نہیں! یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور جو اسے اہم نہیں گردانتے، غلطی پر ہیں۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہمیں اللہ نے اسلام کی دولت سے نوازا ہے‘ مغرب اس سے محروم ہے اور اس میں شک ہی کیا ہے! ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم خدا کے آخری رسولؐ کے ماننے والے ہیں۔ ہمارے پاس قرآن پاک کی نعمت ہے اور رسول خداﷺ کے فرامین ہمارے لیے مقدس ہیں۔ کیا یہ خدا کا احسان نہیں کہ ہم کسی پتھر کے بت کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوتے، کسی مندر میں بھجن نہیں گاتے‘ کسی پیغمبر کو خدا کا بیٹا نہیں کہتے۔ اس نعمت کے باوجود‘ اس دولت کے باوجود ہم مغرب سے پیچھے کیوں ہیں؟ ہم کثیر تعداد کے باوجود بھیڑ بکریوں کے گلّے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ کیوں؟ ہم پر دنیا اعتبار نہیں کرتی۔ ہمیں خلق خدا اس قابل نہیں سمجھتی کہ بلا کھٹکے ہم سے تجارت کرے۔ ہم جو کچھ کہتے ہیں، غیر ملکی سفارت خانے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ الگ سے جانچ پڑتال کرتے اور کراتے ہیں۔ ہمیں ہر کوئی شک کی نظروں سے دیکھتا ہے۔ آخر اسلام ہماری زندگیوں میں کیوں نظر نہیں آتا؟ یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے۔ معاملے کا ایک اور پہلو سامنے آتا ہے۔ ہم میں سے کچھ وہ ہیں جو کسی نہ کسی مذہبی تنظیم سے وابستہ ہیں۔ ہمارے ہاں الحمدللہ کئی مذہبی تنظیمیں کام کررہی ہیں۔ جماعت اسلامی کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کی تربیت کرتی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام ہے۔ جمعیت علمائے پاکستان ہے۔ دعوت اسلامی ہے۔ تبلیغی جماعت ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی تنظیم اسلامی ہے۔ اہل حدیث حضرات اور شیعہ برادری کی اپنی اپنی تنظیمیں ہیں۔ جید علمائے کرام ان تنظیموں کی رہنمائی فرما رہے ہیں۔ ان تمام مذہبی تنظیموں کے ارکان اور کارکن اپنی اپنی تنظیموں کو اپنی زندگیوں میں سے اچھا خاصا وقت دیتے ہیں۔ شب و روز وہاں گزارتے ہیں۔ تربیتی کیمپ منعقد کیے جاتے ہیں۔ شب بیداریاں اور چلّے ہیں۔ شہر شہر قصبہ قصبہ، قریہ قریہ وفود جاتے ہیں۔ مذہبی جلسوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ ہزاروں کا اور کبھی کبھی لاکھوں کا مجمع ہوتا ہے۔ علماء کے مواعظ کو ہمہ تن گوش ہو کر سنا جاتا ہے۔ فرط جذبات سے سننے والوں کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ تو کیا اپنی روز مرہ زندگیوں میں یہ حضرات ان لوگوں سے مختلف ہیں جو کسی مذہبی تنظیم سے وابستہ نہیں؟ افسوس صد افسوس! جواب نفی میں ہے۔ یہی وہ المیہ ہے اور یہی وہ خون رُلانے والی ٹریجڈی ہے جو اس تحریر کا موضوع ہے۔ مذہبی گروہوں سے وابستہ افراد کی اکثریت زندگی کے معاملات میں اسلامی تقاضوں سے اتنی ہی بے نیاز ہے جتنے وہ لوگ جو بظاہر مذہب سے لاتعلق ہیں۔ بہت ہی قلیل تعداد، حد سے زیادہ قلیل تعداد ہے ایسے لو گوں کی جن کی زندگیوں میں اسلام عبادات و اذکار سے آگے بڑھ کر پایا اور معاملات میں در آیا۔ کوئی سا شعبہ اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ ٹریفک کے قوانین، خوراک اور ادویات میں ملاوٹ، دکانوں کے سامنے تجاوزات‘ ٹیکس کی ادائیگی، پڑوسیوں کے ساتھ سلوک، اعزہ و اقربا کے ساتھ صلہ رحمی‘ دفاتر میں وقت کی پابندی، سائل کے ساتھ سلوک، تنخواہ کی ایک ایک پائی کو حلال کرنے کی فکر‘ سفر کرتے وقت آداب کا خیال تاکہ دوسرے مسافروں کو اذیت نہ پہنچے، وعدے کی پابندی، معاملہ طے کرکے نبھانا۔ ان سب اور عملی زندگی کے بے شمار دوسرے سلسلوں میں‘ سرسری طور پر دیکھنے سے ہی حقیقت منکشف ہوجاتی ہے کہ مذہبی تنظیموں میں پوری پوری عمریں گزارنے والے اصحاب کا رویہ بھی کم و بیش وہی ہے جو بظاہر غیر مذہبی افراد کا ہے! انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ہم تسلیم کرلیں کہ ہماری مذہبی تنظیموں میں عبادات و اذکار پر جتنی توجہ دی جاتی ہے، اتنی زندگی کے عملی معاملات پر نہیں دی جاتی۔ اگر اس نکتے کو تسلیم کر لیا جائے‘ اگر ہماری قابل احترام مذہبی تنظیمیں اپنے اپنے پروگراموں میں، نصاب میں، تربیتی روز و شب میں مناسب تبدیلیاں لے آئیں‘ اگر حقوق العباد کو عبادات و اذکار جتنی اہمیت دی جائے تو ہماری زندگیوں میں انقلاب آجائے گا۔ دنیا ہم پر اعتبار کرے گی۔ اگر کسی کو معلوم ہوگا کہ یہ شخص کسی اسلامی تنظیم، کسی مذہبی جماعت سے وابستہ ہے تو وہ آنکھیں بند کرکے اعتماد کرے گا کہ یہ شخص کسی حال میں جھوٹ نہیں بولے گا‘ ہر صورت وعدہ ایفا کرے گا‘ کم تولنے کا سوچ ہی نہیں سکتا، ایک ایک پائی ٹیکس دے گا‘ نقصان برداشت کرلے گا، لیکن خوراک میں ملاوٹ نہیں کرے گا‘ جعلی دوا نہیں فروخت کرے گا‘ دفتر وقت پر پہنچے گا، سائل کو احترام سے اٹینڈ کرکے فوراً اس کا مسئلہ حل کر گا‘ پڑوسی کو خوش کرنے کے لیے ہر قربانی دے گا۔ آخر اس شخص کا اسلام محض نماز، ذکر، تسبیح خوانی اور چلّے تک محدود نہیں، اسلام تو اس کے ایک ایک عمل میں موجود ہے۔ یہ المیہ اس وقت زیادہ دردناک ہوجاتا ہے جب مذہبی تنظیموں سے وابستہ افراد، عملی زندگی میں اپنے ارکان کے غیر اسلامی رویے کا ذمہ دار سو سائٹی اور نظام کو قرار دیتے ہیں اور یہ دلیل دیتے ہیں کہ جن جن ملکوں میں نظام ، سسٹم، مضبوط ہے اور حکومتی عملداری قائم ہے وہاں معاملات درست چلتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ وغیرہ اچھے نہیں ہیں لیکن نظام کے رو بہ عمل ہونے کی وجہ سے وہاں اس قسم کی شکایتیں نہیں ہوتیں! بس یہی وہ دلیل ہے، یہی وہ انداز فکر ہے جو ہماری اصلاح کے آڑے آرہا ہے۔ حضرت! میں نے اگر دیانت و امانت صرف اسی صورت میں اپنانی ہے جب امریکہ اور برطانیہ جیسا قانون مجھے اپنی گرفت میں لے گا تو پھر مجھے کسی مذہبی تنظیم سے وابستہ رہنے کی کیا ضرورت ہے؟ پھر مجھ میں اور مذہب سے بے نیاز شخص میں فرق ہی کیا ہے؟ مزہ تو تب ہے جب میں ٹیکس انسپکٹر کو بتائوں کہ تمہارا حساب غلط ہے‘ میرا ٹیکس زیادہ بنتا ہے۔ میرا باس مجھے کہے یا نہ کہے، میں ڈیوٹی پر بروقت پہنچوں اور اپنا کام اس لیے تندہی سے کروں کہ میری تنخواہ، میری ہڈ حرامی کی وجہ سے ناجائز نہ ہوجائے۔ میں جعلی دوا لانے والے ڈسٹری بیوٹر کو کہہ دوں کہ آئندہ میری دکان میں قدم نہ رکھے۔ میں ووٹ ڈالتے وقت یہ سوچوں کہ کل مجھے جواز پیش کرنا ہوگا کہ فلاں کو ووٹ کیوں دیا تھا۔ یہ سب کچھ میں اس لیے نہ کروں کہ مجھے قانون اور پولیس کا خوف ہے۔ اس لیے کروں کہ جس مذہبی تنظیم سے وابستہ ہوں، اس نے مجھے تبدیل کردیا ہے۔ آئیے، دعا کریں کہ ایسے ہوجائے!