دارالعلوم کراچی ان وقیع دینی مدارس میں شامل ہے جو پاکستان میں سرفہرست ہیں اور عالم اسلام میں بھی جانے پہچانے ہیں۔ اس کے بانی مفتی محمد شفیع مرحوم کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ دارالعلوم دیوبند کے ممتاز مدرسین میں سے تھے۔ تقسیم سے چند سال پیشتر تحریک پاکستان کے لیے مستقل کام کرنے کی غرض سے انہوں نے تدریسی کام سے استعفیٰ دے دیا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی ان کے رفقا میں شامل تھے۔ ان حضرات نے مولانا اشرف علی تھانوی کی ہدایت پر تحریک پاکستان کے لیے پورے برصغیر میں کام کیا۔ جمعیت علماء اسلام ان کا فورم تھی۔ (یہ بھی ایک معمہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جمعیت علماء اسلام ، علماء کے اس گروہ کی جیب میں کیسے چلی گئی جو کانگریس کے ہم نوا تھے اور قیام پاکستان کے مخالف تھے۔) مفتی محمد شفیع کی رحلت کے بعد ان کے نامور فرزندوں نے دین کی ترویج و اشاعت اور تدریس و افتا کا سلسلہ جاری رکھا۔ جسٹس تقی عثمانی کا نام اسلامی بنکاری کے ضمن میں مستند ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے اپنے مکتب فکر کے علما ہی نے اس میدان میں ان کی مخالفت کی ہے۔ مفتی محمد رفیع عثمانی دارالعلوم کے سربراہ ہیں۔ ان کے مرحوم بھائی ذکی کیفی معروف شاعر تھے۔ لاہور میں ان کا اسلامی کتابوں کی اشاعت کا وسیع کاروبار تھا۔ ذکی کیفی کے صاحبزادے، ہمارے دوست،سعود عثمانی کو شاعری اور کاروبار دونوں نعمتیں ورثہ میں ملی ہیں۔ کیسے کیسے اچھے شعر کہے ہیں۔ ؎ میں رفتگاں کے بنائے مکاں میں رہتا ہوں کسی کے خواب سے کرتا ہے استفادہ کوئی گزشتہ ہفتے ایک معاصر میں مفتی محمد رفیع صاحب نے دو قسطوں میں’’ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے جو دراصل ان کی ایک حالیہ تقریر کی تحریری شکل ہے۔ مضمون میں انہوں نے نظریۂ پاکستان، پاکستان کے لیے مسلمانوں کی قربانیوں، 1965ء کے جہاد، ابتدائی دور کے اتحاد، افواج پاکستان کی عزت اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی اہمیت اور اسی قبیل کے دیگر موضوعات پر قلم اٹھایا ہے۔ ہم ہر مسلک کے علمائے کرام کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ علمائے کرام کی خدمات اور سامراجی عہد میں ان کی قربانیوں سے شاید ہی کوئی انکار کرسکے۔ آج دین، جیسا بھی، ہمارے ہاں موجود ہے اس کے کریڈٹ کا بڑا حصہ علمائِ کرام ہی کو جاتا ہے۔ تاہم، ہم جیسے طالب علم اور علمائِ کرام کے خادم صدقِ دل سے ان کی توجہ ان امور کی طرف بھی مبذول کرانے کی کوشش کرتے ہیں جو علما ئِ کرام کی نظرِ کرم کے محتاج ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حالات جس نہج پر پہنچ گئے ہیں، وہاں محض دو قومی نظریے کی تعریف، چالیس پچاس سال پرانی جنگوں اور اتحاد بین المسلمین کے تذکروں سے بات نہیں بنے گی۔ کاش مفتی صاحب قوم کو بالعموم اور اپنے عقیدت مندوں کو بالخصوص یہ بتاتے کہ بلوچستان اور کراچی میں ہونے والی ہلاکتوں کے اسباب کیا ہیں۔ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اپنے ہی ہم وطنوں کو مسلسل موت کے گھاٹ کیوں اتار رہی ہے؟ فرقہ وارانہ، لسانی اور نسلی لحاظ سے پاکستانی قوم کیوں پارہ پارہ ہوگئی ہے؟ جن علما ئِ کرام نے تقسیم سے قبل مولانا اشرف علی تھانوی ؒاور ان کے عقیدت مندوں کی پاکستان کے حوالے سے مخالفت کی تھی، ان کی پیش گوئیاں کیوں درست ثابت ہورہی ہیں؟ سیاسی پیش منظر پر جو علما ئِ کرام چھائے ہوئے ہیں، ان پر پاکستانی عوام کی اکثریت ہنستی کیوں ہے اور ان کی شہرت ’’تو بازمانہ بساز ‘‘ کی کیوں ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم جس گڑھے میں گر چکے ہیں وہاں سے نکلنے کی کیا صورت ہے؟ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے لائق صد احترام علما ئِ کرام نے کم از کم چار حوالوں سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ اول وہ قوم کو مناہی اور رذائل سے نہیں بچا سکے۔ بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ قوم کی عظیم اکثریت مسجدوں میں جاتی ہے، نمازیں پڑھتی ہے اور جمعے کے خطبے کے علاوہ علماء کرام کے مواعظ اکثر و بیشتر سنتی ہے۔ صدقات ،خیرات، حج ،عمرے اور قربانی کے حوالے سے پاکستان عالم اسلام میں سر فہرست ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جھوٹ اور وعدہ خلافی میں بھی پاکستان سرفہرست ہے۔ جھگڑا فساد، گالی گلوچ، چغل خوری ،اسراف، بخل ، حرص ، حسد اور ریا کو برائی سمجھا ہی نہیں جاتا ۔انتہائی دردناک حقیقت یہ ہے کہ تاجروں کی بہت بڑی اکثریت مذہبی اور تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ یہ متشرع وضع کے لوگ نماز ، روزہ، حج، عمرہ، صدقہ ،خیرات میں ثانی نہیں رکھتے لیکن دوسری طرف ہماری یہی تاجر برادری ایسے کاموں میں رات دن مشغول ہے جو شرعاً ،اخلاقاً اور قانوناً قطعی طور پر ناجائز ہیں۔ ایک ،ہمارا تاجر گاہک سے جھوٹ بولتا ہے اور شے کا نقص نہیں بتاتا۔ دو، ہمارے تاجروں کی ریفنڈ پالیسی کوئی نہیں۔ ’’خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہوگا‘‘ کا رویہ ہماری بزنس کمیونٹی کی سفاکی اور اخلاقی پستی کی کھلی دلیل ہے۔ تین، اشیائے خوردنی یہاں تک کہ بچوں کے دودھ اور لائف سیونگ ادویات تک میں ملاوٹ عام ہے اور پاکستان جن برائیوں کے لیے دنیا میں بدنام ہے، یہ ان میں سرفہرست ہے۔ صحت کی رو سے جعلی دوائوں کی تیاری اور فروخت میں پاکستان دنیا بھر میں تیرھویں نمبر پر ہے۔ چار، ہمارے تاجر ٹیکس چوری میں مشہور ہیں اور خود اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ پانچ، تجاوزات اس ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے اور اس کے ذمہ دار دکاندار اور تاجر ہیں۔حکومت اور عوام کی ملکیت کو شیرِ مادر سمجھا جاتا ہے۔ چھ، تاجروں کے اوقات کار عوام ،حکومت اورملک سب کے لیے تکلیف دہ اور اذیت ناک ہیں اور باقی دنیا سے یکسر مختلف ہیں۔ یہ حضرات دن کے بارہ بجے سے رات دس گیارہ بجے تک کام کرتے ہیں۔ دوسری طرف مدارس انہی تاجروں کی خدمت سے چل رہے ہیں۔ یہاں مُلّا ملٹری گٹھ جوڑ کی بات ہوتی رہتی ہے۔ کہیں یہ مُلّا بزنس گٹھ جوڑ تو نہیں؟ رذائل اخلاق عام ہونے کا ایک سبب ،ہمارے علما ء ِکرام کی حقوق العباد سے چشم پوشی بھی ہے۔ ان کا سارا زور عبادات پر ہے۔ سنجیدہ اور ثقہ علمائِ کرام تبلیغی جماعت سے اس حوالے سے اپنے اختلاف کا ذکر نجی محفلوں میں کرتے ہیں لیکن عوام کے سامنے بات نہیں کرتے۔ دوم، ملک آج قومی اداروں کی جس شکست و ریخت کا شکار ہے اسے شروع توبھٹو صاحب نے کیا تھا لیکن اوجِ کمال پر ضیا ء الحق نے پہنچایا اور علما ئِ کرام نے اس کی مکمل پشتبانی کی۔ سوم، زرعی اصلاحات جاگیردارانہ نظام اور سرداری سسٹم کو ختم کرنے پر ہمارے علما کرام نے اپنے فرائض سے پہلو تہی کیا۔ حضرت عمرؓ جاگیردارانہ نظام کے خلاف تھے۔ یہی پالیسی حضرت عمر بن عبدالعزیز کی تھی لیکن ہمارے علما مجموعی طور پرلامحدود نجی ملکیت کے حامی رہے ہیں۔ چہارم، طالبان ایک مخصوص مسلکِ فکر کے علم بردار ہیں۔ جب ان حضرات نے دوسرے مسالک کے علما اور پیروں کی لاشیں قبروں سے کھود کر نکالنا شروع کیں اور مزاروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر سرِعام اس کا اعتراف بھی کیا تو اس مخصوص مسلک کے علما نے مصلحتاً یا عمداً اس کی مخالفت کی ،نہ اعلانِ برأت کیا۔ جسٹس تقی عثمانی جیسے نامور علما ئِ کرام نے یہ بھی فرمایا کہ یہ فتنوں کا زمانہ ہے اور ’’خاموشی‘‘ بہتر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب جوڑیا بازار کراچی پر حملہ ہوا تو پریس کانفرنسیں کی گئیں۔ موضوع وسیع ہے اور دامن قرطاس تنگ ع شب کوتاہ و قصہ طولانی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صرف علما ء کرام ہی کیوں؟ باقی شعبے بھی ذمہ داری پوری کریں۔ بجا۔ لیکن اسلام کے نام لیوا صرف علما ء کرام ہیں اور عوام ہر طرف سے مایوس ہو کر سچے، بے غرض اور جینوئن علما ء کرام کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ مفتی صاحب کی خدمت میں ادب سے عرض گزاری ہے کہ ؎ گلہ ہا داشتم، از دل بزبانم رسید مہر و بی مہری و یاری ازتست