کوئی ہے جو ہم اہلِ پاکستان کو اس عذاب سے نجات دے ؟ ہم ایک ایسی گھاٹی میں اترچکے ہیں جس کا ہرراستہ نشیب کو جاتا ہے اور ہرنشیب میں موت انتظار کررہی ہے۔ ہم پر چاروں طرف سے پتھروں کی بارش ہورہی ہے۔ وہ کھردرا خاردار پودا جو جہنم میں خدا کے منکروں کو کھلایا جاتا ہے، ہم اہل ایمان کو یہاں دنیا میں کھلایا جارہا ہے۔ ہمیں کھولتا ہوا پانی پلایا جارہا ہے۔ ہماری انتڑیاں کٹ چکی ہیں۔ ہماری شریانیں شکم سے باہر آرہی ہیں۔ ہم ایک ملک میں نہیں، ایک غار میں ہیں۔ زندہ ہیں نہ مررہے ہیں۔ افسوس! دنیا کو معلوم ہی نہیں ہم کس قیامت سے گزررہے ہیں۔ ہائے افسوس! حکمران، ہمارا حال دنیا سے چھپا رہے ہیں تاکہ جس معیار زندگی سے وہ لطف اندوز ہورہے ہیں، ہوتے رہیں۔ ہمارا حال اس ملازم سے لاکھوں گنا بدتر ہے جو سفر کے دوران رنجیت سنگھ کے لیے میز کا کام دیتا تھا۔ وہ پنجاب کے حکمران کے سامنے کھڑا ہوتا تھا۔ پھر رکوع میں جاتا تھا۔ یوں کہ اس کی پیٹھ پر کھانا چن دیا جاتا تھا۔ پھر جتنی دیر رنجیت سنگھ کھانا کھاتا تھا، وہ رکوع ہی میں رہتا تھا۔ بوسنیا اور کسووومیں سربیا کی نصرانی عورتیں ٹوٹی ہوئی بوتلوں کی نوک سے مسلمان قیدیوں کے پیٹ چاک کرتی تھیں اور انہیں لِٹا کر بکروں کی طرح ذبح کرتی تھیں۔ کیا ہم اہلِ پاکستان کے ساتھ بھی اسی طرح کا سلوک نہیں ہو رہا؟ ہمارے گلے کاٹے جارہے ہیں۔ ہمارے پیٹ چاک کیے جارہے ہیں، اس لیے نہیں کہ ہم ایک اور مذہب کے پیروکار ہیں، اس لیے کہ قاتلوں کو دولت درکار ہے ! کوئی ہے جو ہم اہلِ پاکستان کی بیٹیوں‘ مائوں‘ بوڑھوں اور بچوں کو بچائے۔ کوئی ہے جو حکمرانوں سے پوچھے کہ ہمارے ٹیکسوں سے عیاشی تو کر رہے ہو، ہماری حفاظت کیوں نہیں کررہے ؟ ہمارے ہاتھ پائوں باندھ کر ہمیں درندوں کے آگے پھینک دیا گیا ہے۔ صرف اس لیے کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں ! گینگ، گینگ، ڈاکوئوں کے گینگ۔ اغواکاروں کے گینگ، بھتہ خوروں کے گینگ، کاریں چرانے والوں کے گینگ۔ بھیڑیوں کے جتھے شہریوں پر چھوڑدیئے گئے ہیں۔ حکمرانوں کو پروا ہی نہیں کہ معصوم شہری چیرے پھاڑے جارہے ہیں، لوگوں کے جان ومال کی حفاظت کے بجائے پہاڑیوں میں سرنگیں لگانے کے منصوبوں پر غور ہورہا ہے تاکہ دانت تیز کرنے والوں کو کھانے کے لیے مزید گوشت میسر ہو۔ کیا سب سے بڑے صوبے کے حکمران کو معلوم ہی نہیں کہ پنجاب کے صرف بڑے بڑے شہروں‘ صرف راولپنڈی‘ لاہور‘ گوجرانوالہ اور فیصل آباد سے گزشتہ چھ ماہ میں کتنے مظلوموں کو اغوا کیا گیا ہے اور وہ کس طرح رہا ہوئے ہیں؟ بخدا انہیں کوئی اندازہ ہی نہیں کہ لاہور شہر اور راولپنڈی شہر کے چاروں طرف غیرملکیوں کی کتنی بستیاں آباد ہوچکی ہیں۔ لوگوں کے جان ومال کی حفاظت حکمرانوں کے جوتوں کی نوک پر بھی لکھے جانے کے قابل نہیں۔ راولپنڈی کی بستی… لالہ زار میں ڈاکو عورتوں کو باندھ کر باپ کے سامنے بیٹی کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ باپ پاگل ہوجاتا ہے۔ اور یہ ایک واقعہ نہیں، ہرشہر کی ہردیوار پر ہرروز ظلم کی نئی داستان تحریر ہورہی ہے۔ قدرت ان حکمرانوں سے کاش! اسی دنیا میں حساب لے، جن کا زیادہ وقت شاید اپنے بینک بیلنس پر نظر رکھنے اور اپنے کاروباروں اور اثاثوں کو بڑھانے میں گزر رہا ہے۔ ان موذیوں پہ قہرِ الٰہی کی شکل میں نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم ہماری سینٹ میں، حکمران پارٹی کی سینیٹر روپڑتی ہے ،اپنی ہی حکومت کے خلاف واک آئوٹ کرجاتی ہے ۔ وہ آنسوئوں کی بارش میں بتاتی ہے کہ اس کے عزیز تین کروڑ کا بھتہ دے کر ملک چھوڑ گئے۔ دوسرا سینیٹر کہتا ہے… کیا اب یہ کمیٹی… یعنی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ… بھتے کی منظوری دے گی…؟ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کیا اب ہمیں اپنا مسئلہ اقوامِ متحدہ کے سامنے رکھنا پڑے گا؟ اٹھارہ ماہ میں دارالحکومت کے جڑواں شہروں کے تاجر 65کروڑ روپے کا بھتہ ادا کرچکے ہیں… کراچی نہیں… کوئٹہ نہیں۔ مغل طرز پر تعمیر شدہ دفتر میں بیٹھنے والے حکمران کو کوئی بتائے کہ کراچی یا کوئٹہ کے نہیں، اسلام آباد راولپنڈی کے تاجر 65کروڑ ادا کرچکے ہیں۔ ریڈزون سے پندرہ منٹ کی مسافت پر واقع محلہ وارث خان کے شہری کو بھتہ نہ دینے پر قتل کردیا گیا…ایک اور شخص کو 30لاکھ نہ دینے پر قتل کیا گیا اور پھر یہ رقم وارثوں سے لی گئی۔ کسی کے بیٹے اغوا ہورہے ہیں اور کوئی خود پکڑ کر لے جایا جارہا ہے۔ 3ستمبر 2013ء کو راولپنڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے اپنی پریس ریلیز میں بتایا کہ تاجروں کو پانچ پانچ اور دس دس لاکھ بھتے کی پرچیاں موصول ہورہی ہیں۔ کیا حکومت کو اس سے بھی بڑا ثبوت درکار ہے۔ دارالحکومت کا کوئی سیکٹر ایسا نہیں جہاں گینگ وارداتیں نہیں کررہے اور گھروں میں گھس کر مکینوں کو قتل نہیں کررہے ! جوکچھ اسلام آباد کی سبزی منڈی میں ہورہا ہے‘ پولیس لائنز کی ناک کے نیچے ہورہا ہے‘ ایک ادارے کے ملازمین افغان مجرموں کے ساتھ شامل ہیں۔ کیا دوست ممالک اس حکومت پر رحم نہیں کریں گے جس کے سینیٹر کمیٹیوں کے اجلاسوں میں رورہے ہیں اور ایک دوسرے سے استفسار کرتے پھرتے ہیں کہ کیا اب یہ کمیٹیاں بھتوں کی منظوریاں دیں گی ؟ ہمیں ہمیشہ یہی بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے ایسے ایسے دوست ہیں جو اس کی خاطر اپنی جانیں دائو پر لگادیں۔ آج جب اس ملک کے شہری اپنے گھروں کی چاردیواریوں کے اندرقتل ہورہے ہیں تو کیا وہ سب تماشہ دیکھتے رہیں گے اور اپنے دوست ملک کے عوام کو درندوں کے دہانوں سے نکالنے کے لیے کچھ نہیں کریں گے؟ اگر ہمارے حکمران ہماری حفاظت کو نہیں آئیں گے تو ہمیں بتایا جائے ہم کس کو پکاریں‘ کس سے تحفظ کی درخواست کریں۔ یادرکھو جب اہلِ پاکستان کی گردنیں ختم ہوجائیں گی، جب ان کی بیٹیاں‘ عورتیں‘ بچے اور مرد سب قتل ہوچکیں گے تو قاتل مزید شکار کی خواہش بھی کریں گے !! پسِ نوشت۔ یہ سطور لکھی جارہی تھیں کہ جرمنی سے تیس سالہ عمران تنویر کی ای میل موصول ہوئی۔ غریب گھرانے کے اس نوجوان کو اس کی بیوہ ماں نے اپنا پیٹ کاٹ کر اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ اس نے بزنس شروع کیا اور کامیاب رہا۔ باقی سرگزشت اسی کے الفاظ میں… ’’تین چارسال ہی میں میری کمپنی سکیورٹی اور ٹیلی کام درآمد کرنے والی بڑی کمپنی بن گئی۔ پھر میرے بچے کو اغوا کرلیا گیا۔ میں نے لاہور پولیس کی منتیں کیں لیکن بے سود۔ پچاس لاکھ دے کر بچے کو چھڑایا اور ملک سے نکل آیا۔ اب میں اور بیوی رات دن وطن کو یاد کرکے آہیں بھرتے ہیں لیکن جانے کا حوصلہ نہیں پڑتا‘‘۔ نوجوان نے اپنے بزنس کی کامیابی پر مشتمل ایک لنک بھی ارسال کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں واقع جرمن سفارت خانے نے اسے ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