جوکچھ قومی اسمبلی میں اعجاز الحق اور پیپلزپارٹی کے ارکان کے درمیان ہوا، وہ نہ ہی ہوتا تو بہتر تھا۔ ایک طرف اعجاز الحق اکیلے تھے، دوسری طرف پیپلزپارٹی کے کئی ممبر تھے۔ باقی تماشائی تھے۔ اس زبانی جنگ میں اعجاز الحق صاحب کی کارکردگی اتنی اعلیٰ بھی نہیں تھی کہ وہ کہتے ؎ ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں جسے غرورہو آئے کرے شکار مجھے میڈیا نے اس پہلو کو خاصی اہمیت دی کہ مسلم لیگ نون کے ارکان نوک جھونک کا مزا لیتے رہے۔ اعجاز الحق صاحب کا ساتھ دینے والا کوئی نہ تھا ع اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہوکر اعجاز الحق صاحب نے مسلم لیگ نون کو اس کے برے وقتوں میں چھوڑ دیا اور پرویز مشرف کے آٹھ سالہ نادرشاہی عہد کے دوران اس گروہ عاشقاں میں شامل رہے جو وزارتوں‘ سفارتوں اور امارتوں پر فائز رہا۔ لال مسجد کا المیہ تھا یا چیف جسٹس کی توہین۔ کسی موقع پر انہوں نے استعفیٰ نہیں دیا۔ ہاں۔ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے یہ ضرور کہا ہے کہ انہیں مستعفی ہوجانا چاہیے تھا! جوکچھ قومی اسمبلی میں ہوا، وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ فرض کریں اعجاز الحق ، دور ابتلا میں مسلم لیگ نون کا ساتھ نہ چھوڑتے‘ تو کیا ایسی صورت میں مسلم لیگ نون کے ارکان چار دن پیشتر ہونے والی زبانی جنگ میں اعجاز الحق کا ساتھ دیتے ؟اس سوال کا جواب مشکل ہے۔ گمان غالب یہ ہے کہ وہ بیچ بچائو کرادیتے لیکن جنرل ضیا الحق کو ڈکٹیٹروں کی صف سے کیسے نکلواتے ؟ قصے کی بلاتصویر تفصیل یوں ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی میں پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے حوالے سے کارروائی کرنے کا بیان دیا‘ تو پیپلزپارٹی نے ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ اس موقع پر قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے پارلیمنٹ سے تمام ڈکٹیٹروں کی تصاویر اتاردینے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے بطور خاص جنرل ضیا الحق کا نام لیا‘ نہ ذکر کیا۔ دانائی اور تحمل کا تقاضا یہ تھا کہ اعجاز الحق اس موقع پر خاموش رہتے۔ آیا ہوا لمحہ گزرجاتا لیکن انہوں نے اس دفاع کی ٹھانی جو ممکن نہ تھا۔ الزامی جواب کی ٹیکنیک بروئے کار لاتے ہوئے انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو پر تنقید کی۔ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ بھٹو صاحب سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رہے لیکن ضیا الحق کے طویل دور کا بھٹوکے چند روزہ مارشل لا ایڈمنسٹریٹر شپ سے تقابل کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ پیپلزپارٹی کے اراکین نے اس پر ’’آئین کے قاتل کا بیٹا‘‘ کا نعرہ لگانا شروع کردیا۔ اعجاز الحق نے دلائی کیمپ کا حوالہ دیا اور یوں بات بڑھتے بڑھتے بڑھ گئی۔ اعجاز الحق جوہری طورپر سیاست دان نہیں ہیں۔ وہ منتخب بھی ایک ایسے حلقے سے ہوتے ہیں جہاں آرائیں برادری کا زور ہے۔ انہوں نے سیاست دانوں کی طرح گراس روٹ سطح پر کوئی کام نہیں کیا‘ نہ ہی سیاسی کیریئر کے تقاضے پورے کیے۔ یونین کونسل، ضلع کونسل، ضلع ناظم، صوبائی اسمبلی ۔ کئی مراحل ہوتے ہیں جن کی چھلنیوں سے گزر کر سیاست دان ٹاپ پر پہنچتا ہے۔ ان کے مقابلے میں خواجہ آصف کو دیکھیے۔ انہوں نے اصرار نہیں کیا کہ ان کے مرحوم والد نے ضیا الحق کا ساتھ دیا تو ٹھیک کیا۔ ایک منجھے ہوئے سیاست دان کی طرح جو چھلنیوں سے گزر کر ایک مقام پر پہنچتا ہے۔ کسی احساس کمتری اور خوفِ ملامت کے بغیر انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ مرحوم کی غلطی تھی۔ اس اعتراف سے اس ادب و احترام میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی جو خواجہ آصف کے دل میں اپنے عزیز ازجان والد محترم کے لیے موجود ہے اور تاحیات رہے گا۔ ؎ ببین تفاوت رہ ازکجاست تابہ کجا توبستن در و من فتح باب می شنوم یعنی کتنا فرق ہے تمہارے اور میرے رویے میں۔ جو آہٹ تمہیں دروازہ بند ہونے کی لگتی ہے، مجھے وہی آہٹ دروازہ کھلنے کی لگ رہی ہے! جنرل ضیا الحق میں بہت خوبیاں تھیں۔ انہوں نے قومی زبان کو اہمیت دی۔ ذاتی زندگی میں صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے لیکن تاریخ قانون کی طرح اندھی ہے۔ وہ سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید نہیں کہتی‘ نہ کہنے دیتی ہے۔ ایک منتخب وزیراعظم کا تختہ الٹ کر تخت پر فائز ہونے کا کوئی جواز نہ تھا۔ یہ کہنا کہ سیاست دان ان کے ساتھ شامل ہوگئے تھے، ایک ضعیف دلیل ہے۔ تو پھر ان سیاست دانوں اور سیاسی کارکنوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو مسلسل مخالفت کرتے رہے‘ کوڑے کھاتے رہے اور شاہی قلعے میں انگریزی عہد ستم کی تاریخ دہراتے رہے ؟ضیا الحق نے نوے دن کا وعدہ کیا۔ اس وعدے کا جو حشر ہوا، بیان کا محتاج نہیں۔ پاکستانی تاریخ کے طالب علم سے اگر وہ واحد نقصان پوچھیں جو جنرل ضیا الحق کے زمانۂ آمریت میں ملک کوپہنچا تو اس کا ایک ہی جواب ہوگا کہ ادارے ختم ہوگئے‘ اداروں کی حرمت ختم ہوگئی، رولز، ریگولیشن، قواعد، ضوابط، آئین، سب کچھ پامال ہوتا رہا۔ ضیا الحق صحیح معنوں میں بادشاہ تھے۔ جو لفظ منہ سے نکلتا، قانون بن جاتا۔ جسے چاہتے، نواز دیتے، جس سے ناراض ہوتے، نشان عبرت بنادیتے۔ ان کے اس فرمان کا کہ آئین کیا ہے، کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے، آخر اعجاز الحق صاحب کس طرح دفاع کریں گے ؟ ریلوے ہی کو دیکھیے، آج جس کا جنازہ پڑھا جارہا ہے، اسے اس حال تک پہنچانے میں ضیا الحق کا کردار نمایاں ترین ہے۔ جس کو این ایل سی کا سرپرست بنایا، وہی ریلوے کا وزیر تھا۔ یعنی دودھ کی رکھوالی بلے کے سپرد۔ یہ وہی ہے جو ان دنوں بوسنیا میں ’’پناہ گزین‘‘ ہے اور قومی جرائم کا مرتکب رہا ہے۔ بیرون ملک تعیناتیاں تھیں یا پلاٹوں کی بندربانٹ، دارالحکومت میں نرسریوں کی تقسیم تھی یا زرعی جاگیروں کی ہرشے روابط کی بنیاد پر تھی۔ ارشاد احمد حقانی بتاتے تھے کہ ضیا الحق ترکی گئے تو ترکی کے صدر نے کسی کھلاڑی یا فنکار کا تعارف کراتے ہوئے یوں ہی ذکر کردیا کہ یہ بیمار ہے۔ میں علاج کے لیے بیرون ملک بھیجنا چاہتا ہوں لیکن میری یعنی ترکی کی وزارت خزانہ اجازت نہیں دے رہی۔ ضیا الحق صاحب نے وہیں سے اس ترک فنکار یا کھلاڑی کے بیرون ملک علاج کا بندوبست حکومت پاکستان کے خرچ پر کردیا۔ ان کے نزدیک اس بات کا کوئی تصور ہی نہیں تھا کہ ان کی وزارت خزانہ کے پاس کوئی اختیار ہے یا یہ کہ قوانین کا احترام مہذب حکومتوں پر لازم ہے ! حقانی صاحب مرحوم سارک کے ایک دورے کو بھی ضیا الحق کے دور میں اداروں کے انہدام کی مثال کے طورپر پیش کرتے تھے۔ غالباً سری لنکا میں ضیا الحق صاحب نے سارک کانفرنس کے شرکاء کی ضیافت کی اور اس ’’فیاضی‘‘ میں مکمل ’’شہنشاہی ‘‘ کا ثبوت دیا! افغان مہاجرین کو پاکستان کے اطراف واکناف میں بغیر کسی رکاوٹ کے پھیلا دینے کا کام ضیا الحق کے عہد کا ایک ایسا اقدام ہے جس کا خمیازہ آج ملک بھگت رہا ہے اور جانے کب تک بھگتے گا۔ یہ ایک طویل موضوع ہے ۔ اعجاز الحق جنرل ضیا الحق کے حکومتی اور سیاسی اقدامات کے دفاع کے شرعاً مکلف نہیں ہیں۔ ایک سعادت مند فرزند کے طورپر ان کے فرائض یہ ہیں کہ وہ ان کی مغفرت کے لیے زیادہ سے زیادہ دعائیں کریں۔ ان کے لیے صدقات وخیرات کا اہتمام کریں۔ ان کی نیکیوں کا تذکرہ کریں اور ان کے دوستوں سے حسن سلوک سے پیش آئیں۔ رہا مارشل لایا تختہ الٹ کر تخت پر قابض ہونا تو اگر وہ اعلان کردیں گے مارشل لا جس جس نے بھی لگایا ، اچھا نہیں کیا، تو اس سے اس احترام میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی جو اپنے محترم والد کے لیے ان کے دل میں ہے اور سچ پوچھیے تو ہم سب کے دل میں ہے!