گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران بھارت میں دو ایسے واقعات رونما ہوئے جن کا سن کر اس پڑوسی کافر ملک پر رحم ہی کیا جا سکتا ہے۔ پہلا واقعہ اُس بدبخت جاہل شوہر کا ہے جس نے اپنی بیوی کو اپنے ہاتھوں فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ قصور بیوی کا یہ تھا کہ وہ بیٹا نہیں پیدا کر رہی تھی۔ یکے بعد دیگرے اُس نے چار بیٹیاں جنم دے دیں۔ پہلی بیٹی کی پیدائش کے بعد ہی شوہر نے بیوی پر تشدد کرنا شروع کردیا۔ پھر ہر بیٹی کی پیدائش پر یہ تشدد بڑھتا گیا۔ جس روز کا یہ واقعہ ہے اُس دن بیوی نے گھر کے لیے خرچہ مانگا۔ شوہر نے پہلے تو اُسے زدوکوب کیا اور پھر فائرنگ کر کے ہلاک کردیا۔ وہ اپنے آپ کو راہِ راست پر سمجھ رہا تھا۔ اس حد تک کہ قتل کرنے کے بعد ہتھیار سمیت خود ہی تھانے میں پیش ہو گیا۔ دوسرا واقعہ اس سے بھی زیادہ دردناک اور باعثِ عبرت ہے۔ ایک عورت نے اپنے ہاتھوں سے اپنی دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کو نہر میں گرا کر ڈبو دیا۔ ایک بیٹی چار سال کی تھی۔ دوسری سات سال کی تھی۔ بیٹا آٹھ سال کا تھا۔ وہ تو بارہ سالہ بڑے بیٹے کی قسمت اچھی تھی کہ وہ سکول گیا ہوا تھا اور بچ گیا۔ تفتیش پر معلوم ہوا کہ یہ عورت ایک سادھو کے پاس جایا کرتی تھی۔ سادھو ہی نے ہدایت کی کہ وہ بچوں کو پانی میں ڈبو کر ہلاک کرے۔ عورت کے باپ کا بیان یہ تھا کہ اُس کی بیٹی پر چڑیلوں کا اثر تھا اور تہرے قتل کی واردات کا ارتکاب اُس نے انہی کے اثر کی وجہ سے کیا۔ بھارتی معاشرے میں ایسے واقعات انوکھے نہیں۔ عورت کی اُس معاشرے میں کوئی قدر ہے نہ اہمیت۔ اُسے بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ شوہر مر جائے تو پہلے اس کے ساتھ ہی آگ میں جل کر بھسم ہو جاتی تھی۔ اب ساری زندگی بیٹھی رہتی ہے۔ بیوہ اٹھارہ سال کی بھی ہو تو دوسری شادی نہیں کر سکتی۔ جہیز نہ لائے تو باورچی خانے میں چولہا پھٹتا ہے اور بہو ہلاک ہو جاتی ہے۔ اس معاشرے میں اگر اس بدبخت قاتل کی ایک یا دو نہیں‘ چار بیٹیاں سر پر آ بیٹھی تھیں تو وہ ان کی ماں کو قتل نہ کرتا تو کیا تخت پر بٹھاتا؟ رہا دوسرا واقعہ تو اس میں بھی حیران ہونے کی کوئی بات نہیں۔ جہاں چیونٹی سے لے کر ہاتھی تک سینکڑوں دیوتا ہوں‘ جہاں سادھو‘ پنڈت‘ پروہت خدا کا درجہ رکھتے ہوں‘ جہاں ہر شخص صبح اٹھ کر گھر میں اور دکان پر پہنچ کر‘ پتھر کے بتوں کے آگے ہاتھ جوڑتا ہو اور ماتھا ٹیکتا ہو‘ وہاں سادھو کے کہنے پر بچوں کو ڈبونا کون سی نئی بات ہے۔ لیکن ٹھہریے! اگر آپ ہندوئوں کی جہالت‘ ضعیف الاعتقادی اور توہم پرستی پر افسوس کر رہے ہیں اور اگر آپ خوش ہو رہے ہیں کہ اچھا ہوا ہم ان جانوروں سے الگ ہو گئے تو آپ شدید خوش فہمی کا شکار ہیں۔ یہ دونوں واقعات بھارت میں نہیں‘ پاکستان میں پیش آئے اور پاکستان کے کسی دور افتادہ دیہات میں نہیں بلکہ لاہور اور شیخوپورہ میں رونما ہوئے جو سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور سب سے زیادہ روشن خیال صوبے کے عین مرکز میں واقع ہیں۔ ایک شخص کا جنازہ جا رہا تھا۔ کسی نے پوچھا کس کا ہے۔ دوسرے نے جواب دیا کہ فلاں کا ہے۔ اوّل درجے کا بدمعاش‘ غنڈہ‘ قاتل اور دھوکے باز تھا لیکن اپنے باقی بھائیوں کی نسبت فرشتہ تھا۔ یہ واقعات لاہور اور شیخوپورہ کے ہیں‘ دور افتادہ دیہات کا اندازہ خود لگا لیجیے۔ اس ملک میں‘ جو اسلام کے نام پر لاکھوں انسانوں کا خون بہا کر حاصل کیا گیا‘ بیٹی سے نفرت کا یہ اکیلا واقعہ نہیں‘ شاید ہی کسی روز ایسا واقعہ اخبارات کی زینت نہ بنتا ہو۔ ایک دلیل معاشی بدحالی کی ہے کہ غربت میں بیٹے کمائو بن کر مدد کرتے ہیں لیکن آج کل بیٹیاں اس میدان میں لڑکوں سے پیچھے نہیں۔ بیٹیوں سے نفرت اور بیٹوں کو ترجیح دینے کی لعنت کھاتے پیتے خوشحال گھرانوں میں بھی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ یہ اُس معاشرے کا حال ہے جو توہینِ رسالت کے نام پر ہر وقت گردنیں کٹانے کے لیے تیار ہے لیکن اس سے بڑھ کر توہینِ رسالت کیا ہوگی کہ جو پیغمبرﷺ اپنی بیٹی کی آمد پر کھڑے ہو جاتے تھے اور جنہوں نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنی دو بیٹیوں کو پڑھایا لکھایا‘ اچھی تربیت کی اور پھر ان کے گھر بسائے‘ وہ جنت میں میرے ساتھ اس طرح ہوگا اور یہ فرماتے ہوئے آپ نے اپنی دو مبارک انگلیاں دکھائیں‘ اُس پیغمبرﷺ کے نام لیوا بیٹیوں کی پیدائش پر منہ چھپاتے پھرتے ہیں‘ بیٹوں کے لالچ میں کبھی قبروں کے آگے کھڑے ہوتے ہیں‘ کبھی مُشٹنڈوں سے تعویذ گنڈے لاتے ہیں اور اِس دُھن میں یہ بے غیرت عزت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ لاہور کی بی آر بی نہر میں جس مسلمان عورت نے اپنے تین بچوں کو ڈبو کر مار دیا‘ اسے ایسا کرنے کی ہدایت اُس کے پیر‘ بابا سوہنے شاہ‘ نے کی تھی۔ جس ’’اسلامی‘‘ ملک کے قیام کے لیے ہم لاکھوں مسلمان عورتیں مشرقی پنجاب کے سکھوں کے پاس چھوڑ آئے تھے‘ اُس ’’اسلامی‘‘ ملک میں ہر شہر‘ ہر قصبے کی ہر گلی میں‘ ہر گائوں‘ ہر ڈھوک‘ ہر گوٹھ میں‘ سوہنے شاہ بیٹھے ہیں۔ ان میں اور سادھوئوں میں صرف نام کا اور جغرافیائی محلِ وقوع کا فرق ہے۔ ان کی ہدایات پر عمل پیرا ہو کر کبھی کوئی ’’مسلمان‘‘ آدھی رات کو قبر کھول کر مردے کا پیٹ چاک کر رہا ہوتا ہے‘ کبھی کوئی اپنے بچے کے گلے پر چھُری پھیر دیتا ہے اور کبھی کوئی عورت اپنے لخت ہائے جگر کو بپھرتی موجوں کی نذر کر دیتی ہے۔ اس ’’اسلامی‘‘ ملک کے وزرائے اعظم پیٹھ پر چھڑیاں مرواتے ہیں۔ منتخب نمائندے اپنے دن کا آغاز پامسٹوں کے پاس حاضر ہو کر کرتے ہیں۔ ’’پڑھی لکھی‘‘ آبادی کی اکثریت ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت پہلے پوچھتی ہے کہ آپ کا سٹار کون سا ہے؟ پھر سارے مشاغل‘ سارے پلان‘ سارے ارادے اُس سٹار کے ارد گرد گھومتے ہیں۔ پھر بیویوں کے سٹار پوچھے اور بتائے جاتے ہیں۔ جس شاعرِ مشرق کے یوم پیدائش اور یومِ وفات پر ملک گیر تعطیل ہوتی ہے‘ اُس کی وارننگ کو جُوتے کی نوک پر بھی کوئی نہیں لکھتا ؎ ستارہ کیا تری تقدیر کی خبر دے گا وہ خود فراخیٔ افلاک میں ہے خوار و زبوں ابھی ایک صدرِ مملکت کو ہم نے گارڈ آف آنر دے کر کندھوں سے اتارا ہے جس کی ہر سانس‘ ہر لمحہ پیر صاحب کی ہدایت کے مطابق بسر ہوتا تھا۔ کبھی وہ پہاڑوں سے دور رہتا تھا‘ کبھی سمندر سے دور ہوتا تھا۔ کل ہی ایک ماہر نفسیات بتا رہا تھا کہ مانسہرہ کے نزدیک‘ مظلوم دماغی مریضوں کو ایک درخت سے باندھا جاتا ہے کیونکہ ایک بابا جی کے فرمان کے مطابق صرف اُس درخت ہی کی وساطت سے معاملات طے ہو سکتے ہیں۔ یہ اُس رسولﷺ کی امت کا حال ہے جن کا فرمان ہے کہ بیمار ہو تو صرف اہل (کوائلی فائڈ) طبیب (ڈاکٹر) سے علاج کرائو‘ جن کے خلیفۂ راشد نے حجرِ اسود کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ میں تمہیں اس لیے بوسہ دے رہا ہوں کہ آقاﷺ نے دیا تھا ورنہ تم ایک پتھر ہو۔ نفع پہنچا سکتے ہو نہ نقصان! مملکتِ خداداد کا کافر بھارت سے مقابلہ صرف کرکٹ کے میدان میں نہیں ہے‘ انسان پرستی‘ قبر پرستی‘ ستارہ پرستی‘ توہم پرستی‘ فال گیری‘ پامسٹری اور شگون پر اعتماد… میں بھی ہے اور باعثِ اطمینان امر یہ ہے کہ ہم اس میں بھی کافر بھارت سے پیچھے نہیں ہیں۔