دوحہ میں امریکیوں اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ پاکستانی اس ضمن میں جس جوش وخروش کا اظہار کررہے ہیں اس کاجانے کیا جواز ہے۔ امریکیوں کی ’’بے نیازی ‘‘ تاریخ میں مشہور ہے۔ سوویت یونین کے لیے انخلا کے بعد انہوں نے پاکستان کو جس طرح بیچ منجدھارکے چھوڑا، وہ تاریخ میں پہلی بار نہیں ہوا۔ لاطینی امریکہ میں یہ کھیل وہ کئی بار کھیل چکے ہیں۔ ایک تھیوری یہ پیش کی جارہی ہے کہ اگر پاکستان کو دوحہ میں کھلم کھلا فریق بنایا جائے تو بھارت بھی اس سٹیٹس کا مطالبہ کرے گا۔ یہ ایک مضحکہ خیز دلیل ہے۔ پاکستان کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں اور یہ کرۂ ارض کی پیچیدہ ترین سرحدوں میں سے ہے۔ لاکھوں افغان مہاجرکئی عشروں سے پاکستان میں مقیم ہیں اور واپس جانے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ افغانستان کی وجہ سے پاکستان کا معاشرتی تاروپود بکھر چکا ہے۔ معیشت تباہ ہوتی رہی ہے۔ دہشت گردی کے کالے بادل جنہوں نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، افغانستان ہی کے سبب سے ہیں۔ بھلا افغانستان کے حوالہ سے پاکستان اور بھارت کو ایک مقام پر کیسے رکھا جاسکتا ہے ! پاکستان ایک ایسا فریق ہے جو براہ راست متاثر ہوا ہے اور ہورہا ہے جب کہ بھارت کی افغانستان میں واحد دلچسپی یہ ہے کہ وہ اسے استعمال کرکے اپنی طاقت تسلیم کرائے اور پاکستان کو نقصان پہنچائے۔ اہم ترین سوال ‘جو ہرپاکستانی کے ذہن میں اٹھ رہا ہے‘ یہ ہے کہ اگر تحریکِ طالبان پاکستان، ملاعمر کو اپنا رہنما تسلیم کرتی ہے تو کیا جوکچھ پاکستان میں ہورہا ہے، ملاعمر کا اس پر سکوت ان کی رضامندی کا اظہار ہے ؟ اور اگر امریکیوں کی طالبان سے دوحہ میں گفت وشنید کسی مثبت نوٹ پر منتج ہوتی ہے تو کیا اس میں کوئی ایسی شق شامل ہوگی جس کے ذریعے ملا عمر کی کوئی ہدایت تحریک طالبان پاکستان کو پہنچے؟ جو حضرات اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کے تحریک طالبان محض چند ہزار جنگجوئوں پر مشتمل ہے، ان کی سادہ دلی پر رحم آتا ہے، پاکستان کی آبادی کا بہت بڑا حصہ جو غیرمسلح سہی، تحریک طالبان پاکستان کا حامی ہے لیکن یہ موضوع طویل ہے اور الگ تحریر کا متقاضی ہے، ہم یہاں دوحہ مذاکرات کے حوالے سے افغانستان کے مستقبل کی تصویر پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ امریکیوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں امن قائم ہوجانا ایسے ہی ہے جیسے ہتھیلی پر بال اگ آئیں یا کبوتری انڈے کے بجائے بچہ دے۔ ہم میں سے اکثر افغانستان میں بسنے والے مختلف نسلی گروہوں سے واقف ہی نہیں۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان پختونوں کا ملک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شمالی افغانستان کو ترکستان صغیر کہا جاتا رہا ہے۔ افغانستان میں پختون 42فی صد سے زیادہ نہیں۔ ستائیس فیصد تاجک اور دس فیصد ازبک آبادی ہے۔ ہزارہ بھی دس فیصد ہی ہیں، موجودہ افغانستان کا بانی احمد شاہ ابدالی ہے جس نے 1747ء میں پختونوں کو یکجا کیا۔ اس وقت سے لے کر 1979ء میں سوویت یونین کی آمد تک دوسوبتیس سال قضا وقدر کے مالک پختون ہی رہے ہیں۔ اس عرصہ میں ازبکوں، تاجکوں اور ہزارہ کے ساتھ کیا بیتی، ایک طویل داستان ہے (ہزارہ قبیلے کا ایک بڑا حصہ کوئٹہ میں بلاسبب نہیں آباد آہوا) ان گروہوں کی زبان‘ ثقافت‘ تعلیم‘ معاشرت اور اقتصادیات کس طرح محرومی کا شکار ہوئیں، الگ کہانی ہے۔ یہ گروہ سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کے دوران پیش منظر پر ابھرے۔ احمد شاہ مسعود، رشید دوستم، برہان الدین ربانی سب غیر پختون تھے اور اٹھارہویں صدی کے وسط کے بعد پہلی دفعہ پختون نمایاں حیثیت میں ظاہر ہوئے تھے۔ طالبان کی افغانستان میں حکومت قائم ہوئی۔ اگر امریکی مداخلت نہ ہوتی تو کیا طالبان کی امارت بدستور قائم رہتی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب چنداں مشکل نہیں! اصل سوال یہ ہے کہ امریکیوں کے انخلا کے بعد کیا پختون غیرپختونوں کے ساتھ مل کر حکومت بنا سکیں گے ؟ملاعمر کی افتاد طبع کے بارے میں قاضی حسین احمد مرحوم نے اپنے ایک مضمون میں برملا لکھا تھا کہ ان کا مزاج ایسا نہیں کہ وہ مکمل کنٹرول حاصل کیے بغیر چین سے بیٹھیں ۔ لیکن فرض کریں ملا عمر کے بجائے کوئی اور پختون فیصلہ سازی کی مسند پر فائز ہوتو کیا صورت حال مختلف ہوگی؟ افغانستان کے تاجک‘ ازبک‘ ہزارہ اور ترکمان گزشتہ پورے عشرے کے دوران جنگ کی اس آگ سے بچے رہے جس میں پختون جلتے رہے اور اپنے علاقوں کو جلاتے رہے۔ وہ پختونوں کی نسبت کئی گنا زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔ ان کے علاقوں میں صنعت وحرفت کی سرگرمیاں عرصہ سے جاری ہیں۔ ایک ازبک یا تاجک اور پختون میں عام طورپر اتنا ہی فرق ہے جتنا ڈیفنس لاہور کے رہنے والے اور کسی چک گ ب شمالی یا جنوبی کے کسان میں ہے۔ افغان امور کے کچھ ماہرین اسی تفاوت کا حل افغانستان کی تقسیم بتاتے ہیں۔ پس نوشت: پنجاب حکومت نے بڑے مکانوں پر جو ٹیکس تجویز کیا ہے، اس کے بارے میں معروف ماہر اقتصادیات محمداکرم خان نے خط بھیجا ہے۔ محمداکرم خان اقوام متحدہ کے انتظام کے تحت مشرقی تیمور کے آڈیٹر جنرل رہے۔ آپ سوڈان میں بھی اقوام متحدہ کے نمائندے کے طورپر خدمات انجام دیتے رہے۔ اکرم خان نے لکھا ہے۔ ’’پنجاب حکومت نے دوکنال کے گھروں پر پانچ لاکھ روپے کا ٹیکس تجویز کیا ہے۔ یہ ایک بھاری رقم ہے۔ یہ سماجی عدم انصاف کا مسئلہ ہے۔ مثلاً اگر کسی شخص نے دیانت داری سے دوکنال کا گھر بنایا ہے اور اب سوائے پنشن کے کوئی اور ذریعہ آمدنی اس کا نہیں ہے تو پانچ لاکھ روپے کا ٹیکس ایسے شخص کو گداگر بنادے گا۔ بیوہ کے لیے بھی یہ ٹیکس مشکلات کا باعث ہوگا۔ ایسے گھروں میں کئی خاندان مل کر بھی رہتے ہیں۔ اس کے برعکس کسی کمرشل ایریا میں چھوٹی سی دکان بھی دوکنال کے گھر سے کئی گنا زیادہ کی قیمت رکھتی ہے لیکن اسے ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا۔ اسی طرح کئی پلاٹوں کا مالک چھوٹے گھر میں رہ کر بھی اس ریٹائرڈ شخص کی نسبت زیادہ مالدار ہوگا جس نے جوں توں کرکے بڑا گھر بنالیا اور اب پنشن پر گزارا کررہا ہے۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ گھر کس علاقے میں ہے۔ خراب علاقے میں دوکنال گھر کی نسبت دس مرلے کا گھر ایک امیر علاقے میں زیادہ مہنگا ہوگا۔ ٹیکس کا تعلق آمدنی سے ہونا چاہیے‘‘۔