یہ تقریباً ایک سو تیس یا چالیس سال پہلے کی بات ہے۔ سرسید احمد خاں نے لندن کا سفر کیا۔ وہ اور ان کے ساتھی بحری جہاز سے جنوبی فرانس کے ساحل پر اُترے۔ فرانس کے شمال سے انہوں نے پھر بحری جہاز لینا تھا اور انگلش چینل عبور کرنی تھی۔ ان کے ایک ہم سفر کے پاس ڈھنگ کا لباس نہیں تھا۔ غالباً موسم کا ساتھ دینے سے قاصر تھا۔ کسی نے بتایا کہ یہاں تیار لباس مل جاتے ہیں۔ وہ ایک ایسی ہی دکان میں گئے۔ سرسید بتاتے ہیں کہ وہاں ہر سائز کے لباس موجود تھے۔ ایک مس صاحبہ کائونٹر پر بیٹھی تھیں۔ ان کے ساتھی نے ماپ دیا اور دس پندرہ منٹ کے بعد اُن کے جسم پر نیا لباس تھا جو اس طرح موزوں لگ رہا تھا جیسے انہی کے ماپ کا سیا گیا ہو۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر میں پوشاک تو کیا‘ ٹوپیاں بھی آرڈر پر تیار ہوتی تھیں۔ ڈیڑھ سو برس ہونے کو ہیں۔ ہم اس معاملے میں ابھی وہیں اٹکے ہوئے ہیں۔ ایک بہت ہی قلیل تعداد سلی سلائی قمیضیں اور پتلونیں خرید رہی ہے۔ تیار شدہ شلوار قمیض اور کُرتے بھی بازار میں دستیاب ہیں لیکن پاکستان کی کل آبادی کا پانچ دس فیصد یا اس سے بھی کم حصہ اس سہولت سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تو ہمارے کلچر میں یہ رواج ابھی تک نفوذ نہیں کر سکا۔ ماپ کے مطابق آرڈر پر تیار کیا ہوا لباس زیادہ شان و شوکت کی نمائندگی کرتا ہے۔ دوسری وجہ ریڈی میڈ ملبوسات تیار کرنے والوں کی نااعتباری ہے۔ کپڑے کی کوالٹی اکثر و بیشتر ناقص ہوتی ہے۔ لاگت کم کرنے کے لیے یہ لوگ آخری حد سے بھی آگے گزر جاتے ہیں۔ تاہم یہ مسئلہ پاکستانی بزنس کے میدان میں ہمہ گیر ہے۔ ہمارے تاجر بہت سی ناانصافیاں کر رہے ہیں۔ یہ اُن میں سے محض ایک ہے۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ لباس سلوانے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں؟ پہلے آپ کپڑا خریدتے ہیں۔ اس کے لیے پورا نہیں تو آدھا دن ضرور وقف کرنا پڑتا ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ آپ ایک ہی دکان پر گئے اور وہاں سے کپڑا خرید کر فارغ ہو گئے۔ ارادہ یہی ہوتا ہے مگر ایسا ہوتا نہیں۔ ایک دکان سے دوسری‘ دوسری سے تیسری‘ تیسری سے چوتھی۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک بازار سے دوسرے بازار کا اور شہر کے ایک حصے سے دوسرے حصے کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ کپڑا خرید کر گھر آتے ہیں۔ اگر سوتی کپڑا ہے تو اسے پانی میں بھگو کر خشک کیا جاتا ہے۔ اسے شرِنک کرنے کا عمل کہتے ہیں۔ اگلا مرحلہ درزی کے پاس جا کر ماپ دینے کا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جائیں تو اُس وقت درزی دکان میں موجود نہ ہو۔ چلیے‘ ماپ دے کر آ گئے۔ نوّے فیصد امکان اس بات کا ہے کہ درزی نے جو تاریخ اور وقت دیا ہے‘ اُس پر ملبوس تیار ہی نہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ صبح جائیں تو وہ شام کو آنے کا کہتا ہے۔ ’’کاری گر چھٹی پر ہیں‘‘، آسان ترین بہانہ ہے۔ آج کل لوڈشیڈنگ بھی تاخیر کی وجہ ہے جو کسی حد تک معقول جواز ہے۔ وجہ جو بھی ہو‘ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ درزی پھیرے نہ لگوائے۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ آپ کے گھر کی خواتین کے ساتھ درزی کیا سلوک کرتے ہیں؟ ہماری خواتین کو‘ خواہ وہ کسی طبقہ سے ہیں‘ ان پڑھ ہیں یا اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ نئے ملبوسات کا بہت شوق ہے اور یہ شوق بیماری کی حد تک ہے۔ اکثر خواتین نت نئے درزیوں کی تلاش میں رہتی ہیں۔ سہیلیاں ملتی ہیں تو درزیوں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ ضرور ہوتا ہے۔ پھر ان درزیوں کو‘ خواہ وہ دُور کی آبادیوں ہی میں کیوں نہ ہوں‘ آزمایا جاتا ہے۔ کچھ مردود ٹھہرتے ہیں یعنی رد کر دیے جاتے ہیں۔ کچھ کی کارکردگی پسند آ جاتی ہے۔ ان کی تشہیر جاری رہتی ہے۔ یہ درزی شاید ہی وعدے کی پابندی کریں۔ کھاتی پیتی خواتین کے ڈرائیور ان کی دکانوں کے پھیرے لگاتے ہیں۔ دوسری خواتین خود چکر لگاتی ہیں۔ ’’کل آیئے‘‘، ’’بس پرسوں لے جایئے‘‘۔ ابھی ہمارا کلچر اتنا ترقی یافتہ نہیں ہوا کہ جانے سے پہلے ٹیلی فون کر لیا جائے۔ کریں بھی تو کوئی شاگرد جواب دے گا ’’ماسٹر صاحب خود موجود نہیں اور مجھے آپ کے لباس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں‘‘۔ خواتین کے ساتھ زیادتی کی انتہا وہ دکاندار کرتے ہیں جو شادیوں کے ملبوسات تیار کرتے ہیں۔ اوّل تو اس تبذیر اور حماقت کا جواب نہیں کہ لاکھوں روپے میں جو لہنگا تیار ہوتا ہے وہ دلہن ایک دو گھنٹوں کے لیے زیب تن کرتی ہے اور اس کے بعد باقی زندگی وہ کسی صندوق یا وارڈ روب میں گزارتا ہے۔ اس مسئلے کو بھی چھوڑیے‘ اُس عذاب کا خیال کیجیے جو شادی والے گھر کی خواتین پر درزیوں کی شکل میں اترتا ہے۔ نئے ملبوسات صرف دلہن کے نہیں‘ دلہن اور دلہا کی رشتہ دار خواتین ساری کی ساری خصوصی پوشاکیں بنواتی ہیں۔ وہ دکاندار اور کاری گر جو گوٹہ کناری‘ سلما ستارے‘ لیسیں لگانے‘ کپڑوں میں سٹون اور نگ ٹانکنے کا کام کرتے ہیں‘ ان کی بے نیازی‘ تغافل اور بے رخی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ آج کل شادی کے ملبوسات پر جو خصوصی کام ہوتا ہے اُسے Hammer work یا دَبکی کہا جاتا ہے (خدا جانے یہ کس بلا کا اور کس عمل کا نام ہے)۔ اس موقع پر مردوں کا کردار بس اتنا رہ جاتا ہے کہ رقم فراہم کریں (جس کا درست تخمینہ لگانا ناممکن ہے) اور ڈرائیور کا بندوبست کریں یا خود ڈرائیور کی ڈیوٹی سرانجام دیں۔ اس کے بعد آنکھ مچولی کا ایک طویل کھیل شروع ہوتا ہے۔ جس نوعیت کے کام کا آرڈر دیا جاتا ہے‘ تیار ہونے پر معلوم ہوتا ہے کہ کاری گر نے اپنی طرف سے اس میں تبدیلیاں کر ڈالیں‘ کبھی ملبوس اصل ماپ سے بڑا یا چھوٹا نکل آتا ہے۔ اکثر و بیشتر مقررہ تاریخ پر کام تیار نہیں ہوتا۔ اس امر کا وثوق سے دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ درزی اور کاری گر اٹھانوے فی صد خواتین کو پھیروں پر پھیرے لگواتے ہیں۔ ان میں اتنا اخلاق نہیں کہ ٹیلی فون پر تاخیر کی اطلاع دے دیں۔ ایڈوانس رقم لے چکے ہوتے ہیں‘ شکار پھنس چکا ہوتا ہے‘ کہیں جا نہیں سکتا۔ یہ بداخلاقی اس قدر عام ہے کہ خواتین نفسیاتی طور پر اسے قبول کر چکی ہیں۔ شاید ایک یا دو فی صد مثالیں ایسی ہیں کہ مظلوم خواتین کے مرد آ کر دکاندار سے بات کریں۔ عام طور پر اس کا انجام بھی جھگڑے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ گاہک عملی طور پر یرغمال بن چکا ہوتا ہے۔ شادی کی تاریخ سر پر آ چکی ہوتی ہے۔ ایڈوانس اگر کوئی واپس بھی دے تو اس کا فائدہ نہیں۔ اب اس قلیل مدت میں کہیں سے بھی کام نہیں کرایا جا سکتا۔ اس عذاب اور اس شیطانی دائرے سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے جو عقل مند قوموں نے ڈیڑھ سو سال پہلے تلاش کر لیا تھا۔ ڈیڑھ سو سال کا اندازہ ہم سرسید احمد خان کی دی ہوئی اطلاع کے لحاظ سے لگا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ سینکڑوں سال ہو چکے ہوں۔ ہمارے تاجر اگر چند چھٹانک ایمانداری کہیں سے خرید لیں اور کوالٹی کی گارنٹی دینے کے لیے تیار ہو جائیں تو ریڈی میڈ ملبوسات‘ آرڈر پر سلوانے کے رواج کو مکمل طور پر ختم کر سکتے ہیں۔ درزیوں کی بے روزگاری کا سوال اس لیے نہیں پیدا ہوتا کہ ان کی ضرورت ملبوسات تیار کرنے والی فیکٹریوں کو بہر صورت پڑے گی۔ لیکن آپ اُس آرام اور عزت کا اندازہ لگایئے جب آپ ہر موقع پر‘ ہر قسم کا ملبوس‘ بنا بنایا خرید کر گھر آ جاتے ہیں۔ دس پھیرے لگانے کے بجائے ایک دفعہ ہی میں کام ہو جاتا ہے۔ اَن پڑھ‘ بداخلاق‘ بدمزاج‘ وعدہ خلاف‘ دروغ گو درزیوں اور کاری گروں سے آپ کی جان چھوٹ جاتی ہے۔ تنگ گلیوں اور پُرپیچ راستوں کے آخر میں واقع کھوکھا نما دکانوں پر آپ کو نہیں جانا پڑتا۔ پوری ترقی یافتہ دنیا میں یہی ہو رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اتنے عقل مند ہیں؟