جعفر طاہر کمال کے شاعر تھے۔بسیار گو ، لیکن بلند مرتبہ اور قادرالکلام ۔قدر اللہ شہاب کی سرپرستی میں ’’ ہفت کشور‘‘ تصنیف کی جو سات مسلم ممالک کا منظوم تذکرہ ہے۔یہ ایک معرکہ آرا کتاب ہے جو ہماری قومی جہالت اور ناقدری کا شکار ہوکر طاق نسیاں پر دھری رہ گئی ہے۔جن کتابوں پر پہلے پہل آدم جی ایوارڈ ملا ، یہ کتاب ان میں سے ہے۔اس کا انتساب انہوں نے شہاب کے نام کیا اور ساتھ یہ مصرع لکھا ع آں مہرباں کہ آبروئی ہفت کشور است اسی میں پاکستان کے بارے میں ان کی طویل بحر والی معرکہ آرا غزل نما نظم ہے جس کا ایک مصرع یوں ہے ع گل و گزار کے اورنگِ ہمہ رنگ پہ یہ نغمہ و آہنگ مرے جھنگ و تلاگنگ کی بہتی ہوئی لَے جعفر طاہر کا تعارف اس واقعہ کے ضمن میں کرانا پڑا جو بتانا مقصود ہے۔ایک زمانے میں وہ مری میں قیام پذیر تھے ۔ ترنگ میں آکر دوستوں سے ، جو شاعر اور ادیب تھے ،وعدہ کیا کہ فلاں دن وہ دعوت کا اہتمام کررہے ہیں۔شوق کو مہمیز لگانے کے لیے دعوت کی تفصیل بھی بیان کی ۔مسلّم بکرا روسٹ کیاجائے گا۔بکرے کے اندر بکری کا چھوٹا بچہ ہوگا۔بکری کے بچے کے اندر مرغ ہوگا۔مرغ کے اندر انڈے ہوں گے۔اس کے علاوہ مسلّم بکرے کے اندر چاول ، خشک میوے اور مغزیات بھی ڈالے جائیں گے۔ہر دوست سے انہوں نے الگ الگ بات کرکے باقاعدہ مدعو کیا لیکن افسوس ! مقررہ دن اور مقررہ وقت پر جب سب لوگ پہنچے تو جعفر طاہر کی رہائش گاہ پر تالہ لگا ہوا تھا اور میزبان کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ یہ واقعہ دو دن بیشتر ایبٹ آباد میں یاد آیا۔اگر ہماری قومی نااہلی ، بے حسی ، بے شرمی، ڈھٹائی اور ہڈ حرامی کا اندازہ ایک نظرمیں کرنا ہو تو ایبٹ آباد اس کی بہترین مثال ہے۔ہر حکومت وعدے کرتی رہی۔کبھی یہ دعویٰ کیاگیا کہ چین تک ریل چلائیں گے۔کبھی یہ ڈینگ ماری گئی کہ وسط ایشیا کو اس راستے سے گرم پانیوں تک رسائی دیں گے۔کبھی یہ بڑ ہانکی گئی کہ شاہراہ ریشم جدید دنیا میں وہی کردار ادا کرے گی جو ازمنہ وسطیٰ میں پوری دنیا کی تجارت کے لیے کررہی تھی… لیکن عملی طور پر حالت یہ ہے کہ سفید فام آقا حویلیاں تک پٹڑی بچھا کر…ریل چلاکر…ہمارے حوالے کرگئے تھے۔حویلیاں سے ایبٹ آباد دس کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔چھیاسٹھ سال ڈینگیں مارتے ،بڑہانکتے ، دعوے کرتے گزر گئے لیکن ہم حویلیاں سے ایبٹ آباد ریل نہ پہنچا سکے۔ایبٹ آباد ہمارے بڑے شہروں میں سے ہے۔کل پرسوں الگ صوبہ بنا تو یہ صوبائی دارالحکومت بھی بن سکتا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حسن ابدال سے ایبٹ آباد تک آج دو رویہ شاہراہ ہوتی ،لیکن عملی طور پر یہ سفر پریشانی ، تأسّف ، بدانتظامی، افراتفری اور لاقانونیت کا دوسرا نام ہے۔ایبٹ آباد کے اندر داخل ہونے والی سڑک پر گاڑی چلانا جان جوکھوں کا کام ہے۔یہی وہ شاہراہ ہے جو شاہراہ ریشم کا دروازہ ہے۔یہی وہ راستہ ہے جو چین تک جاتا ہے۔ یہیں سے دنیا بھر کے سیاح اور کوہ پیما فلک بوس چوٹیوں کو چومنے کے لیے سفر کا آغاز کرتے ہیں اور بدقسمتی سے یہیں سے معلوم ہوجاتا ہے کہ مسلّم بکرے کے اندر میمنا ، پھر مرغ ، پھر انڈا اور بریاں چاول تو کیا ہوں گے ،دروازے پر لٹکتا ہوا آہنی قفل ، مہمانوں کا منہ چڑا رہا ہے۔ گزشتہ چالیس برسوں کے دوران شاید ہی کوئی ایسا سال گزرا ہو جس کے دوران ایبٹ آباد کم از کم دو دفعہ جانا نہ ہوا ہو۔ کیا شہر ہے اور کیا اسکی ہوا ہے۔کیا محل وقوع ہے اور کیا کوہستانی حصار ہے جو قدرت نے اس کے گرد کھینچا ہے۔