روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں چھپی خبر کے مطابق مولانا طارق جمیل اپنے ڈرائیور کے ساتھ کار میں جارہے تھے کہ موٹرسائیکل سوار ڈاکوئوں نے ان کو روک کر لوٹنا چاہا۔ ڈرائیور نے گاڑی بھگا دی اور ڈاکوئوں کا گروہ واردات میں ناکامی پر فرار ہوگیا۔ مولانا طارق جمیل معروف مذہبی سکالر ہیں۔ ان کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے۔ خدانے انہیں تقریر کرنے کا ملکہ عطا کیا ہے۔ الفاظ ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں ع پھر دیکھنا انداز گل افشانیٔ گفتار بیان میں وہ روانی ہے کہ سننے والے اس روانی میں بہہ رہے ہوتے ہیں۔ مولانا اپنی طاقتِ تقریر سے مجمع کو جس طرف چاہیں لے جاتے ہیں۔ قرآن کی آیات انہیں ازبر ہیں۔ بات کرتے جاتے ہیں ۔ آیات پڑھتے جاتے ہیں۔ حقوق اللہ کے بارے میں ان کی ہزارہا تقریریں کیسٹوں‘ سی ڈیز اور انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر میں سنی جارہی ہیں۔ دنیا کا شاید ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جہاں عبادات کے مختلف پہلوئوں پر مولانا کے ارشادات سے مسلمان فائدہ نہیں اٹھارہے۔ نہ جانے کتنے ان کی وجہ سے حقوق اللہ کی طرف مائل ہوئے۔ اور نہ جانے کتنے گناہوں کی زندگی ترک کرکے عبادات کی طرف لپکے، ذالک فضل اللہ یؤتی من یشاء۔ خدا کا شکر ہے کہ ڈاکو اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے۔ مولانا پاکستان کا بالخصوص اور دنیا بھر کے اہل ایمان کا بالعموم قیمتی سرمایہ ہیں۔ بدبخت ڈاکوئوں کو کیا معلوم کہ وہ جسے لوٹنے کی کوشش کررہے ہیں وہ کتنا بڑا عالم دین ہے۔ سسٹم میں خرابی پیدا ہوجائے اور قانون کی حکومت اٹھ جائے تو گندم، گُھن، سبِ پس جاتے ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ علماء اور سکالر، شہید کردیئے گئے اور شہید کرنے والوں کو علم ہی نہ تھا کہ وہ کیا ظلم ڈھارہے ہیں۔ حضرت خواجہ فریدالدین عطارؒ جنہوں نے فقراور عرفان پر ایک لاکھ سے زیادہ اشعار کہے اور جن کے بارے میں رومیؔ جیسے صوفی نے کہا ع ما از پسِ سنائی و عطار آمدیم ایسی ہی المناک صورت حال کا شکار ہوئے۔ چنگیز خان کی قیادت میں تاتاری عالم اسلام پر عذاب بن کر ٹوٹے تو عطارؒ اپنے شہر نیشاپور میں تھے۔ تاتاریوں نے شہرکو تباہ کردیا۔ قتل وغارت گری کے عین درمیان ایک تاتاری انہیں شہید کرنے لگا تھا کہ برابر سے ایک اور تاتاری نے اسے کہا کہ ہزار درہم میں مجھے دے دو۔ عطارؒ نے پہلے تاتاری سے کہا کہ اس قیمت پر مجھے نہ فروخت کرو ۔ میں تو اس سے کہیں زیادہ قیمتی ہوں۔ اتنے میں ایک اور تاتاری آیا اور پیشکش کی کہ ایک گٹھا گھاس کا دیتاہوں۔ مجھے بیچ دو۔ عطارؒ نے تاتاری سے کہا کہ میری قیمت تو اتنی بھی نہیں‘ گھاس کا گٹھا لے لو۔ تاتاری کو غصہ آگیا کہ یہ شخص کبھی کچھ کہتا ہے کبھی کچھ۔ اس نے انہیں قتل کردیا۔ یہ الگ بات کہ جب معلوم ہوا کہ وہ کون تھے اور ان کا کیا مقام تھا تو پچھتایا اور توبہ کی۔ روایات میں ہے کہ پوری زندگی ان کے مزار پر ہی رہا۔ ماضی قریب میں عربی کے بہت بڑے سکالر اور کئی کتابوں کے مصنف مولانا خلیل حامدی گنے ڈھونے والی ٹرالی کا شکار ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے۔ ٹرالی کے بدبخت ڈرائیور کو کیا علم کہ اس نے کتنے بڑے سکالر سے دنیا کو محروم کردیا۔ اب اس تازہ واقعہ میں ڈاکوئوں کو کیا معلوم کہ کار میں جو شخص سوار ہے ، اسے وہ لوٹ ہی نہیں سکتے۔ خزانہ تو اس کے دماغ میں ہے اور دولت اس کے دل میں ہے! گستاخی پر نہ محمول کیا جائے تو ایک خیال دل میں آتا ہے ۔ کاش مولانا، ڈرائیور کو رکنے کا حکم دیتے‘ گاڑی سے اترتے‘ ڈاکوئوں کو قرآن پاک دکھا کر کہتے کہ جو لینا چاہتے ہو لے لو، لیکن میری بات سنتے جائو ۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ اس کتاب میں کیا لکھا ہے ؟یہاں بیٹھو۔ میں تمہیں بتائوں۔ ہمیں یقین ہے کہ مولانا جن کے بیان میں سحر کا اثر ہوتا ہے، بات شروع کرتے تو ڈاکوئوں کی قسمت بدل جاتی ۔ غالب نے تو کہا تھا ؎ ذکر اس پری وش کا اور پھر بیان اپنا بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا یہاں معاملہ الٹ ہوتا۔ ڈاکو مولانا کے حلقہ بگوش ہوجاتے۔ اس سے پہلے بھی بہت سے کھلاڑی، فنکار اور مُغَنّی مولانا کے سحر تبلیغ سے تسخیر ہوکر مائل بہ عبادات ہوئے ہیں‘ جن میں سے ایک دوحضرات تو رمضان بھی ٹیلی ویژن پر لگاتے ہیں۔ کیا عجب اس فہرست میں بدقسمت ڈاکو بھی شامل ہوکر اپنے بھاگ جگا لیتے۔ یہ جو ہم نے رمضان لگانے والی بات کی ہے تو اسے منفی انداز میں نہ لیا جائے۔ ہمیں یقین ہے مولانا کے دست حق پرست پر دیندار ہونے والے گویے دین کے کام کا معاوضہ نہیں لیتے۔ لے ہی نہیں سکتے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ایسے صاحبان اعلان بھی کردیں کہ وہ معاوضہ نہیں لیتے۔ ہوسکتا ہے کہ اس سے مذہبی پروگرام کرنے والے دوسرے اینکر حضرات بھی تجارت کے بجائے اسے عبادت سمجھ کر کرنا شروع کردیں۔ رہزنوں کو راہبر بنانے کی روایت ہمارے ہاں نئی نہیں ہے۔ وہ ڈاکو ہی تھا جس نے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ سے پوچھا تھا کہ تمہارے پاس کیا ہے تو آپ نے فرمایا تھا کہ اتنے دینار ہیں جو والدہ نے لباس کے اندر سی دیئے ہیں۔ جھوٹ بول کر مال بچانے والوں میں سچ بولتا بچہ ڈاکوئوں کے سردار کو فقیروں کا سردار بناگیا ۔ رومیؔ نے سچ کہا تھا ؎ گفتۂ او گفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود ایساہی ایک واقعہ شاہ اسماعیل شہیدؒکا بھی ہے۔ دلی کی ایک طوائف کے کوٹھے پر گئے۔ ’’معاوضہ ‘‘ پیش کیا اور طوائف کا جسم نہیں، دماغ مانگا۔ اسے تبلیغ کی۔ اللہ نے اس تبلیغ میں ایسا اثر ڈالا کہ اس نے توبہ کی۔ کہتے ہیں مجاہدین کو کھانا فراہم کرنے کے لیے وہ اپنے ہاتھوں سے چکی پیستی تھی ! اس وقت اس ملک کی جو حالت ہے اور خلق خدا جس طرح خدا سے دور ہورہی ہے، اس عالم میں مولانا طارق جمیل جیسے بے لوث اللہ والوں کا وجود اللہ کے انعام سے کم نہیں۔ مولانا کی ساری توجہ اہل پاکستان پر ہے۔ ورنہ ہمارے ہاں ایسے مبلغین کرام بھی ہیں جو اپنے ہم وطنوں کو گناہوں کے بیچ چھوڑ کر کبھی مشرق وسطیٰ جاتے ہیں کبھی افریقہ اور کبھی ملائشیا اور انڈونیشیا۔ اور بادشاہوں اور شہزادوں کے اور مری جیسے مقامات پر اہل اقتدار کے مہمان بنتے ہیں۔ ’’فضائل اعمال‘‘ میں حضرت مولانا محمد زکریاؒ ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ عراق میں مستجاب الدعوات درویشوں کا گروہ تھا۔ جو گورنر بھی آتا۔ اسے بددعا دیتے اور وہ ہلاک ہوجاتا۔ حجاج بن یوسف آیا تو اس نے ان حضرات کو گورنر ہائوس بلاکر کھانا کھلایا۔ پھر کہا کہ میں اب ان کی بددعا سے محفوظ ہوگیا ہوں۔ بیت المال کے پیسے سے پکا ہوا کھانا ان کے پیٹ میں چلا گیا ہے اور دعا تو اکل حلال سے قبول ہوتی ہے ! ’’فضائل اعمال‘‘ عبادات کی طرف مائل کرنے والی ایک پرتاثیر کتاب ہے۔ تبلیغ کی اس نصابی کتاب میں قرآن کریم، نماز، ذکر تبلیغ اور رمضان، کے فضائل شامل ہیں۔ حقوق اللہ پر اس سے بہتر نصاب شاید ہی اور کسی کتاب میں ہو۔ کچھ حضرات اس کتاب پر دواعتراض کرتے ہیں: ایک یہ کہ اس میں فضائل جہاد شامل نہیں۔ دوسرا یہ کہ دیباچے میں مصنف لکھتے ہیں کہ ’’ایک مرض کی وجہ سے چند روز کے لیے دماغی کام سے روک دیا گیا تو مجھے خیال ہوا کہ ان خالی ایام کو اس بابرکت مشغلہ میں گزاردوں…‘‘ پہلے اعتراض پر کلام کرنا تو علماء کرام کا کام ہے مگر جہاں تک دوسرے اعتراض کا تعلق ہے‘ ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں وزن نہیں۔ جوتحریریں دل پر اثر کرتی ہیں وہ دماغ سے نہیں، دل سے لکھی جاتی ہیں۔