ڈاکٹر کمال اکبر سے پہلی ملاقات اُس وقت ہوئی جب وہ لیفٹیننٹ کرنل تھے۔ کالم نگار نے مقابلے کا امتحان پاس کر لیا تھا لیکن فیڈرل پبلک سروس کمیشن عینک کے نمبر سے مطمئن نہیں تھا۔ ایک بزرگ نے ساتھ لیا اور اُن کے پاس لے گئے۔ آئی سپیشلسٹ کے طور پر ان کا نام اُس وقت بھی کم معروف نہیں تھا؛ تاہم جس بات نے متاثر کیا یہ تھی کہ کرنیلوں والی خو بُو تھی نہ ڈاکٹروں والی بے نیازی۔ ملائمت سے بات کرتے تھے اور مریض کو دوست بنا لیتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب سینئر ہوتے گئے۔ کالم نگار بھی سول سروس کی سیڑھیاں چڑھتا رہا۔ وہ میجر جنرل ہوئے تو جنرل مشتاق بیگ‘ جنہیں راولپنڈی میں خودکش دھماکے سے شہید کیا گیا‘ بطور بریگیڈیئر اُن کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ پھر کمال اکبر تھری سٹار جرنیل ہو کر ٹاپ پر پہنچ گئے۔ اُن دنوں وہ اور کالم نگار ایک حساس احاطے میں قریب قریب بیٹھتے تھے۔ ایک دن ہم بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ یاد نہیں وہ کالم نگار کے دفتر میں تھے یا کالم نگار اُن کے کمرے میں بیٹھا تھا۔ باتوں باتوں میں ذکر کیا کہ سنگاپور جا رہا ہوں۔ بولے پورے سنگاپور میں ایک ہی شے ہے جو خریدنی چاہیے‘ باقی کسی شاپنگ کی ضرورت نہیں۔ کرنسی ہماری کمزور ہے اور مہنگائی وہاں بہت ہے۔ پھر انہوں نے سمجھایا کہ وہاں ایک جزیرہ ہے سنتوسا‘ اس میں چیئر لفٹ ہے۔ چیئر لفٹ جہاں لے جائے گی وہاں ذرا اونچائی پر ایک گفٹ شاپ ہے۔ اُسے کہنا تمہیں وہ ٹوپی دے جس پر لائٹ (بلب) لگا ہوا ہے۔ بس یہی ایک کام کی شے ہے وہاں خریدنے کی۔ ڈاکٹر صاحب ہمیشہ رہنمائی کرتے رہے کہ کم خرچ شے کہاں سے ملے گی لیکن اُن کا کارنامہ ایک اور ہے۔ ایک بار اُن کے سرکاری کلینک میں جانا ہوا تو خصوصی طور پر ایک مریضہ دکھائی۔ اُس کا منہ جلا ہوا تھا‘ غالباً شیشے کے ٹکڑے اندر دھنس گئے تھے۔ کہنے لگے‘ یہ خاتون اگر دورانِ سفر سیٹ بیلٹ لگاتی تو یہ حال نہ ہوتا۔ سیٹ بیلٹ کی اہمیت بتانا ان کی زندگی کا مشن تھا۔ اُن دنوں پاکستان میں بہت سی گاڑیاں ایسی تھیں جن میں سیٹ بیلٹ ہوتی ہی نہیں تھی۔ کمال اکبر نے کباڑیوں کی دکانوں سے ہزاروں سیٹ بیلٹس خریدیں اور اپنے سٹاف‘ مریضوں‘ دوستوں‘ دوستوں کے سٹاف اور ڈرائیوروں میں تقسیم کیں۔ خود کار میں پچھلی نشست پر بھی بیلٹ لگا کر بیٹھتے۔ ماہرِ امراضِ چشم کی حیثیت سے انہیں ہر وقت یہ فکر کھاتی کہ سیٹ بیلٹ نہ لگانے سے لوگوں کا چہرہ اور آنکھیں متاثر ہوں گی۔ ایک بار ملے تو پلاسٹک اور ربڑ کی بنی ہوئی چھوٹی سی بطخ دی۔ اسے رکھ دیا جاتا تو مسلسل دائیں بائیں آگے پیچھے حرکت کرتی اور تماشے دکھلاتی۔ کہنے لگے‘ کئی مریض ایسے ہوتے ہیں جو پڑھ نہیں سکتے۔ ان کی وقت گزاری کے لیے یہ ایک اچھا تماشہ ہے۔ کثیر تعداد میں بطخیں تقسیم کیں۔ ان کی جیبوں اور بیگ میں ہر وقت چھوٹی چھوٹی ٹارچیں‘ بال پین اور دیگر مفید چیزیں موجود رہتی تھیں جو وہ بانٹتے رہتے۔ بال پین جن سے روشنی پھوٹتی‘ بڑے بڑے ہسپتالوں کے سٹاف میں مفت تقسیم کیے کہ اندھیرے میں بھی مریضوں کی خدمت ہوتی رہے اور کام نہ رُکے۔ لیکن اصل بات جو بتانی مقصود ہے اور ہے۔ جنرل صاحب کی قوتِ مشاہدہ بہت تیز ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ فوجی فائونڈیشن ہسپتال میں خدمات سرانجام دیں۔ ایک دن ان کی خدمت میں حاضری دی تو کہنے لگے تمہیں دلچسپ بات بتائوں۔ ایک صاحب اپنی اہلیہ کو دکھانے آئے‘ تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر ہیں۔ اہلیہ کی آنکھوں کا مسئلہ پیچیدہ تھا۔ معائنہ کر کے کاغذ پر تشخیص اور نسخہ لکھا۔ جو بات خصوصی طور پر جنرل صاحب نے نوٹ کی یہ تھی کہ شوہر نے‘ جو ڈاکٹر کہلا رہا تھا‘ کاغذ کو دیکھنا بھی گوارا نہ کیا اور تہہ کر کے جیب میں ڈال لیا۔ جنرل صاحب سوچنے لگ گئے‘ یہ کیسا ڈاکٹر ہے! یہ ڈاکٹر نہیں ہو سکتا۔ ایک لمحے سے بھی کم وقت میں وہ اصل حقیقت کو پا گئے۔ پوچھا‘ آپ ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہیں؟ شوہر نے جواب دیا‘ جی ہاں! یہ ساری تمہید یہ بتانے کے لیے بیان کی ہے کہ اب ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہر شعبے میں موجود ہیں۔ ایک معروف معاصر میں ایک ڈاکٹر صاحب کا کالم کچھ دن ہوئے پڑھا‘ یوں تو سلاست اور انشا پردازی ع کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجاست والا شعر بار بار یاد دلا رہی تھی لیکن ایک مقام پر پہنچ کر تو باقاعدہ سکتہ طاری ہو گیا۔ قرآن پاک کے غیر منقوط ترجمہ کے ضمن میں لکھا تھا ’’ڈاکٹر… کی تحقیق کے مطابق برصغیر میں اکبری دربار کے دانشور ابوالفضل فیضی نے یہ کوشش کی تھی لیکن یہ مکمل نہ ہو سکی‘‘۔ کیا کوشش کی تھی جو مکمل نہ ہو سکی؟ اس سوال کو تو کچھ دیر کے لیے ایک طرف رکھ دیجیے‘ لطف اس ’’اطلاع‘‘ سے اٹھایئے ’’اکبری دربار کے دانشور ابوالفضل فیضی‘‘۔ سبحان اللہ! چودہ طبق روشن ہو گئے۔ دانشور ابوالفضل فیضیؔ… اس فارمولے پر کئی اور تراکیب بن سکتی ہیں۔ بادشاہ جہانگیر شاہ جہان۔ فاتح چنگیز خان تیمور‘ شاعر اسد اللہ غالب بیدل‘ موسیقار امیر خسرو تان سین‘ مجاہد طارق بن زیاد قتیبہ! ’’اکبری دربار‘‘ کو ختم ہوئے بمشکل چار سو سال ہوئے ہیں اور ہمیں یہ بھی معلوم نہیں رہا کہ ابوالفضل فیضی کوئی دانشور نہیں تھا‘ بلکہ دو دانشور تھے۔ دو بھائی تھے۔ والد ان کا شیخ مبارک ناگوری تھا‘ دونوں اکبری دربار سے وابستہ تھے لیکن شعبے الگ الگ تھے۔ فیضی کی وفات 1004ھ میں بیماری سے ہوئی۔ ابوالفضل کو 1011ھ میں جہانگیر نے قتل کرا دیا۔ رہا یہ ’’انکشاف‘‘ کہ ’’ابوالفضل فیضی نے یہ کوشش کی تھی لیکن یہ مکمل نہ ہو سکی‘‘ تو معلوم نہیں کیا بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ پیچھے فقط غیر منقوط اور منقوط کتابت کا ذکر کیا گیا۔ تو کیا مکمل نہ ہو سکا؟ ترجمہ؟ یا تفسیر؟ اللہ کے بندو! ایک دنیا جانتی ہے کہ فیضی نے قرآن پاک کی غیر منقوط تفسیر لکھی اور مکمل کی۔ سواطع الالہام اس کا نام ہے۔ محمد حسین آزاد دربارِ اکبری میں لکھتے ہیں: ’’ایک خط میں (فیضی) لکھتا ہے دسویں تاریخ ربیع الثانی 1002ھ کو میری تفسیر ختم ہوئی۔ لوگ تقریظیں اور تاریخیں کہہ رہے ہیں‘‘۔ صرف محمد حسین آزاد ہی نہیں‘ شبلی نعمانی بھی یہی بتاتے ہیں۔ اپنی شہرئہ آفاق تصنیف شعر العجم (حصہ سوم) میں شبلی رقم طراز ہیں: ’’سواطع الالہام یعنی تفسیر غیر منقوط 1002ھ میں تمام ہوئی۔ کل مدتِ تصنیف دو اڑھائی برس ہے۔ اس تفسیر پر فیضی کو بڑا ناز ہے۔ دوستوں کو جو خطوط لکھے ہیں ان میں اکثر فخر سے اس کا تذکرہ کرتا ہے‘‘۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شبلی نعمانی فیضی کی اس مشقت کو ناپسند کرتے ہیں۔ ’’سخت تعجب ہے کہ فیضیؔ جیسے حکیم اور فلسفہ پسند شخص نے کیوں کر یہ بے ہودہ مغز کاوی گوارا کی‘‘؟ شبلی حیران ہوتے ہیں کہ فیضی کے مخالفین نے اس موقع پر اعتراض کیا بھی تو یہ کہا کہ چونکہ آج تک بے نقط تفسیر نہیں لکھی گئی اس لیے یہ بدعت ہے۔ فیضیؔ اپنے حریفوں سے زیادہ ذہین تھا۔ اس نے برجستہ جواب دیا کہ کلمہ (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) بھی تو غیر منقوط ہے!! ایک عالم کو کسی نے آ کر خبر دی کہ مولوی صاحب کی صاحبزادی کو کتا کھا گیا۔ عالم نے پوچھا تمہیں کس نے بتایا؟ جواب دیا قرآن پاک میں لکھا ہے۔ عالم سوچ میں پڑ گیا۔ پھر خبر لانے والے کو بتایا کہ ’’عقل مند‘‘ انسان! وہ مولوی نہیں تھے‘ پیغمبر تھے۔ صاحبزادی نہیں تھی‘ ان کا فرزند تھا۔ کتا نہیں تھا بھیڑیا تھا اور کھایا نہیں تھا‘ وہ تو بھائیوں نے حضرت یعقوبؑ کے سامنے جھوٹ بولا تھا!! تو حضور! ابوالفضل فیضی نہیں‘ فیضی تھا۔ (محمد حسین آزاد اس کا نام ابوالفیض لکھتے ہیں لیکن شبلی یہ بھی نہیں لکھتے۔) ترجمہ یا کتابت نہیں تھی‘ تفسیر تھی اور ہرگز ایسا نہیں کہ مکمل نہ ہو سکی۔ مکمل ہوئی اور اس پر مبارکباد‘ تقاریظ اور شاباش کا خاصا غلغلہ برپا ہوا۔ منقوط غیر منقوط کے قصے میں فیضی ہی کا شعر برمحل لگ رہا ہے ؎ ز نوکِ خامۂ من نیم نقطہ بیرون نیست شَروحِ انفس و آفاق در متونِ منست لیکن اصل تنبیہ تو سعدی کر گئے ہیں ؎ ہر گوشہ گمان مبر کہ خالیست شاید کہ پلنگ خفتہ باشد ہر کونے کو خالی نہ سمجھیے‘ کہیں چیتا سویا ہوا نہ ہو۔ ابھی سے مغلوں کی تاریخ کو مسخ نہ فرمایئے۔ کہیں کوئی طالب علم گستاخی نہ کر بیٹھے!!