وہ دیر کے ایک دور افتادہ گائوں میں پیدا ہوا۔ اس گائوں کے تقریباً سارے مکان کچے تھے۔ سب مرد باریش تھے اور ساری عورتیں سخت پردہ کرتی تھیں۔ سب مردوں کا ایک جیسا لباس تھا۔ شلوار قمیص۔ دس سال کا تھا جب وہ یہاں آیا۔ چھ سال ہوچکے ہیں۔ دو یا تین سال اور یہیں رہنا ہوگا۔ یہ مدرسہ اقامتی ہے۔ وہ رات دن یہیں رہتا ہے۔ مدرسہ کے ساتھ مسجد بھی ہے۔ وہ مسجد بھی اسی مکتبِ فکر کی ہے جس سے مدرسہ وابستہ ہے۔ وہ یہاں کبھی کبھی اخبار پڑھتا ہے۔ اخبار بھی اسی مکتبِ فکر کی نمائندگی کرتا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، سچی بات یہ ہے کہ پاکستانی قوم دو حصوں میں منقسم ہوچکی ہے۔ دونوں حصے بہت بڑے ہیں۔ جوکوئی اس حقیقت سے اغماض برتتا ہے ، چشم پوشی کرتا ہے، یا اس کا ادراک کرنے سے قاصر ہے، اس سے حقیقت کے وجود پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ سوال احمقانہ ہے کہ دونوں حصوں میں کون صحیح ہے اور کون غلط۔ یہ انسانوں کا معاملہ ہے۔ ان کے عقائد ، ان کے رویوں، ان کی عقلوں ، ان کے عمل اور ان کے ردعمل کا معاملہ ہے۔ یہ نباتات‘ جمادات اور معدنیات کی سائنس نہیں کہ ایک فارمولے کا یکساں حالتوں پر یکساں اطلاق ہو۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ مدرسوں والے غلط ہیں تو وہ غلطی پر ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کالجوں‘ یونیورسٹیوں اور بیرون ملک کے بین الاقوامی اداروں سے پڑھ کر آنے والے صحیح راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں تو وہ بھی انصاف نہیں کررہا۔ہوسکتا ہے دونوں صحیح ہوں۔ ہوسکتا ہے دونوں غلط ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں کچھ کچھ صحیح اور کچھ کچھ غلط ہوں۔ لیکن یہ سوال ہی غیرضروری ہے کہ کون صحیح ہے اور کون غلط۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ قوم دوگروہوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ یہ تقسیم خوفناک ہے۔ دونوں گروہ بعدالمشرقین پر ہیں ۔ دونوں کا انداز فکر اور انداز زندگی الگ الگ ہے۔ ان کا ایک دوسرے سے سماجی اختلاط برائے نام ہے۔ دونوں گروہ باہم رشتے تک برائے نام ہی کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے زیرمطالعہ رہنے والے اخبارات بھی الگ الگ ہیں۔ جو ذہین وفطین تجزیہ کار کہتے پھرتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان محض چند ہزار مسلح نفوس پر مشتمل ہے اور ملک کی باقی آبادی میں اس کا نفوذ نہیں ہے، وہ یا تو بچوں جیسی بات کررہے ہیں یا دوسروں کو بچہ سمجھ رہے ہیں۔ آبادی کے بہت بڑے حصے کی تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ دینی ہم آہنگی ہے اور یہ ایک زمینی حقیقت ہے۔ تحریک طالبان پاکستان جمہوری نظام کی دشمن ہے۔ ملک میں لاکھوں کروڑوں لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جمہوریت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس کا متبادل کیا ہے۔ وہ عباسیوں اور عثمانی ترکوں کی موروثی ملوکیت کو خلافت سمجھتے ہیں اور یہ بات قابلِ دست اندازی پولیس نہیں کہ ان کو پکڑ لیا جائے۔ ہمارے کئی کالم نگار دوست جمہوریت اور انتخابات کے خلاف کالموں پر کالم لکھ لکھ کر آبادی کے اس حصے سے دادوتحسین کے ڈونگر ے وصول کرتے ہیں۔ دودن پیشتر لال مسجد والے مولانا عبدالعزیز نے فیصل آباد کے گائوں 64ج ب میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسامہ بن لادن اور غازی عبدالرشید کے مشن کو آگے بڑھانا ہے۔ مولانا اس جلسہ کے واحد مقرر اورواحدسامع نہیں تھے۔ وہاں ہزاروں کی تعدادمیں لوگ ان کے حامی تھے۔ گزشتہ ہفتے جناب حافظ سعید نے برما میں مسلمانوں کے قتل عام پر اور سید منور حسن نے شام کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان محترم بزرگوں نے پاکستان میں ہرروز درجنوں مسلمانوں کے قتل عام کا کوئی تذکرہ نہیں فرمایا لیکن یہ اکیلے نہیں ہیں۔ لاکھوں پاکستانی ان کے خیالات کی تائید کرتے ہیں۔ ملک میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو وڈیو اور فلموں کی دکانیں جلانے کودرست قرار دیتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کی مسلح جدوجہد کو وہ درست نہیں سمجھتے لیکن آبادی کا بہت بڑا حصہ ان کے نظریات کو درست قرار دیتا ہے۔ کل ہی ایک عزیز نے‘ جووکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں‘ بتایا کہ ان کا ایک موکل ہراس وکیل سے احتراز کرتا ہے جس کی ظاہری شکل وصورت بقول اس کے، اسلامی نہیں ہے۔ اسے اس سے غرض نہیں کہ متشرع وضع قطع والا شخص معاملات میں کیسا ہے۔ آپ لاکھوں کروڑوں لوگوں کے مائنڈ سیٹ سے، انداز فکر سے، اتفاق کریں یا اختلاف، اس سے انکار کیسے کریں گے کہ یہ مائنڈ سیٹ بہرطور موجود ہے اور ایک حقیقت ہے۔ ہم نے دیر سے تعلق رکھنے والے طالب علم کی مثال دی ہے۔ مدارس میں سب طالب علم غریب نہیں۔ ان میں امیر خاندانوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ بھی ہیں۔ مڈل کلاس والے بھی ہیں کچھ کے پاس اپنی گاڑیاں ہیں اور ان کے کمروں میں ایئرکنڈیشنر لگے ہوئے ہیں۔ آپ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے لاکھوں کروڑوں لوگوں کے خیالات سے لاکھ اختلاف کریں لیکن انہیں اپنے خیالات ونظریات پر قائم رہنے کا حق حاصل ہے۔ آٹھ دس سال تک رات دن مدرسہ میں رہنے والا اور صرف ایک مخصوص مکتب فکر کے لوگوں سے میل جول رکھنے والا طالب علم جب عملی دنیا میں داخل ہوتا ہے تو مختلف عقائد‘ مختلف لباس اور مختلف وضع قطع رکھنے والے لوگوں کو ذہنی طورپر قبول کرنے سے قاصر ہوتا ہے اور اکثر کو کافر سمجھتا ہے۔ بعید نہیں کہ مسلح جدوجہد پر بھی اُتر آئے، یہ سب کچھ حقیقت ہے۔ اس حقیقت کی موجودگی سے انکار کرنے والا عقل مند نہیں ہوسکتا! سوال یہ نہیں ہے کہ تحریک طالبان پاکستان سے بات چیت کی جائے یا نہ کی جائے۔ یہ بھی اہم مسئلہ نہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کے مسلح افراد، جنگ جوئی نہ کریں تو کیا کاروبار، کھیتی باڑی اور ملازمتیں کرسکیں گے؟ یہ قلیل المیعاد (شارٹ ٹرم) مسائل ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملک نظریاتی طورپر دوگروہوں میں منقسم ہوچکا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو کن اکھیوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو سلام کرکے موسم کا حال پوچھ بھی لیں تو دلوں میں میل ہے۔ ایک گروہ اس امر پر یقین رکھتا ہے کہ ’’سیکولر ‘‘ تعلیم حاصل کرنے والے اسلام سے نابلد ہیں۔ دوسرا گروہ سمجھتا ہے کہ ظاہر کو اہمیت دینے والے اسلام کی روح سے دور ہیں اور یہ کہ جمہوریت کو غیراسلامی سمجھنے والے متبادل پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ دونوں گروہ پاکستانی ہیں۔ دونوں کو اپنے اپنے نظریات پر قائم رہنے کا حق حاصل ہے۔ اگر مسلح جدوجہد کرنے والے پُرامن راستے پر چل بھی پڑیں تو نظریاتی بُعد پھر بھی جہاں ہے، وہیں رہے گا۔ یہ بُعد‘یہ فاصلہ‘یہ خلیج پاکستان کی اصل دشمن ہے۔ اس خلیج کو کیسے پاٹا جائے؟یہ بُعد، قربت میں کس طرح تبدیل ہو؟ یہ فاصلہ کیسے مٹے؟ اس کے لیے سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ پانچ ، دس، پندرہ سال پر محیط منصوبہ بنانا ہوگا۔ ایسامنصوبہ جو دونوں گروہوں کے لیے قابل قبول ہو‘ لیکن شترمرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ دونوں گروہ حقیقت ہیں اور حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا۔