’’وادی تیراہ سے طالبان کمانڈر منگل باغ کی قید سے فرار ہو کر وزیر آباد کا نوجوان گھر پہنچ گیا۔ سہیل منشا نے انکشاف کیا ہے کہ وادیٔ تیراہ کے سنگلاخ پہاڑوں میں اسلحہ، بم وغیرہ بنانے کی فیکٹری ہے جہاں 52 سے 70نوجوان کام کرتے ہیں اور فیکٹری میں تیار ہونے والا اسلحہ گدھوں پر لاد کر سرحد کے قریب گاڑیوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ وزیر آباد کے رہائشی سہیل منشا نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج گوجرانوالہ طارق افتخار کی عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرایا ہے۔‘‘ سہیل نے روزنامہ ’’دنیا‘‘ کو بتایا کہ وہ 6فروری 2013ء کو گھر سے کتاب لینے کے لیے جارہا تھا کہ سفید پگڑیاں پہنے چار مولویوں نے اسے روک لیا اور اسے ایک شاپنگ بیگ پکڑ اکر اس کی گرہ کھولنے کو کہا۔ شاپنگ بیگ پر وی آئی پی لکھا ہوا تھا۔ جیسے ہی اس نے گرہ کھولی ا س میں موجود پائوڈر سے اسے کچھ ہوش نہ رہا۔ جب اسے ہوش آیا تو وہ ایک نامعلوم جگہ پر تھا جہاں اس کا ہاتھ اور ٹانگ زنجیروں سے بندھی تھی۔ اسے بتایا گیا کہ وہ منگل باغ کا قیدی ہے۔ اسے وارننگ دی گئی کہ بولنے اور سوال کرنے والے کو جواب گولی کی شکل میں دیا جاتا ہے۔ پھر اسے پہاڑوں میں بنی ہوئی اسلحہ فیکٹری میں اسلحہ صاف اور پالش کرنے کے کام پر لگایا گیا جہاں بم بھی بنائے جاتے۔ پھر اس کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ بکریوں اور گدھوں کو اسلحہ والوں تک پہنچائے۔ ایک دن اس نے پہاڑی سلسلے میں ایک ٹرک کو کھڑے دیکھا۔ وہ ہمت کرکے اس تک پہنچا اور ٹرک کے ڈرائیور کنڈکٹر کو اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے میں بتایا تو کنڈکٹر نے مدد کرنے کی ہامی بھری جس پر ڈرائیور کی اس کے ساتھ لڑائی ہوگئی تاہم کنڈکٹر نے ڈرائیور کو آمادہ کرلیا اور اسے ٹرک میں چھپا کر راولپنڈی لے آیا۔ کنڈکٹر نے اس کے والد کا موبائل نمبر لے کر فون کیا تو وہ اپنے گھر تک پہنچا۔ یہ خبر روزنامہ دنیا (12جولائی 2013ء) کی ہے۔ اس قسم کی خبریں روزمرہ کا معمول بن چکی ہیں۔ جن ملکوں میں حکمران اپنے آپ کو عوام کا محافظ سمجھتے ہیں، وہاں ایسی ایک خبر بھی ان کے لیے قابل برداشت نہیں ہوتی۔ نائن الیون کے بعد امریکہ میں اور سیون سیون کے بعد برطانیہ میں حکومت نے یہ واقعات دوبارہ نہیں ہونے دیے۔ حکمران گڈریوں کی طرح ہیں۔ اگر گڈریے کی موجودگی میں آئے دن بکریوں کو بھیڑیے اٹھا کر لے جائیں تو اس کے دو ہی مطلب ہوسکتے ہیں۔ یا گڈریا بھیڑیوں کے ساتھ ملا ہوا ہے یا گلّے کی پاسبانی کا اہل نہیں۔ اسی سرزمین پر شیرشاہ سوری ہوگزرا ہے جو ایک عام دیہاتی کے قتل پر بھی مجرم کو سزا دیے بغیر سوتا نہیں تھا۔ یہیں علائوالدین خلجی بھی تھا جو کم تولنے والے کے جسم سے اسی حساب سے گوشت کٹوا دیتا تھا۔ پنجاب سے سینکڑوں افراد اغوا ہوچکے ہیں۔ یا تو وزیراعلیٰ اس ظلم سے بے خبر ہیں یا وہ اغوا کی وارداتوں کو قابل توجہ نہیں گردانتے۔ چھ جولائی 2013ء کو ایک معروف انگریزی معاصر میں بتایا گیا ہے کہ ایک وقت میں کم از کم ایک ہزار اغوا شدہ افراد وزیرستان اور قبائلی علاقوں میں موجود ہوتے ہیں۔ لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور راولپنڈی کے شہر اغوا کرنے والوں کی جنت ہیں۔ پنجاب حکومت کی بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کے اغوا کے حوالے سے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے تین چار روز پہلے بیان دیا کہ گیلانی کے بیٹے کو اغوا کے بعد وزیرستان میں لے جایا گیا اور بھاری تاوان مانگا گیا لیکن تاوان کے ساتھ انہوں نے کچھ لوگوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا جو ممکن نہیں ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ علاقہ غیر میں مرکزی ایجنسیاں ہی ان سے رابطہ کرتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ صوبائی حکومت کیا کررہی ہے؟ تو کیا آپ اپنے لوگوں کو اغوا ہونے دیتے رہیں گے صرف اس لیے کہ وزیرستان آپ کے اختیار سے باہر ہے؟ بات پھر وژن کی آجاتی ہے۔ حالیہ برسوں میں وزیرستان اور قبائلی علاقوں کے سینکڑوں ہزاروں افراد اور خاندان ملتان سے لے کر لاہور تک اور فیصل آباد سے لے کر راولپنڈی تک ہر شہر میں آباد ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کا ثقافتی مزاج یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے سے انتہائی مربوط رہتے ہیں۔ کسی ایک شخص کے ساتھ کوئی مسئلہ ہو تو شہر میں اس کی زبان بولنے والے تمام افراد اس کی مدد کے لیے اکٹھے ہوجائیں گے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ وزیرستان کے جو لوگ پنجاب کے شہروں میں آباد ہوئے ہیں وہ اغوا کرنے والوں سے رابطے میں ہوتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ قبائلی ایک دوسرے کو جانتے بھی ہیں اور ایک دوسرے کا لحاظ بھی کرتے ہیں۔ اگر پنجاب حکومت اپنے شہروں میں رہنے والے معتبر قبائلی افراد پر مشتمل کمیٹیاں بنائے اور انہیں یہ احساس دلائے کہ اغوا کرنے والے وزیرستانی یا دوسرے قبائلی مجرم، ان سب لوگوں کے لیے مسائل پیدا کررہے ہیں جو وہاں سے ہجرت کرکے پنجاب میں آباد ہوئے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اغوا کنندگان ان کی بات پر کان نہ دھریں۔ صوبائی حکومت اغوا شدہ افراد کی برآمدگی کا کام ان معتبر لوگوں کے ذمہ لگائے۔ انہیں شائستگی کے ساتھ باور کرایا جائے کہ اگر آپ حضرات یہاں رہنا چاہتے ہیں تو اپنے قبائلی بھائیوں کو اس گھنائونے کاروبار سے روکیں۔ کمزور سے کمزور لوگ بھی برداشت نہیں کرتے کہ وہ ایک بھائی کو پناہ دیں اور دوسرا بھائی انہیں ہی نقصان پہنچائے۔ دریائے سندھ کے اس پار سے ہمارے بھائی ہمارے پاس آ کر رہ رہے ہیں اور انہیں کے اعزہ و اقارب اور ہم وطن ہمارے ہی لوگوں کو اغوا کرکے تاوان وصول کررہے ہیں اور صوبائی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ کیسا حُسنِ انتظام ہے؟ کیسا وژن ہے اور کس قسم کا احساس ذمہ داری ہے؟ گیلانی اور تاثیر کے بیٹوں کے اغوا کی خبریں اس لیے نمایاں ہوئی ہیں کہ ایک سابق وزیراعظم ہے اور دوسرا قتل ہوتے وقت صوبے کا گورنر تھا۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کے اطراف واکناف سے لوگوں کو یوں اٹھایا جارہا ہے جیسے ریوڑ سے بھیڑیں اٹھائی جاتی ہیں۔ یہ کالم نگار ایک ایسے نوجوان کو جانتا ہے جو ایک ترقی یافتہ ملک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہا ہے۔ وہ بہت آسانی سے وہاں کی شہریت لے سکتا تھا لیکن اسے واپس آ کر ملک کے کام آنے کا جنون تھا، اس لیے اس نے پاسپورٹ کے لیے درخواست تک نہ دی۔ کچھ عرصہ پہلے اس کے والد کو ،جو ایک باعزت منصب سے ریٹائر ہوئے تھے ،اغوا کرلیا گیا۔ کئی ہفتوں کی تگ و دو کے بعد تقریباً ایک کروڑ روپے تاوان دے کر انہیں چھڑوایا گیا۔ اس بوڑھے شخص کو غسل خانے میں ایک اور مغوی کے ساتھ رکھا گیا۔ دونوں کو ایک ہی زنجیر سے باندھا گیا۔ ٹوٹی ہوئی بوتل سے پانی پیتے تھے اور پینے کے لیے وہی پانی تھا جو رفع حاجت کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نے اس ملک میں واپس آنے اور رہنے سے توبہ کی ہے۔اس کا دوسرا بھائی جو یہاں ہے، میڈیکل کے ایک ایسے شعبے کا ماہرہے جس کے ماہرین ملک میں انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ وہ بھی اب بیرون ملک جانے کی تیاری کررہا ہے۔ وہ اپنے والدین کو بھی لے جارہے ہیں اور یہ ملک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ رہے ہیں۔ جس روح فرسا حادثے سے وہ گزرے ہیں، اس کے بارے میں وہ ہر بین الاقوامی فورم پر بات کریں گے۔ ان کی آئندہ نسلیں بھی لوگوں کو بتائیں گی کہ ان کی ہجرت کا کیا سبب تھا۔ سرکاری خزانے سے سینکڑوں محافظ اپنے محلات پر تعینات کرنے والوں کو اندازہ ہی نہیں کہ حب الوطنی کی جڑوں پر رات دن کلہاڑے پڑ رہے ہیں۔ وطن ایک پھول ہے لیکن اگر پھول سے خوشبو کی بجائے آنچ آنے لگے تو پھول ہاتھ سے گرا دیا جاتا ہے۔ میاں شہبازشریف انتھک کام کرنے والے حکمران ہیں لیکن افسوس! رعایا پر جو کچھ گزر رہی ہے، اس سے وہ آگاہ نہیں یا تغافل برت رہے ہیں۔ وہ اگر شیرشاہ سوری اور علائوالدین خلجی نہیں بن سکتے تو ازراہِ کرم قائم علی شاہ بھی تو نہ بنیں! پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن ،اپنا تو بن