اس کے چار بیٹے تھے۔ اس کے پاس ایک ہزار روپے کی رقم تھی۔ اس نے چاروں بیٹوں کو بلایا۔ ایک کو پانچ سو روپے دیے۔ باقی تین بیٹے تھے اور کل رقم پانچ سو روپے باقی بچی تھی۔ وہ انصاف کرنا چاہتا تھا۔ اس نے تینوں بیٹوں کو بلایا اور انہیں عدل وانصاف اور مساوات کے موضوع پر ایک خوبصورت مدلل لیکچر دیا۔ اس نے انہیں سمجھایا کہ تم آپس میں پانچ سو روپے اس طرح تقسیم کرو کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپس میں پانچ سو روپے کی رقم برابر برابر بانٹ لو۔ دوبھائی والد کے جذبۂ انصاف سے بہت متاثر ہوئے۔ تیسرے بھائی نے ادب کے ساتھ کہا، ابا جی ! انصاف کا گلا تو آپ نے خود گھونٹ دیا ہے۔ ہم تینوں بھائیوں کو آپ نے یہ جو پانچ سو روپے کی رقم عنایت کی ہے، اس سے قیامت تک انصاف نہیں ہوسکتا۔ اگر بڑے سے بڑا منصف بھی آجائے تو یہ ظلم ظلم ہی رہے گا۔ اس لیے کہ ایک کو آپ نے پانچ سو روپے دے کر الگ کردیا ہے اور ہم تینوں کو پانچ سو روپے دیے ہیں۔ ہم جس طرح بھی بانٹیں، یہ رقم پانچ سو ہی رہے گی۔ اگر آپ انصاف کرنا چاہتے ہیں تو چاروں بھائیوں میں ایک ہزار روپے کی رقم برابر تقسیم کیجیے۔ یہ ایک سادہ کھردری مثال ہے اس ناانصافی کی جو اس ملک میں رائج ہے اور جب تک پانچ سو روپے لینے والے بھائی کو ہاتھ نہیں لگایا جائے گا، کوئی بجٹ کوئی حکومت، کوئی سیاسی جماعت اس ملک کو غربت کی دلدل سے نہیں نکال سکتی۔ اس ملک کے وسائل کی کثیر مقدار پرایک اقلیت کا قبضہ ہے۔ زرعی زمین ہے یا شہری جائیداد، کارخانے ہیں یا باغات، رہائشی مکانات ہیں یا گاڑیاں، ہوائی سفر ہے یا بجلی پانی گیس کی سہولیات ، تعلیم ہے یا صحت۔ ہرشعبے کے ساٹھ ستر فیصد حصے پر ایک حقیر اقلیت کا قبضہ ہے اور کروڑوں کی آبادی پچیس تیس فی صد وسائل پر گزارا کررہی ہے۔ ہربجٹ وسائل کے اس پچیس تیس فیصد حصے کو ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر کرتا ہے۔ بات وہیں کی وہیں رہتی ہے۔ ان چند لاکھ افراد کا اس ملک کی دولت کے کثیر حصے پر قبضہ ہے۔ کوئی بجٹ ان پر ٹیکس نہیں لگاتا۔ کوئی حکومت ان سے حساب کتاب نہیں کرتی۔ کوئی سیاسی جماعت انہیں ہاتھ نہیں ڈالتی۔ پھر ستم بالائے ستم یہ کہ ان قومی مجرموں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کرنے کے بجائے انہیں وزارتیں، ممبریاں اور سفارتیں دی جاتی ہیں۔ اس سے زیادہ شرم ناک بات کیا ہوگی کہ برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان نے برملا کہا ہے کہ پاکستانی حکمران اور امراء خود ٹیکس نہیں دیتے لیکن برطانوی عوام کے ٹیکسوں سے انہیں امداد بہم پہنچائی جاتی ہے۔ زرعی آمدنی ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔ مسلم لیگ آج تک قوم کو نہیں بتا سکی کہ 1951ء میں جب بھارت نے زرعی اصلاحات نافذ کیں تو مسلم لیگ نے یہ قدم کیوں نہیں اٹھایا۔ تو پھر کیا یہ سچ ہے کہ سندھ اور پنجاب کے جاگیرداروں نے تقسیم سے پہلے، کانگریس سے کہا تھا کہ تم ہماری جاگیروں اور زمینداریوں کو باقی رکھنے کی گارنٹی دو تو ہم تمہاراساتھ دینے کو تیار ہیں۔ کانگریس نے انکار کیا تو وہ مسلم لیگ کے پاس آئے اور مسلم لیگ نے یہ گارنٹی دے دی۔ اگر کسی دستاویز میں یہ بات درج نہیں تو واقعاتی ثبوت تو شہادت دے ہی رہے ہیں کہ ہاں ! ایسا ہوا ہوگا! اور یہ تاریخی لطیفہ تو ہم سب کو معلوم ہے کہ زرعی اصلاحات کی مخالفت میں جاگیرداروں نے ’’انجمن تحفظ حقوق زمینداراں تحت الشریعہ ‘‘ یا اس سے ملتے جلتے کسی نام سے ایک جماعت بنائی تھی اور نواب نصراللہ خان اس کی قیادت فرمارہے تھے۔ بنیادی اصول...... جسے کوئی بجٹ اپنانے کے لیے تیار نہیں۔ اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام میں یہ اساسی فرق ہے کہ اسلام دولت مندوں کو کھلی چھٹی نہیں دیتا کہ وہ معاشرے پر اپنی دولت سے منفی اثرات ڈالیں۔ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام میں فرد کو مکمل آزادی ہے کہ وہ اپنی دولت سے جو چاہے کرتا پھرے۔ خلافت راشدہ میں اس پابندی کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ کوفہ کا شہر نیا نیا آباد ہوا تو مکان نرسل اور درختوں کی شاخوں سے بنائے جاتے تھے ۔ انہیں آگ لگ جاتی تھی۔ حضرت عمر فاروق اعظم ؓ سے پختہ مکان بنانے کی اجازت طلب کی گئی۔ آپ نے اجازت دی لیکن ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا کہ کوئی ایک شخص تین مکانوں سے زیادہ تعمیر نہ کرے۔ جس معاشرے میں خلیفہ سے ایک بڑھیا اٹھ کرسوال کرسکتی تھی کہ تمہاری قمیض کا کپڑا کہاں سے آیا ہے، اُس معاشرے میں مکانوں کی تعداد پر پابندی اگر غلط ہوتی تو کیا طوفان نہ کھڑا ہوجاتا ؟ لیکن کسی نے اس پابندی پر اعتراض نہ کیا۔ اسے اسلامی فقہ میں قانون حجر کہتے ہیں۔ حجر کے لغوی معنی روکنے کے ہیں۔ اصطلاح میں قانونی حجر کا مطلب یہ ہے کہ اگر دولت منداپنے مال کو اس طرح خرچ کررہا ہے کہ معاشرے میں خرابی پیدا ہورہی ہے اور اس خرابی میں حسد اور اضطراب بھی شامل ہے تو ریاست کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ مالک پر پابندی عائد کردے۔ مدینہ کے ایک بزنس مین نے گھوڑے بڑی تعداد میں رکھنے شروع کردیئے۔ حضرت عمرؓ نے اسے منع کیا۔ اس کے احباب نے خلیفہ سے اس معاملے پر مذاکرات کیے۔ آپ نے اجازت دی لیکن اس شرط پر کہ وہ اپنے گھوڑوں کا چارہ مدینہ کے بازار سے نہ خریدے چنانچہ اس نے باہر سے چارہ منگوانے کا بندوبست کیا۔ دولت مند طبقہ معاشرے میں مہنگائی، اشیا کی قلت اور نفسیاتی بے چینی کس طرح پھیلاتا ہے اس کی تشریح شاہ ولی اللہ حجتہ اللہ البالغہ میں کرتے ہیں : ’’جب شہر کے امرا رقص وسرود، عورتوں کے بنائو سنگھار، اونچی عمارتوں کپڑوں اور جواہرات میں عجیب وغریب صنعتیں نکالنے میں دولت صرف کریں گے تو شہر کی دیگر ضروریات پورا کرنے میں کمی واقع ہوجائے گی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جو لوگ ضروری پیشوں سے وابستہ ہیں مثلاً کاشت کار، تاجر، اہل حرفت‘ وہ تنگی کا شکار ہوں گے اور انہیں زیادہ ٹیکس دینا پڑے گا۔ اس میں آبادی کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔ یہ نقصان ایک حصے سے دوسرے حصے تک ساری آبادی پر چھا جائے گا اوردیوانے کتے کے زہر کی طرح پھیل جائے گا۔‘‘ یہی وہ صورت حال ہے جو آج اس اسلامی مملکت کو درپیش ہے۔ ایک طرف کیٹ واک کی تقاریب ہیں۔ ایسی ایسی ڈیزائنربوطیق ہیں کہ کروڑوں روپے کی شاپنگ چند بیگمات ہی کرلیتی ہیں۔ جیولری کی نمائشیں ہیں جو فائیو سٹار ہوٹلوں میں ہوتی ہیں اور ایک حقیر اقلیت اس میں دلچسپی رکھتی ہے ۔ تعطیلات منانے کے لیے چند خاندان سال میں دودوبار سوئٹزرلینڈ ، جنوبی فرانس اور دبئی جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے پاس کاروں اور قیمتی گاڑیوں کے بیڑوں کے بیڑے ہیں۔ ذاتی ہوائی جہاز ہیں۔ ایسے ایسے محلات ہیں جن کی وسعت اور امارت کی نظیر دنیا میں کم ہی ملتی ہے۔ اتنی بڑی بڑی جاگیریں ہیں کہ خود انہیں ان کے طول وعرض کا علم نہیں۔ سرداریاں ہیں جن کے سامنے لوگوں کو جھکنا پڑتا ہے۔ بلوچستان میں سرکاری ملازموں کو اپنی ماہانہ جائز تنخواہ لینے کے لیے بھی علاقے کے سردار سے ’’پرچی‘‘ حاصل کرنا پڑتی ہے اس کے علاقے میں گیس کی پائپ لائن بچھائی جائے تو اڑادی جاتی ہے۔ سکول کالج کھولنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ بجٹ؟ کون سا بجٹ؟ یہ ارب پتیوں کے بجٹ ہیں جوارب پتیوں کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ سلمان شاہ بنائے یا عبدالحفیظ شیخ، حناربانی کھر بنائے یا اسحاق ڈار۔ عوام کی اکثریت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پان مہنگا ہوتا ہے تو سگرٹ سستا ہوجاتا ہے۔ ہزارسی سی کی گاڑی پر اتنا ٹیکس ہے تو اٹھارہ سو کی گاڑی پر اتنا ٹیکس ہے ۔ پنشن میں اضافہ لیکن کتنا؟ دس فیصد!! سب ڈھکوسلے ہیں ۔ سب تدبیریں ہیں ایک اقلیت کی دولت کو محفوظ رکھنے کے لیے۔ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔ آپ معاشی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو محلات کے سائز پر، گاڑیوں کے سائز پر، جاگیروں کے سائز پر پابندی لگائیے۔ جوٹیکس نہیں دیتے، انہیں سربازار سزادیجیے، تاجروں کو کنٹرول کیجیے، ملاوٹ پر موت کی سزادیجیے۔ تجاوزات کے مرتکب بددیانت حرام خورتاجروں کو کوڑے ماریے۔ اسمبلیوں میں براجمان قومی مجرموں کو جیلوں میں بند کیجیے ، سمگلروں کو پھانسی پر لٹکائیے ، کمیشن کھانے والے بدمعاش انجینئروں کو تختہ دار پر لٹکائیے ، اغوا برائے تاوان کی لعنت کا سدباب کیجیے، لوگوں کی کاریں چرانے والوں کے گردے نکال کر سڑکوں پر پھیلائیے تاکہ عام پاکستانی دن کو سکھ کا سانس لے اور رات کو سکون سے سوئے۔ اگر یہ سب کچھ نہیں کرسکتے تو آپ مانیں یا نہ مانیں، عوام کو اچھی طرح معلوم ہے کہ آپ بجٹ کے ذریعے صرف اپنے طبقے کی حفاظت کررہے ہیں۔