں رہا تو غالباً کرسٹینا لیمب نے اپنی کتاب’’ ویٹنگ فاراللہ ‘‘ میں پاکستان کی تعریف (DEFINITION)کرتے وقت دوخصوصیات میں سے ایک یہ بتائی ہے کہ وقت (APPOINTMENT) طے کرکے اسے ایفا بالکل نہیں کیا جاتا! یہ اسی ملک کے باشندوں کا احوال ہے جواپنے وطن کو اسلام کا قلعہ کہتے ہیں۔ جوپوری دنیا کو اسلام کے زیرنگیں لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جو ہروقت دوسرے ملکوں کی عموماً اور غیرمسلموں کی خصوصاً تحقیر کرتے ہیں۔ جو رسول اکرم ؐ کی عزت پر کٹ مرنے کے لیے ہروقت تیار ہیں لیکن رسولؐ کے طرز عمل کو اختیار کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔ ایک شخص یہ کہہ کر گیا کہ آپ یہیں میرا انتظار کیجیے، میں ابھی آتا ہوں۔ وہ بھول گیا اور آپؐ تین دن اس کا انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ اسے یاد آگیا اور وہ پلٹ کر آیا۔ مذہبی جماعتوں کے ہاتھ اقتدار تو نہیں آیا، اوامرونواہی کا کام بھی گیا۔ مسلمانوں کو رذائلِ اخلاق سے بچانے کا فرض انہوں نے ادا کرنا تھا۔ اگر کرتیں تو آج جھوٹ، وعدہ خلافی، رشوت، غیبت اور اسراف جیسے رذائل عروج پر نہ ہوتے۔ ہمارے منتخب نمائندے سچائی اور ایفائے عہد کا نمونہ ہوتے۔ لیکن جوان کی اصلاح پر مامور تھے، وہ ان کے شانہ بشانہ اقتدار کی جدوجہد میں شامل ہوگئے۔ آج چھیاسٹھ برس کی طویل سعی وکاوش کے بعد مذہبی سیاسی جماعتیں کف افسوس مل کر زبان حال سے کہتی پھرتی ہیں: ؎ دامن خالی‘ ہاتھ بھی خالی‘ دستِ طلب میں گردِ طلب عمرگریزاں! عمرگریزاں! مجھ سے لپٹ اور مجھ پر رو مذہبی گروہوں کے، جو سیاست میں کارفرما رہے، ہمارے سامنے عمومی طورپر تین ماڈل ہیں۔ ایک جمعیت علمائے اسلام کا ہے۔ یہ جماعت آغاز میں ، جب مولانا شبیر احمد عثمانی اور ان کے ہم عصروں کی تحویل میں تھی، محض اس حدتک دخیل سیاست تھی کہ پہلے مطالبۂِ پاکستان اور بعد میں اسلامی نظام کے لیے آواز بلند کررہی تھی اور قائداعظم کی حامی تھی۔ اب یہ جماعت کئی عشروں سے اقتدار کی جدوجہد کررہی ہے اور جزوی طورپر ایک یا دوصوبوں میں حکومت کا حصہ رہی بھی ہے لیکن آزادانہ حیثیت سے کبھی بھی حکومت نہیں بناسکی! دوسری طرف اس کی شہرت مثالی نہیں رہی ! اس کے سربراہ جوڑ توڑ اور بھائو تائو کے لیے ضرب المثل ہیں۔ ان کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ ہرحال میں اقتدار اور مراعات کے طالب ہیں اور اس نصب العین کے لیے ہر حدعبور کرسکتے ہیں۔ حالیہ انتخابات کے بعد ٹیلی ویژن پر ان کے متعلق یہاں تک کہا گیا کہ جہاں وہ ہوں، وہاں سازش ضرور ہوگی! ایک مذہبی جماعت کے لیے یہ صورت حال ہرگز قابل رشک نہیں ! دوسرا ماڈل جماعت اسلامی کا ہے۔ 1941ء میں معرض وجود میں آنے والی یہ جماعت بہتر برسوں کی مسلسل سیاسی جدوجہد کے باوجود اقتدار سے بدستور کوسوں دور ہے۔ اس کی ذیلی تنظیم جو سیاست کو تعلیمی اداروں میں داخل کرنے والی اولین تنظیم ہے، مثبت شہرت نہیں رکھتی۔ پنجاب کی قدیم ترین یونیورسٹی اس کی سیاست کا بری طرح شکار ہوکر تعلیمی معیار کے لحاظ سے کہیں کی بھی نہیں رہی ۔ خوف کے مارے ہوئے اساتذہ اپنی اپنی روداد بیان کریں تو ایک عبرت ناک تصویر سامنے آئے گی۔ شرعی اور اخلاقی ’’بلندی‘‘ کا اندازہ ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ طلبہ کے ہوسٹلوں میں قانونی طورپر طالب علم کے والد کو قیام کرنے کی اجازت حاصل رہی ہے۔ ایک استاد نے جو ہوسٹل کا انچارج تھا، ایک طالب علم سے نوجوان مہمان کے بارے میں استفسار کیا تو طالب علم نے کسی جھجک اور تامل کے بغیر جواب دیا کہ یہ میرے والد ہیں ! ع قیاس کن زگلستانِ من بہارِ مرا تیسرا ماڈل افغانستان میں طالبان کی حکومت کا ہے ۔ یہ ایک طویل موضوع ہے جس کا متحمل ایک کالم نہیں ہوسکتا لیکن خود طالبان کے حامی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ایک مثالی عہد نہیں تھا! کیا سیاست میں سرگرم مذہبی جماعتیں، جذباتیت سے ہٹ کر، صورت حال پر نظرثانی کریں گی ؟ یا عام سیاسی جماعتوں سے اقتدار کے لیے بھائوتائو کرنے کی پالیسی جاری رکھیں گی؟ اس سوال کا جواب جتنا سہل ہے اتنا ہی مشکل بھی ہے۔