جہاز پر سوار ہونے کے لیے ہم قطار میں کھڑے تھے ۔ کراچی سے اسلام آباد آنے کے لیے اس جہاز پر نشست ملی تھی جس کے زیادہ تر مسافر دبئی سے آرہے تھے۔ ناخواندہ اور نیم خواندہ محنت کش ۔ جوشخص میرے آگے تھا، اس نے کندھے پر پیڈسٹل پنکھا رکھا ہوا تھا ۔ میں نے اسے کہا کہ پنکھے تو پاکستان میں بہت اچھے بن رہے ہیں۔ اس نے فوراً تصحیح کی۔’’لیکن یہ فارن کا ہے۔‘‘ یہ کئی سال پہلے کی بات ہے ۔ اس زمانے میں باہر سے ٹو ان ون (ٹیپ ریکارڈر اور ریڈیو) ، وی سی آر، کراکری اور کٹلری لانے کا رواج تھا۔ یہ رجحان پاکستان میں ہمیشہ سے تھا اور آج بھی ہے۔ آج بھی کپڑے کے تاجر کپڑا پاکستان کے کارخانوں میں بنواتے ہیں اور ٹھپا اس پر کوریا یا جاپان کا لگواتے ہیں۔ اس احساس کمتری میں ہمارے تجربہ کار اور جہاں دیدہ حکمران بھی اسی طرح مبتلا ہیں جس طرح دبئی میں کام کرنے والے محنت کش۔ پنجاب کی حکومت نے ترکی سے پولیس افسر منگوائے ہیں جو دہشت گردی اور جرائم ختم کرنے کے لیے سفارشات مرتب کررہے ہیں۔ لاہور کے پولیس ہیڈکوارٹر میں پاکستانی پولیس افسر ان مہمانوں کی خدمت پر مامور ہیں ! سفارشات ؟؟کیا مہمان پولیس افسروں کے پاس آسمان سے نئے نئے اترے ہوئے طریقے ہوں گے جو ہماری اپنی پولیس کو نہیں معلوم ؟؟اللہ کے بندو!اگر تمہارے سروں کے اندر دماغ ہیں تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہاں ’’سفارشات‘‘ کی کمی نہیں، آزادیٔ کارکی کمی ہے اور سیاسی مداخلت ہے جو پولیس کو کچھ نہیں کرنے دے رہی۔ اگر نتیجہ چاہتے ہو تو ترک پولیس افسران کو فیلڈ میں کام کرنے دو۔ یہ تم کبھی بھی نہیں کرو گے کیونکہ غیرملکی پولیس افسر سیاسی مداخلت پر ایک ہی جواب دیں گے۔ ’’نہیں، جناب، یہ نہیں ہوسکتا، آپ اپنا کام کیجیے، ہمیں اپنا کام کرنے دیجیے۔‘‘ پاکستانی پولیس افسر کو تو تم فوراً لاہور یا راولپنڈی سے اٹھاکر بہاولنگر یا جنڈ بھیج دوگے ۔ ترک پولیس افسروں کا کیا کرو گے ؟ ’’سفارشات‘‘ ؟ پاکستان میں سفارشات کی کمی ہے نہ قوانین کی۔ ایک سے ایک قانون موجود ہے۔ جوبات چاک گریباں دیوانے کو بھی معلوم ہے لیکن حکمرانوں کو نہیں معلوم‘ یہ ہے کہ قوانین کو نافذ کوئی نہیں کرنے دیتا۔ سرکاری تعمیراتی قوانین اس کی بہترین مثال ہیں۔ ایم ای ایس اور پی ڈبلیو ڈی دوایسے محکمے ہیں جو سرکاری عمارتیں بناتے ہیں۔ آپ تقسیم سے پہلے کی بنی ہوئی سرکاری عمارتیں دیکھ لیجیے اور آج کی بنی ہوئی عمارتیں دیکھ لیجیے۔ زمین وآسمان کا فرق ہے لیکن قوانین (Rules) کی کتابیں وہی ہیں ! جس زمانے میں ان قوانین پر عمل ہوتا تھا، لاہور ریلوے سٹیشن، جی پی او، گورنمنٹ کالج اور اولڈ کیمپس جیسی عمارتیں بنتی تھیں۔ جو آج کل ہورہا ہے، لکھنے والوں کو بھی معلوم ہے اور پڑھنے والوں کو بھی۔ ترکی سے نہیں، مریخ سے پولیس افسروں کو منگواکر دہشت گردی اور کرپشن ختم کرانے کی ’’سفارشات‘‘ مرتب کروالیجیے، ان سفارشات پر سیاسی جماعتیں کبھی بھی عمل پیرا نہیں ہونے دیں گے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے منہ کو خون کی چاٹ لگ چکی ہے۔ پاکستان کے پولیس افسروں کی تعیناتی کی فہرستیںمرتب کی جائیں تو یہ ایک مضحکہ خیز اور شرم ناک دستاویز ہوگی۔ کسی کو تین ماہ بعد ہٹادیا گیا، کسی کو چھ ماہ بعد اور کسی کو پندرہ دن بعد۔ سیاسی مداخلت اس ملک کی جڑوں پر کلہاڑا چلارہی ہے۔ کوئی ایک سیاسی جماعت بھی مستثنیٰ نہیں۔ جو سیاسی جماعتیں مذہبی عبائیں اوڑھے ہوئے ہیں، ان کی مداخلت بھی کم نہیں۔ نیک نام اور دیانت دار بیوروکریٹ آپ بیتیاں لکھیں تو اہل پاکستان کو کچھ پتہ بھی چلے۔ یہاں زیادہ تر جن اصحاب نے قلم اٹھایا وہ خود کان نمک کا حصہ رہے۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ سلمان فاروقی خودنوشت لکھ رہے ہیں۔ سبحان اللہ! سبحان اللہ ! اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے میں سیاسی بنیادوں پر لائے گئے 45اہلکاروں کو نکالنے کا حکم دیا ہے۔ ایف سی کے ایک سو دس اہلکار ان معززین کی حفاظت پر مامور رہے جو اس ’’سہولت‘‘ کے حقدار ہی نہیں تھے۔ صرف گزشتہ مالی سال میں اسی غلط بخشی پر چارکروڑ ساٹھ لاکھ روپے قومی خزانے سے غارت گئے۔ آخر سیاست دان اور سیاسی جماعتیں محکموں کو، افسروں اور اہلکاروں کو، سرکاری نظام کو اپنا کام کیوں نہیں کرنے دیتیں؟ سیاست دانوں پر اس وقت گھڑوں پانی پڑنا چاہیے تھا جب برطانوی وزیراعظم کے حالیہ دورۂ پاکستان میں الطاف حسین کی ممکنہ گرفتاری کے بارے سوال کیا گیا تو ان کا ایک ہی جواب تھا: برطانوی پولیس خودمختار ہے اور حکومت اسے کچھ نہیں کہہ سکتی! پطرس نے لکھا ہے کہ مرزا کی بائیسکل کا ہرپرزہ بجتا تھا سوائے گھنٹی کے۔ ہمارے منتخب نمائندے قانون سازی کے علاوہ ہرکام کرتے ہیں۔ مقامی حکومتوں سے انہوں نے نالیاں پکی کرانے کا کام لے لیا اور سرکاری محکموں سے بھرتیاں تبادلے اور ترقیاں اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ ان حضرات کو اس سے کچھ غرض نہیں کہ ملک لاقانونیت کے جنگل میں تبدیل ہوچکا ہے۔ صرف پنجاب میں ڈاکوئوں اور اغوا برائے تاوان کے دوسو سے زیادہ گروہ کام کررہے ہیں۔ آٹھ ہزار سے زیادہ افراد ان میں ملوث ہیں۔ صوبے میں گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران اغوا ڈکیتی اور چوری کی ایک لاکھ نو ہزار وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ سات ماہ میں ڈکیتی کی ڈیڑھ ہزار، راہزنی کی گیارہ ہزار، سٹریٹ کرائم کی آٹھ ہزار، موٹرسائیکل چوری کی بارہ ہزار، کار چوری کی چارہزار اور قیمتی سامان چوری کی سولہ ہزار وارداتیں ہوئیں اور یہ صرف وہ تعداد ہے جو ریکارڈ کی گئی۔ آج اگر پولیس کا سربراہ کسی دیانت دار شخص کو لگاکر اسے یقین دلایا جائے کہ تم تین سال تک اسی کام پر مامور ہو تم اپنے کام میں اور اپنے افسروں اور اہلکاروں کی تعیناتیوں اور تبادلوں میں مکمل طورپر خودمختار ہو اور تم بڑی سے بڑی سفارش کو ردکرسکتے ہو۔ اس کے نتیجہ میں سوفی صد ضمانت دی جاسکتی ہے کہ چھ ماہ میں جرائم سو سے تیس تک آجائیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ خودمختاری مل سکتی ہے ؟ پنجاب کے میدان جون میں برف باری سے اٹ سکتے ہیں۔ سکردو کے باشندے دسمبر کی راتیں صحن میں گزارسکتے ہیں۔ کسان ہل چلانے کے لیے بیلوں کے بجائے مرغیاں جوت سکتے ہیں لیکن ہمارے حکمران دوست نوازی (Cronyism) سے باز نہیں آسکتے۔ وفاقی حکومت نے ریٹائرڈبیوروکریٹ جناب خواجہ ظہیر کو مشیر تعینات کرکے وفاقی وزیر کا درجہ دیا ہے۔ خواجہ صاحب نیک نام بھی ہوں گے اور خوش کردار بھی، لیکن وزیراعظم کی خدمت میں کوئی یہ بھی عرض کرتا کہ ایک مخصوص علاقائی پٹی سے پہلے ہی پندرہ وفاقی وزیر لیے جاچکے ہیں۔ خواجہ صاحب سولہویں ہوں گے۔ ٹیلنٹ کی کہیں بھی کمی نہیں۔ اس نئی تعیناتی کی اگر فی الواقع ضرورت تھی تو کسی اور صوبے سے کوئی فرد لے لیا جاتا۔ وہ اگر خواجہ صاحب سے زیادہ نہیں تو کم لائق بھی نہ ہوتا۔ اس کالم نگار کی ناقص معلومات کی روسے چترال دیر سوات پشاور مردان کوہاٹ اور فاٹا سے کوئی وفاقی وزیر نہیں لیا گیا (اگر یہ غلط ہے تو لکھنے والا اپنی تصحیح کا طالب ہے ) بات ترکی کے پولیس افسروں سے چلی تھی۔ پاکستان کی افرادی قوت ، دنیا کے کسی خطے کی افرادی قوت سے ذہانت اور لیاقت میں کم نہیں۔ سوال یہ ہے ہم اپنے افسروں اور اہلکاروں کو کس نیت سے استعمال کررہے ہیں۔ حسن نیت ہو تو ایک آنسو بہت ہے۔ ورنہ دعاہائے سحری بھی بیکار ہیں۔ رئوف امیرؔ مرحوم نے کہا تھا ؎ شہر سارا تلاوت میں مصروف ہے ایک پتہ بھی ہلتا نہیں ہے مگر یہ سنا ہے کہ پہلے کسی شخص نے محض کلمہ پڑھا اور ہواچل پڑی