سیاست اور مذہب کے باہمی تعلقات

گزشتہ ہفتے، انتخابات میں مذہبی سیاسی جماعتوں کی ناکامی کے حوالے سے جو تحریر شائع ہوئی تھی، اس کے ردعمل میں بہت سے قارئین نے رابطہ کیا ہے۔ نہ جانے یہ بات قابلِ اطمینان ہے یا باعث تشویش کہ اکثر سوالات اور اعتراضات جماعت اسلامی سے متعلق ہیں۔ ایک سوال جو بہت سے حضرات نے اٹھایا ہے کہ اگر جماعت اسلامی کی ہم خیال جماعتیں ترکی اور مصر میں انتخابات جیت سکتی ہیں تو پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ ترکی اور مصر کی برسراقتدار اسلامی جماعتوں کے بارے میں ہم میں سے اکثر کی معلومات سطحی ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس ضمن میں وہاں نظر آنے والی اور زیرزمین رویں کیسی ہیں اور ان کا رُخ کس طرف ہے؟ جس قدر علم جماعت اسلامی کی بہترّ سالہ تاریخ کے بارے میں ہمارے پاس موجود ہے‘ ترکی اور مصر کی سیاسی جماعتوں اور مذہبی پریشر گروپوں کے متعلق اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں۔ عدلیہ کے حوالے سے مصریوں میں کچھ روز پہلے صدر مرسی کے خلاف ہنگامہ آرائی ہوئی تھی۔ نہ جانے اس کی صحیح نوعیت کیا تھی؟ آج کل ترکی میں وزیراعظم کے خلاف جلسے ہورہے ہیں۔ جلوس نکالے جارہے ہیں اور دھرنے دئیے جارہے ہیں۔ کچھ مغربی صحافیوں کے رائے میں اس کا سبب یہ ہے کہ وزیراعظم استنبول کے میئر سے لے کر ملک کے وزیر خارجہ تک‘ ہر ایک کے کام میں بے تحاشا دخل اندازی کررہے ہیں اور عوام اس ون مین رول سے عاجز آچکے ہیں لیکن اس رائے کی ثقاہت واضح نہیں! ان ہنگاموں کو ’’عرب بہار‘‘ سے تشبیہ دینا بھی قبل از وقت ہے۔ اس موضوع کا حق وہی شخص ادا کرسکتا ہے جس کی معلومات ترکی، مصر اور پاکستان کی اسلامی جماعتوں کے بارے میں یکساں ہوں۔ اس کے باوجود بنیادی حقائق اس قبیل کے موازنے کو کبھی بھی منطقی قرار نہیں دیں گے۔ ترکی اور مصر لسانی طور پر اکائیاں ہیں۔ ترکی کے عوام کی ایک ہی مشترکہ زبان ہے۔ یہی حال مصر کا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کئی زبانوں کا ملک ہے۔ نسلی لحاظ سے بھی یہاں مختلف گروہوں کے درمیان مناسبت مفقود ہے۔ فرقہ وارانہ اختلافات بھی پاکستان میں، ان دونوں ملکوں کی نسبت زیادہ ہیں اور ہنگامہ خیز ہیں۔ سنا ہے کہ مصر میں اخوان المسلمین نے ایسے بہت سے اقتصادی منصوبے آغاز کیے جن میں عوام کی شراکت تھی۔ ان میں سے اکثر منصوبے کامیابی سے ہم کنار ہوئے۔ پاکستان کی جماعت اسلامی نے ایسا کوئی کام نہیں کیا۔ اگرچہ صدقہ خیرات کرنے والی تنظیمیں ضرور مصروف کار ہیں جنہیں عوامی خدمت کا نام دیا جاتا رہا لیکن اہمیت مچھلی دینے سے زیادہ مچھلی پکڑنے کا ہنر سکھانے کی ہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ میاں طفیل محمد اور ضیاء الحق کے زمانے میں جماعت اسلامی کو جو منفی اور متنازع ’’کامیابیاں‘‘ حاصل ہوئیں، کیا ترکی اور مصر کی جماعتوں کو بھی ایسے حادثے پیش آئے؟ میاں طفیل محمد مرحوم کی قیادت کا زمانہ یاد کرکے وہ بات ذہن میں آجاتی ہے جو ایک اور مذہبی، غیر سیاسی، جماعت کے متعلقین کے بارے میں اسی جماعت کے ایک بزرگ نے کہی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے عقل کے بجائے اخلاص دیا ہے! ضیاء الحق کے طویل دور آمریت میں جماعت اسلامی کی شہرت بی ٹیم کی رہی۔ ایک اور واضح فرق یہ ہے کہ پاکستان کی جماعت اسلامی عوام کے مسائل سے ہمیشہ بے نیاز رہی۔ اندرون ملک اس کی دلچسپیاں نہ ہونے کے برابر رہی ہیں۔ سوویت یونین کی افغانستان آمد کے بعد جو متنازع جہاد شروع ہوا، جماعت اسلامی کی ساری دلچسپیاں اور سرگرمیاں اس تک محدود ہو کر رہ گئیں۔ ہم مانیں یا نہ مانیں، لیکن پوری دنیا اس جہاد کو ’’سی آئی اے کا شروع کردہ جہاد‘‘ کہتی ہے۔ قاضی حسین احمد مرحوم اکثر و بیشتر قومی سطح کے اخبارات میں مضامین لکھتے رہے ہیں۔ ان کی کوئی ایک تحریر بھی ایسی نہیں جس میں ملک کو درپیش مسائل کا ذکر ہو۔ ان کا پسندیدہ موضوع افغان جہاد‘ مجاہدین کی خفیہ آمد اور قیام اور ان سے ان کے خصوصی روابط تھا۔ یا وہ عالم اسلام کے دیگر رہنمائوں سے اپنی ملاقاتوں اور تعلقات کا ذکر شوق سے کیا کرتے تھے۔ سید منور حسن کی شہرت نظم و ضبط اور مالی معاملات میں احتیاط کے حوالے سے اپنے پیشروئوں کی نسبت بہت بہتر ہے لیکن ملک کے اندرونی مسائل سے ان کی بے نیازی ویسی ہی ہے۔ وہ یہ واضح نہیں کرتے کہ ’’گو امریکہ گو‘‘ تحریک کی کامیابی کے بعد کیا ہوگا؟ ترکی اور مصر میں اسلامی جماعتوں کی کامیابی کا ایک سبب یقیناً یہ ہے کہ ان جماعتوں نے عوام کو درپیش معاشی اور معاشرتی مسائل کا ٹھوس حل پیش کیا ہوگا اور اس میدان میں مسلسل انتھک کام کیا ہوگا۔ فرد کی اصلاح کا جو پوٹینشل جماعت اسلامی میں تھا وہ کسی بھی دوسری مذہبی جماعت سے زیادہ تھا۔ بالخصوص ان جماعتوں کی نسبت جو ایک طویل عرصہ سے گلی گلی‘ کوچہ کوچہ اور قریہ قریہ پھر رہی ہیں اور قرآن اور قرآنی تعلیمات سے دور کا واسطہ بھی نہیں رکھتیں، جماعت اسلامی نے اپنا تعلق قرآن سے مضبوطی کا رکھا۔ اس کے تربیتی پروگراموں میں قرآنی تعلیمات باقاعدگی سے دی جاتی ہیں۔ اگر یہ جماعت سیاست سے کنارہ کش رہتی اور فرد کی اصلاح کو اپنا نصب العین بناتی تو حالات مختلف ہوسکتے تھے لیکن یہ بہر طور ایک رائے ہے اور اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ پاکستانی پیش منظر پر مذہبی اختلافات اور فرقہ واریت کی جو خوفناک گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں اس کے پیش نظر مذہبی جماعتیں سیاست سے نکل کر جس قدر جلد معاشرتی اصلاح کا راستہ اپنالیں، اتنا ہی بہتر ہے۔ ہماری عافیت اس میں ہے کہ سیاسی جماعتیں مذہبی، فرقہ وارانہ، لسانی اور نسلی حوالوں سے ہمہ گیر ہوں اور سب کو اپنے دامن میں لے سکتی ہوں۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ اور تحریک انصاف ایسی ہی جماعتیں ہیں۔ جماعت اسلامی بہر طور ایک ایسی مذہبی جماعت ہے جس میں شیعہ اور بریلوی نہیں پائے جاتے۔ جماعت اپنے آپ کو جو کچھ بھی کہے اس کے ارکان اور متعلقین کی تقریباً تمام تعداد دیوبندی اور اہل حدیث عقائد کی پیروکار ہے۔ پاکستان میں کسی ایسی مذہبی جماعت کا وجود میں آنا ناممکن ہے جو ہر عقیدے سے ہم آغوش ہوسکے۔ پاکستان مصر ہے نہ ترکی! پاکستان پاکستان ہے۔ اس کے اپنے مسائل ہیں اور اپنی حساسیت ہے! یوں بھی مصر اور ترکی میں برسراقتدار اسلامی جماعتوں کی کامیابی یا ناکامی کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ ایران میں بھی اہل مذہب کے اقتدار نے ابھی تک اُسے بین الاقوامی تنہائی ہی عطا کی ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں