پاکستانی بچوں ،پاکستانی بوڑھوں ، پاکستانی نوجوانوں اور پاکستانی خواتین کے ساتھ جو کچھ پشاور کے چرچ میں ہوا، وہ الم ناک ہے اور دردناک ۔ لیکن غیرمتوقع نہیں !آپ جَو بوکر گندم نہیں کاٹ سکتے ! عیسائی؟ ہندو؟ سکھ ؟اللہ کے بندو! جس ملک میں آٹھ سال تک مدرسوں کے معصوم بچوں کو کسی دوسرے مکتب فکر کے لوگوں سے ملنے دیا جاتا ہے نہ وہ اخبار ،رسالے اورٹیلی ویژن کے نزدیک جاسکتے ہیں، جہاں انہیں آٹھ سال مسلسل ایک ہی بات بتائی جاتی ہے کہ صرف تمہارا مسلک اصل اسلام ہے۔ جس ملک میں بات بات پر مسلمانوں کو کہا جاتا ہے کہ تم کافر ہوگئے ہو، کلمہ پڑھ کر دوبارہ مسلمان بنو اور نکاح ازسر نو پڑھوائو، وہاں غیرمسلموں کو کون برداشت کرے گا ؟ انٹرنیٹ اور فیس بک پر وہ وڈیو لاکھوں لوگ دیکھ چکے ہیں جس میں کراچی کے ایک سیاسی مولانا جو اب لاہور میں مقیم ہیں اور جنہیں کبھی مسکراتے نہیں دیکھا گیا انٹرویو لینے والے سے کہتے ہیں کہ تم ازسر نو کلمہ پڑھو۔ ساتھ ہی موصوف کا اصرار یہ تھا کہ اگر کسی بے بس خاتون سے زیادتی کی گئی ہے تو اسے چاہیے کہ خاموش رہے۔ ٹیلی ویژن چینلوں پر آنے والے چند مذہبی رہنمائوں کی بات الگ ہے۔ مدارس میں پڑھنے پڑھانے والے ہزاروں اساتذہ اور لاکھوں طلبہ کا سروے کرکے دیکھ لیا جائے۔ ان کی اکثریت کے نزدیک غیرمسلموں کا قتل جائز ہے، انہیں اس ملک میں رہنے کا حق ہے نہ ملازمتیں کرنے کا ! سینئر صحافی جناب مجیب الرحمن شامی نے حالات کے بگاڑ کا دلچسپ جائزہ پیش کیا ہے۔ قادیانی وزیرخارجہ ظفراللہ خان نے قائداعظم کی نماز جنازہ میں شرکت نہ کی اور الگ جاکھڑے ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے مسلمان حکومت کا غیرمسلم وزیر سمجھ لیں یا غیرمسلم حکومت کا مسلمان وزیر ۔ظفراللہ خان کو کسی نے کنکر تک نہ مارا۔ اس زمانے میں سکیورٹی برائے نام ہوتی تھی۔ کسی نے انہیں قتل نہ کیا۔ وہ اس کے بعد بھی وزیر خارجہ کے منصب پر فائز رہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ واقعہ آج کے پاکستان میں پیش آتا تو کیا اسی طرح ہوتا؟ نہیں ! بالکل نہیں !ظفراللہ خان کو چنددنوں کے اندر اندر قتل کردیا جاتا! اس وقت بھی ظفراللہ خان کے قادیانی اور کافر ہونے میں کسی کو شبہ نہ تھا۔ مولانا شبیراحمد عثمانی جیسے جیدعالم دین نے قائداعظم کی نماز جنازہ پڑھائی تھی۔ انہوں نے بھی اس کے قتل کا کوئی فتویٰ جاری کیا نہ ہی ملک میں احتجاجی جلسے ہوئے۔ ختم نبوت کا عقیدہ اس وقت بھی ہرمسلمان کے لیے حرزجاں تھا اور کسی قادیانی یا لاہوری کو مسلمان سمجھنے کا سوچا بھی نہ جاسکتا تھا۔ ہمارے اردگرد لاتعداد ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کسی عیسائی ،ہندو یا قادیانی نے اسلام قبول کیا لیکن مسلمان معاشرے نے اسے قبول ہی نہ کیا۔ یہاں تک کہ اس کے ساتھ کھانا پینا، رشتہ کرنا، اسی طرح متروک رہاجیسے اس کے مسلمان ہونے سے پہلے تھا۔ تنگ آکر بے شمار نومسلموں نے اسلام کو خیرباد کہا اور اپنے ہم مذہبوں کی طرف واپس چلے گئے۔ وہاں سے بھی طعنے ملے اور جوتے پڑے۔ معروف عالم دین اور لکھاری مولانا زاہدالراشدی نے ستمبر 2011ء کے ماہنامہ الشریعہ میں ایک مضمون لکھا جس میں اس حوالے سے کچھ واقعات تحریر کیے۔ یہ واقعات ’’دیانت‘‘ اور ’’سچائی ‘‘ کی ایسی مثالیں ہیں کہ ہاتھ بے اختیار کانوں کو اٹھ جاتے ہیں۔ ایک صاحب نے جنہیں اسلام قبول کیے پچاس برس ہوچکے تھے، قرآن پاک کا منظوم ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ مولانا زاہد الراشدی نے ان کے اصرار پر تقریظ لکھی ۔ مقامی علماء کی گواہی کے باوجود، مولانا زاہدالراشدی کے خلاف علماء ہی نے مہم چلائی کہ انہوں نے غیرمسلم کے ترجمۂ قرآن کی تعریف کی ہے۔ جو شخص پچاس سال سے مسلمان تھا اور مقامی علما اور مقامی آبادی اس کے مسلمان ہونے کی گواہی دے رہے تھے، اس کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی گئی۔ حکومت پنجاب کے ’’متحدہ علما بورڈ‘‘ کو درخواست دی گئی کہ مصنف کافر ہے اس لیے کتاب پر پابندی لگائی جائے۔ مولانا زاہدالراشدی ان دنوں ’’پاکستان شریعت کونسل‘‘ کے رکن تھے۔ وہاں ان کے رفقائے کار سے کہا گیا کہ وہ مولانا زاہد الراشدی سے اپنے مؤقف پر ’’نظرثانی‘‘ کروائیں۔ یہ ہے وہ مائنڈ سیٹ۔ وہ ذہنی ساخت جو غیرمسلموں کو تو کیا، نومسلموں کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جب تک اس ذہنیت کا سدباب نہیں ہوتا، قتل وغارت گری جاری رہے گی !عشق رسولؐ کے زبانی دعوے کرنے والے جب تکفیر کی تیز رفتار مشین چلاتے ہیں تو گمراہی انہیں یہ یاد کرنے کی مہلت ہی نہیں دیتی کہ کچھ مسلمانوں نے جب ایک کلمہ گو کو قتل کیا اور رسالت مآبؐ کی خدمت میں آکر جواز یہ پیش کیا کہ وہ دل سے مسلمان نہیں ہوا تھا تو رحمت عالمؐ نے پوچھا کہ ’’کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا۔؟‘‘ کروڑوں درود ہوں اس ذات پاک ؐ پر جس نے تاریخ کا یہ یادگار فقرہ ارشاد فرمایا۔ ذرا اس ارشاد نبویؐ پر غور کیجیے اور پھر پاکستان میں ہرمنبر اور محراب سے بہتے ہوئے تکفیر کے اس سیلاب کو دیکھیے جس کی تندوتیز موجوں سے کوئی بھی نہیں بچ پارہا۔ دستاروں کے رنگ تک الگ الگ ہوگئے ہیں۔ ہرفرقے کی دستار کا رنگ مخصوص ہے۔ کسی بھی وقت کوئی مسلمان کافر ہوسکتا ہے اور ساتھ ہی اس کا نکاح بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ بھارت میں تین مسلمان، ملک کی صدارت پر فائز رہ چکے ہیں۔ وزیرخارجہ آج بھی مسلمان ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق خفیہ ایجنسی کاسربراہ بھی مسلمان ہے۔ ہمارا اعتراض اس پر کبھی یہ ہوتاہے کہ یہ حضرات برائے نام مسلمان تھے یا ہیں۔ کبھی ہم کہتے ہیں کہ یہ سب محض نمائش کے لیے ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں تو ایسا نمائش کے لیے بھی نہیں کیا گیا۔ جو کچھ پشاور میں ہوا، ہماری تاریخ کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ کہتے ہم یہ ہیں کہ فرات کے کنارے مرنے والے جانور کی ذمہ داری بھی مسلمان حکمران پر تھی۔ عمل ہمارا یہ ہے کہ انسانوں کو کیڑوں مکوڑوں سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ خدا پاکستان پر رحم کرے اور اسے ان لوگوں سے بچائے جو اس کی مٹی چاندنی اور ہواسے غداری کررہے ہیں ۔