’’موسم خوشگوار ہے‘‘ ایک دوست نے دوسرے سے کہا ’’کیوں نہ جنوب کے ان ٹیلوں کی سیر کریں جہاں ہم سردیوں میں شکار کھیلنے جاتے ہیں۔‘‘دوسرے دوست نے اتفاق کیا اور وہ چل پڑے۔ یہ ایک سہ پہر تھی۔ معتدل اور گوارا۔ گرمی زیادہ تھی نہ کم۔ ہوا چل رہی تھی۔ کھیتوں میں کام کرنے والے سستانے اور ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد دوبارہ مصروف کار تھے۔ ڈھور ڈنگر چر رہے تھے۔ گھنٹیوں کی آواز ٹھہری ہوئی فضا میں ارتعاش پیدا کرتی اور پھر خاموش واپس آجاتی۔ دونوں دوست چلتے جارہے تھے۔ کبھی ان میں سے ایک کسی گیت کی لَے چھیڑتا اور ذرا دیر بعد دوسرا اس کا ساتھ دینے لگتا۔ وہ جھیل نما بڑے تالاب کے شمال سے گزرے، سیاہ چٹانوں سے ہوتے ہوئے پہاڑی نالے کے ساتھ ساتھ چلتے گئے۔ موسم کی دلکشی ان پر مستی کی تہہ بچھا رہی تھی۔ وہ باتیں کررہے تھے۔ بچپن کی، لڑکپن کی، میلوں ٹھیلوں کی، مویشیوں، گھوڑوں اور شکاری کتوں کی، باز سے کھیلے جانے والے خرگوش کے شکار کی۔ اس سرخ گھوڑی کی جس کے ہر بچے کے ماتھے پر سفید ستارہ نما نشان ہوتا تھا۔ اس قوی ہیکل خودسر بیل کی جو کئی متکبروں کو سینگوں پر رکھ کر ہوا میں اچھال چکا تھا، بیج کی کوالٹی اور کھاد کی قیمتوں کی، چھپے ہوئے اور ظاہر ہوچکے معاشقوں کی، یہاں تک کہ وہ ان ٹیلوں تک پہنچ گئے جو سرخ مٹی کے تھے، دور تک پھیلے ہوئے تھے اور جن کے درمیان وسیع میدان تھا۔ ہوا تیز ہوچکی تھی۔ چھدرے چھدرے بادل کالی گھٹا میں تبدیل ہوچکے تھے۔ آنے والی بارش کی خوشبو فضا میں پھیلتی جارہی تھی۔ ایک دوست آگے آگے جارہا تھا۔ پگڈنڈی نما راستہ اتنا چوڑا نہیں تھا کہ دونوں ساتھ ساتھ چل سکتے۔ ’’تمہیں معلوم ہے میں تمہیں یہاں کیوں لایا ہوں؟‘‘پیچھے آنے والے دوست نے دفعتاً بلند آواز سے پوچھا، لہجے میں ایک سرد تبدیلی تھی جس نے آگے جانے والے شخص کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ چونکا اور اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا پیچھے آنے والے دوست کے ہاتھ میں ریوالور تھا۔’’میں آج تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ اس نے فیصلہ کن لہجے میں بتایا۔ کوئی پرانی دشمنی تھی۔ رشتوں سے پھوٹتی ہوئی، یا سالہا سال پہلے کا کوئی جھگڑا تھا یا کبھی کوئی مقدمہ بازی ہوئی تھی، جو کچھ بھی تھا، پیچھے آنے والے نے بغض دل میں رکھا ہوا تھا اور موقع کی تلاش میں تھا اور آج موقع مل گیا تھا۔ آگے چلنے والا نہتا تھا۔ سیر کے لیے گائوں سے باہر آتے وقت اس نے مسلح ہونا ضروری نہیں سمجھا تھا اور وہ جس کے پاس ریوالور تھا اپنا حساب چکانے تیار ہو کر آیا تھا۔ بوندیں پڑنا شروع ہوگئی تھیں۔ نہتے نے وضاحتیں پیش کیں، قسمیں کھائیں، قول دیے، اپنی بے گناہی واضح کی لیکن خون سر پر چڑھا تھا۔ معافی کا کوئی سوال نہیں تھا۔ بھاگنا بے سود تھا۔ اس سے بہتر تھا کہ منت زاری کی جائے جو نہتے شخص نے بہت کی۔ مسلح دوست نے آخری وارننگ دی کہ گولی چلانے لگا ہوں۔ بارش اب تیز ہوچکی تھی۔ قتل ہونے والے نے آسمان کی طرف دیکھا۔ ہر طرف کالے بادل تھے۔ پھر زمین کی طرف نگاہ کی۔ میدان میں پانی جمع ہوچکا تھا۔ہر بوند جو پڑتی، ایک بلبلا بناتی۔ بلبلا کچھ دور تک پانی میں تیرتا، پھر ٹوٹ جاتا اور دائروں میں بدل جاتا۔ بے کسی، بے کسی اور ناامیدی کی انتہا تھی۔ نہتے نے آخری حربہ آزمایا۔ اس نے کہا ، دیکھو یہ بلبلے جو بارش کی بوندیں بنا رہی ہیں۔ یہ تمہیں پکڑوا دیں گے۔ مسلح شخص نے طنز سے کہا ’’بلبلے! یہ کیسے پکڑوائیں گے؟‘‘ اس کے ساتھ ہی اس نے فائر کیا۔ ویرانے کے سناٹے میں ارتعاش پیدا ہوا، پھر آواز مرگئی، نشانہ بننے والا گرا، اس کا ایک ہاتھ دل پر تھا پھر اس کی جاں، جسم سے جدا ہوگئی۔ قاتل نے لاش کسی کھڈ میں ڈالی۔ پکا انتظام کیا اور واپس آگیا۔ تفصیل غیرضروری ہے۔ چند دن ڈھنڈیا پڑی، پولیس آگے پیچھے بھاگی، کچھ نہ ہوا، معاملہ ختم ہوگیا۔ سال گزرتے گئے، گزر گزر کر عشروں کی صورت اختیار کرتے گئے۔ قاتل ادھیڑ عمر کو پہنچ گیا۔ ویسا ہی موسم تھا۔ اس دن گھٹائیں امڈ امڈ کر آرہی تھیں۔ ہوائیں تیز چل رہی تھی۔ بجلی چمکتی تھی اور جھٹپٹے میں حویلی کے دیوار و در روشن ہوتے تھے۔ بادل گرجتا تھا یوں جیسے مقتولوں پر بین کررہا ہو۔ وہ کمرے میں چارپائی پر نیم دراز ہو کر لیٹا تھا اور صحن پر نظریں جمائے تھا۔ بوندیں گرتیں تو بلبلے بنتے۔ ہر بلبلہ تیرتا، پھر ٹوٹ کر دائروں میں بٹ جاتا۔ اسے کئی سال پرانی بارش یاد آئی۔ مرتے وقت اس نے کہا تھا یہ بلبلے تمہیں پکڑوا دیں گے! لیکن نہ پکڑوا سکے۔ اس کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے فاتحانہ مسکراہٹ آئی اور پھر غائب ہوگئی۔ لیکن یہ وہ لمحہ تھا جب اسی کمرے میں بیٹھی ہوئی اس کی بیوی کی نظر اس پر تھی۔ اسے عجیب سا لگا، اس کا میاں ٹکٹکی باندھے صحن کو دیکھ رہا ہے اور ایک لمحے کے لیے بہت ہی عجیب، بہت ہی پراسرار اندازمیں مسکرایا۔ یہ مسکراہٹ عام مسکراہٹ ہرگز نہیں تھی۔ وہ پیچھے پڑ گئی۔ ہر بیوی کی طرح جو میاں کے ہر راز میں شریک رہنا چاہتی ہے اور جسے میاں کی ہر مسکراہٹ میں کوئی اور عورت دکھائی دیتی ہے۔ میاں نے بہانے بنائے لیکن چل نہ سکے۔ عورت کا عزم چٹانوں کو پانی کر دیتا ہے۔ وہ مصر رہی۔ زچ ہو کر ایک دن میاں نے راز کی بات بتا ہی دی۔ عورت پر سنتے ہی سکتہ طاری ہوگیا۔ خاوند نے وارننگ دی کہ اب یہ بات اگر تم نے کسی کو بتا دی تو اچھا نہیں ہوگا لیکن عورت اتنی بڑی بات اپنے اندر رکھتی تو کیسے رکھتی۔ وہ تو پھٹنا چاہتی تھی۔ رات کو اسے نیند نہ آتی اور دن کو وہ کھوئی کھوئی سی رہتی آخر کار اس نے نجات اس میں سمجھی کہ عزیز ترین سہیلی کو بتا دے۔ اس سے قسم لی کہ وہ کسی کو نہیں بتائے گی۔ اس نے کسی اور سے قسم لی اور یوں کئی سہیلیوں نے قسمیں کھائیں۔ بات کھل گئی۔ گائوں میں سو سجن اور سو ہی دشمن ہوتے ہیں۔ مقدمہ چلا اور پھانسی ہوئی۔ ہم بلبلوں کو بھول جاتے ہیں۔ بلبلے صرف پکڑواتے نہیں، پھانسی تک لے کر جاتے ہیں۔ وہ جاگیردار نوجوان جس نے نہتے شاہ زیب کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ دو دن پہلے ٹیلیویژن سکرینوں پر سزائے موت سننے کے بعد اٹکھیلیاں کررہا تھا، ہنس رہا تھا اور انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنا رہا تھا۔ یہ جاگیردارانہ مائنڈ سیٹ تھا جو اس سے یہ سب کچھ کرا رہا تھا۔ اس ملک میں قانون ہمیشہ سے فیوڈلزم کا دربان‘ بیوروکریسی غلام اور حکمران محتاج رہے ہیں۔ نہیں معلوم موت کی سزا پر عملدرآمد ہوگا یا نہیں لیکن اگر عملدرآمد نہ بھی ہوا تو چند دن کی بات ہے۔ بلبلے کسی کو نہیں چھوڑتے۔