پانچ برس قصر صدارت میں مکمل کرنے پر صدر آصف زرداری کے بارے میں اجماع یہ ہے کہ سیاسی چالوں میں ان کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔دوسرے لفظوں میں وہ کامیاب ترین سیاست دان ہیں۔اس اجماع میں قوم کا ہر طبقہ شامل ہے۔عام آدمی سے لے کر کروڑ پتی اینکر حضرات تک اور قلم کار صحافیوں سے لے کر زبانی جمع خرچ کرنے والے تجزیہ کاروں تک ہر شخص یہی رائے دیتا ہے کہ سیاسی شطرنج میں زرداری صاحب کو کوئی مات نہیں دے سکتا۔وہ ایسی ایسی چالیں چلے کہ پیادے وزیراعظم بن گئے اور پارٹی کے مانے ہوئے دانشور چوبدار ہوکر دروازوں پر آکھڑے ہوئے۔ لیکن ساری کامیابیوں کے باوجود صدر آصف زرداری اتنی ہمت نہ کرسکے کہ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات سے انکار کرکے اپنے آپ کو فرشتہ کہتے ،نہ ہی انہوں نے انقلاب کے نعرے لگاکر لینن بننے کی کوشش کی۔زیادہ سے زیادہ یہ کہتے رہے کہ لگائے گئے الزامات کا ثبوت کوئی نہیں اور یہ کہ استثنا حاصل ہے۔اس نکتہ نظر سے دیکھیں تو صدر آصف زرداری کامیابی کی چوٹی پر نہ پہنچ سکے اور چند میٹر نیچے ہی پڑائو ڈال دیا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ ان کے مقابلے میں کامیابی کی بلند ترین چوٹی پر پہنچے ہیں۔یوں تو ان میں بے شمار خوبیاں ہیں۔بیس بیس وزیروں کا کام اکیلے کرلیتے ہیں ۔کچھ کھائے پیئے بغیر پورا پورا دن سفر میں گزار دیتے ہیں ۔پارٹی کی بساط پر ایسی چال چلتے ہیں کہ ان کے جواں سال صاحبزادے سفید سروں والے گرگ ہائے باراں دیدہ سے آگے نکل گئے ہیں ۔دانش سکولوں کی مہم اس کامیابی سے چلائی ہے کہ پنجاب بھر میں سسکتے بلکتے ادھ موئے سرکاری سکولوں کی بات ہی کوئی نہیں کرتا۔ منڈی میں لیپ ٹاپ کم ہونے لگے اور بزنس ٹھپ ہونے لگا تو لیپ ٹاپ سرکاری خرچ پر اس دریا دلی سے بانٹے کہ دکانیں لیپ ٹاپوں سے بھر گئیں۔ جنہیں لیپ ٹاپ دیے گئے تھے انہیں نقد رقم مل گئی اور جو تاجر مکھیاں مار رہے تھے ، سرکھجانے کی فرصت سے بھی محروم ہوگئے۔ لیکن ایک کارنامہ جناب شہبازشریف کا ایسا ہے کہ وہ اپنے ہم عصروں سے اور اپنے طبقے کے دوسرے امرا سے کوسوں آگے نکل گئے ہیں۔ وہ یہ کہ اپنا طبقہ تبدیل کیے بغیر وہ اپنے طبقے کے خلاف بولتے ہیں اور انقلاب کا نعرہ یوں لگاتے ہیں کہ گزشتہ صدی کی تیسری دہائی کے بالشویک قبروں میں اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں ،تیور دیکھیے: ’’ آج غریب کا پاکستان اور ہے اور امیر کا اور ہے۔کیا پاکستان اس لیے حاصل کیاگیا تھا کہ وسائل لوٹنے والے معزز کہلائیں اور عام اور غریب آدمی بنیادی سہولتوں سے محروم رہے۔اگر ہم نے اصلاح نہ کی تو خونی انقلاب ہمارے دروازوں پر دستک دے رہا ہے…‘‘ ہم شہبازشریف سے لاکھ اختلاف کریں لیکن جو حقیقت انہوں نے بیان کردی ہے اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ غریب کا پاکستان اور ہے اور امیر کا اور ہے۔ وسائل لوٹنے والے معزز کہلارہے ہیں ۔ آپ عہد اقتدار کو چھوڑ دیجیے۔ یہ دیکھیے کہ جب حکمران خاندان بظاہر اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو ملک کے وسائل کس طرح ان پر ’’قربان‘‘ ہوتے ہیں۔یہ سال رواں کے اپریل مئی کی بات ہے۔ نجم سیٹھی پنجاب کے حاکم اعلیٰ تھے ۔ پنجاب ایلیٹ فورس کے تین سو سترہ کمانڈوز شریف خاندان کی حفاظت پر مامور تھے اور تنخواہ سرکاری خزانے سے لیتے تھے ۔ ایک سابق وزیراعلیٰ کو قانون کی رُو سے آٹھ محافظ ملنے چاہئیں لیکن شہبازشریف صاحب نے پچانوے یعنی پانچ کم سو گارڈ اپنی قیمتی جان کی حفاظت کے لیے رکھے ہوئے تھے ۔ایک سابق وزیراعظم کو یہ بھوکی ننگی قوم اپنا پیٹ کاٹ کر زیادہ سے زیادہ بارہ محافظ مہیا کرسکتی ہے لیکن بڑے میاں صاحب کی حفاظت کے لیے ایک سو جوان مامور تھے اور پانچ سال مامور رہے۔مریم نواز شریف اور ان کے شوہر ریٹائرڈ کیپٹن صفدر کی حفاظت بارہ گارڈ کررہے تھے ۔ حمزہ شہبازشریف کے لیے ایلیٹ فورس کے پندرہ کمانڈو جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے تھے ۔ان کے چھوٹے بھائی سلمان شہباز کی حفاظت کا شرف سات کمانڈوز کو حاصل تھا۔ ابھی فہرست تمام نہیں ہوئی۔ شہباز شریف صاحب کی پہلی بیگم نصرت شہباز کے لیے بارہ محافظ وقف تھے جب کہ زوجہ ثانی تہمینہ شہباز کے محل پر 30 گارڈ پہرہ دے رہے تھے ۔شہبازشریف کی صاحبزادی اور داماد کی حفاظت کے لیے سات سرکاری ملازم پہریدار مقرر تھے ۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ پانچ سال کے دوران اس خاندان کی حفاظت پر سرکاری خزانے سے دو ارب روپے خرچ کیے جاچکے ہیں۔ غریب کی بے بسی اس وقت دیکھنے کے قابل ہوتی ہے جب ایک شخص جو ملک کے چند امیر ترین افراد میں شمار ہوتا ہے، غریب کے پاکستان کا رونا روتا ہے۔ وسائل لوٹنے والوں کی مذمت کرتا ہے اور وہ اور اس کا خاندان ساتھ ساتھ یہ کارِ خیر جاری بھی رکھے ہوئے ہیں۔ چند ہفتے ہوئے حمزہ شہباز سستے بازار کا معائنہ کرنے شیخوپورہ گئے تو ہیلی کاپٹر سے گئے اور اترے تو تقریباً دو درجن کاروں کا جلوس تیار تھا۔ ان کے پاس پنجاب حکومت کا کوئی عہدہ نہیں ۔ یہ کون پوچھے اور کس سے پوچھے کہ کیا ہیلی کاپٹر کا خرچ انہوں نے اپنی جیب سے ادا کیا اور یہ کہ وہ کس حیثیت سے وہاں گئے جب کے سرکاری عمال اپنے فرائض منصبی چھوڑ کر ان کے پروٹوکول میں لگے ہوئے تھے ۔ آصف زرداری نے پانچ سال سیاسی جماعتوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا۔ فوج کے ساتھ بھی بناکر رکھی اور امریکہ کو بھی مٹھی سے نکلنے نہ دیا لیکن اس نسخہ کیمیا کا ،جو شہبازشریف کی بیاض سے نکلا ہے ،سوچ بھی نہیں سکے ۔ شہبازشریف کے سامنے ان کی حیثیت طفل مکتب کی ہے !