ایک طرف سربن کا وہ پہاڑ ہے جس کے بارے میں اقبال ؔنے اپنے قیام ایبٹ آباد کے دوران کہا تھا ؎ اُٹھی پھر آج وہ پُورب سے کالی کالی گھٹا سیاہ پوش ہوا پھر پہاڑ سربن کا ہوا کے زور سے اُبھرا، بڑھا، اُڑا بادل اُٹھی وہ اور گھٹا ، لو ، برس پڑا بادل عجیب خیمہ ہے کُہسار کے نہالوں کا یہیں قیام ہو وادی میں پھرنے والوں کا دوسری طرف وہ راستہ ہے جو قراقرم کی طرف جاتا ہے اور دنیا کے خوبصورت ترین راستوں میں سے ہے۔مانسہرہ ، شنکیاری ، ڈاڈر ، اور بٹراسی جاتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ قدرت نے پاکستان کے حق میں اپنی فیاضی کے دروازے پورے کھول دیے ہیں۔میجر ایبٹ نے یونہی تو نہیں کہا تھا ؎ I REMEMBER THE DAY WHEN I FIRST CAME HERE AND SMELT THE SWEET ABBOTTABAD AIR نظم کے آخر میں ایبٹ رو کر کہتا ہے I BID YOU FAREWELL WITH A HEAVY HEART NEVER FROM MY MIND WILL YOUR MEMORIES THWART آج خوبصورت ایبٹ آباد بے بسی کی تصویر ہے۔لالچ کے خونی پنجے اس کے نازک جسم میں گڑ چکے ہیں۔لینڈ مافیا اسے نوچ رہا ہے۔ درخت کٹ رہے ہیں ، پہاڑیاں کھودی جارہی ہیں۔کراچی سے لے کر لاہور تک ،پشاورسے لے کر بنوں تک ،سوات سے لے کروزیرستان تک ،مزار شریف سے لے کر کابل تک کے لوگ یہاں آکر آباد ہورہے ہیں۔اس کی پاکیزہ فضا دھوئیں ، شورو غوغا اور گاڑیوں سے نکلتی آگ کی وجہ سے مسموم ہورہی ہے۔جہاں قدرتی حسن تھا وہاں ہر طرف پلازے، دکانیں ، کھوکھے اور ریڑھیاں ہیں۔منصوبہ بندی ہے نہ تنظیم ، ٹریفک یوں ہے جیسے گاڑیاں نہیں گھوڑے ، خچر اور بیل گاڑیاں چل رہی ہیں۔تھوڑا سا حصہ جو لالچ اور بد انتظامی سے بچا ہوا ہے، اس کا سہرا فوج کے سر ہے ورنہ وہاں بھی دکانیں اور ٹکسال لگ چکے ہوتے۔آپ اندازہ لگائیے کہ شملہ پہاڑی جو قدرت کا بیش بہا عطیہ ہے ، کوڑے دان میں تبدیل ہوچکی ہے ۔ ہم پاکستانی اتنے ’’ عظیم ‘‘ ہیں کہ شملہ پہاڑی کی چوٹی پر کوئی درخت ، کوئی بنچ ایسا نہیں جس پر نام نہ کھدے ہوں اور ایڈریس نہ لکھے ہوں ع ثبت است بر جریدۂِ عالم دوامِ ما دوسری قوموں نے اپنے نام ایجادات اور دریافتوں سے زندہ رکھے ہیں۔کسی نے دنیا کو پنسلین کا تحفہ دیا ، کسی نے برقی روشنی کا ، کسی نے ریل بنائی ،کسی نے انٹرنیٹ اور کسی نے موبائل فون … جس کے بغیر آج ہمارے خاکروب کا گزارا بھی نہیں ہوتا … لیکن ہم چونکہ انسانیت کو کچھ نہیں عطا کرسکے اس لیے نام زندہ رکھنے کی ایک ہی صورت ہے کہ شاپنگ بیگ ، چپس کے ٹکڑے ، خالی ڈبے اور ٹوٹی ہوئی بوتلیں سیر گاہوں میں ادھر ادھر بکھیر کر ، درختوں اور بنچوں پر اپنے نام کھود دیں اور یوں تاریخ کے آسمان پر ستاروں کی طرح روشن رہیں! سیاحت کے وفاقی محکمے میں ہمیشہ سیاسی تقرریاں ہوتی رہیں اور سیاحت بھاڑ میں جھونکی جاتی رہی۔ایبٹ آباد سے گلگت اور سکردو تک ، کوئی ایک بھی ایسا باعزت ریستوران نہیں جہاں سیاح اپنی خواتین اور بچوں کے ساتھ کچھ دیر ٹھہر سکیں۔مناسب واش روم اس سارے راستے پر ایک خواب کے سوا کہیں نہیں،انٹرنیٹ تو دور کی بات ہے۔قومی ائیرلائن شمالی شہروں کے ساتھ جو سلوک کررہی ہے وہ دھاندلی ، دروغ گوئی ، اقربا پروری اور اذیت رسانی کی المناک داستان ہے جسے بیان کرنے کے لیے الگ دفتر چاہیے۔ جن ملکوں کے پاس اس حسن کا عشر عشیر بھی نہیں جو قدرت نے شمالی علاقوں کی شکل میں پاکستان کو دیا ہے، انہوں نے ٹور ازم سے پوری دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے اور ہم اس انتظار میں ہیں کہ آسمان سے فرشتے اتریں، سیاحت کی انڈسٹری کو DEVELOP کریں اور پھر پلیٹ میں رکھ کر ہماری خدمت میں پیش کریں ؎ وہ شاخِ گُل پہ زمزموں کی دُھن تراشتے رہے نشیمنوں سے بجلیوں کا کارواں گزر گیا