اہلِ پاکستان میں سو برائیاں سہی، ہزار کمزوریاں سہی، مگر ایک گناہ کا طعنہ انہیں نہیں دیا جا سکتا اور وہ ہے لسانی تعصّب! لسانی تعصّب نہ ہونے کا ثبوت صرف اہلِ پاکستان ہی میں نہیں، تاریخ ِ پاکستان میں بھی روزِروشن کی طرح موجود ہے۔ غلام رسول مہر کی تحریکِ مجاہدین کی تاریخ میں بالا کوٹ کے شہدا کے اسمائے گرامی دیکھ لیجئے، یو پی اور بہار کے مجاہدین کے شانہ بہ شانہ سندھ ،پنجاب اور سرحد کے غازی لڑ رہے تھے۔ خود تحریک پاکستان اس حقیقت کا بّین ثبوت ہے کہ برّصغیر کے مسلمانوں نے الحمد للہ لسانی تعصّب سے اپنا دامن ہمیشہ بچا کر رکھا۔ قائد اعظم اردو سپیکنگ تھے نہ بنگالی بولتے تھے۔ پنجابی آتی تھی نہ پشتو۔ بلوچی اور سندھی سے بھی ناآشنا تھے‘ لیکن جمرود سے لے کر برما کی سرحد تک اور دہلی کے شمال میں ہمالیہ کی ترائیوں سے لے کر دکن اور میسور تک ہر مسلمان نے ان کی آواز پر لبیک کہا۔ برّصغیر کی کون سی زبان تھی جس کے بولنے والے قائدِاعظم کے جھنڈے تلے جمع نہ تھے! جِلد کا کون سا رنگ تھا جو وہاں نہ تھا اور لباس کا کون سا ڈھنگ تھا جو مسلم لیگ کے اجلاسوں میں دیکھا نہ جا سکتا تھا! قیامِ پاکستان کے بعد کی تاریخ دیکھ لیجئے، ذوالفقار علی بھٹّو کو، سندھی جن کی مادری زبان تھی، پنجاب نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔ ضیاء الحق کے زمانے میں کوڑے کھانے والوں میں پنجابی اور پٹھان سب شامل تھے، سندھیوں نے حالیہ انتخابات میں نواز شریف پر بہت سے دروازے کھولے۔ خیبر پختونخوا نے تو لسانی تعصّب کے پرخچے اڑ دیئے۔ انہوں نے اس پارٹی کو ہرا دیا جس میں پٹھان ہی پٹھان تھے، تحریک انصاف جس کا غلغلہ پنجاب میں تھا، صرف خیبر پختونخوا میں حکومت بنا سکی! ایم کیو ایم کو دیکھ لیجئے ۔ اس نے اپنی شناخت سے مہاجر کا نشان ہٹا کر ’’متحدہ‘‘ کا پرچم بلند کیا تو پورے ملک کا زاویۂ نظر بدل گیا۔ اِس وقت ملک کے ہر صوبے میں، ان کے عہدیدار کام کر رہے ہیں۔ نبیل، گْجر، اعوان، سب الطاف حسین کی پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں۔ سکّہ بند پنجابی صحافی ایم کیو ایم کا دفاع کرتے رہے اور کر رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں ایم کیو ایم کے جلسے بے حد کامیاب رہے۔ آزاد کشمیر اسمبلی میں ان کے نمائندے بیٹھے رہے! جنرل پرویز مشرف نے پکّے لاہوریے وزیر اعظم کا تختہ الٹا تو پنجابی جرنیل، آرمی چیف کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو گئے۔ پھر عدلیہ کی بحالی کی تحریک چلی تو کسی کو معلوم ہی نہ تھا کہ افتخار چودھری کہاں کے ہیں، پشاور سے کراچی تک صرف وکیل ہی نہیں،پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن گئی۔ یہ جو ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب نے کہا ہے کہ ’’میرے ساتھ زبان کی بنیاد پر زیادتی کی گئی ہے‘‘ تو اس قوم کے دل پر زخم لگایا ہے کہ مدتوں رِستا رہے گا۔تلوار کا زخم بھر جاتا ہے لیکن ’’زبان‘‘ کا زخم؟اور پھر زبان کا وہ زخم جو زبان کے حوالے سے ہے!! ڈاکٹر صاحب کا کارنامہ عظیم ہے، اگرچہ اس میں بھی تنازعے بہت ہیں، ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور ان کی ٹیم کچھ اور کہتی ہے۔ اس کے باوجود ڈاکٹر صاحب کا کردار ایٹمی کامیابی کے حوالے سے بے مثل ہے‘ مگر قوم نے اپنی بساط سے بڑھ کر ان کی پزیرائی کی، جس زمانے میں وہ یہ کام کر رہے تھے، ان کی حیثیت عملی طور پر نائب وزیر اعظم کی تھی۔ صرف پروٹوکول ہی نہیں، امورِ مملکت میں بھی۔ واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ اندرون ملک اور بیرونِ ملک تعیناتیوں میں بھی ان کے اشارے ہوتے تھے۔ درست کہ وہ مشکل کام کر رہے تھے مگر ہر حکومتِ وقت نے بغیر کسی روک ٹوک کے فنڈ جاری کئے۔ کوئی حساب تھا نہ کتاب تھی۔ آڈٹ تھا نہ کوئی جواب دہی تھی۔ پھر، ڈاکٹر صاحب نے جس فلاحی منصوبے کے لئے بھی قوم کو حکم دیا، قوم نے لبیک کہا اور دل کھول کر درہم و دینار دیے۔ اس قوم نے، پاکستان کی حکومتوں نے، پاکستان کی ریاست نے ڈاکٹر صاحب اور ان کے اہل و عیال کو وہ معیارِ زندگی فراہم کیا جس کا بھارت میں ڈاکٹر عبدالکلام سوچ بھی نہیں سکتے۔ المیہ یہ ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان ذاتی تشہیر کے حد سے زیادہ دلدادہ ہیں۔ جانے روایات صحیح ہیں یا غلط لیکن کہا جاتا ہے کہ اسلامی بم کے بارے میں شائع شدہ کتابوں میں ایک باب کا اضافہ کر دیا جاتا تھا۔ تشہیر کا کوئی موقع اور پبلسٹی کا کوئی فورم ڈاکٹر صاحب جانے نہیں دیتے تھے، پی ٹی وی کے ناظرین کو یاد ہو گا کہ خبرنامے سے پہلے ایک آدھ منٹ کا جو اشتہار ہوتا تھا جس کا عنوان تھا۔’’سب لوگ کہتے ہیں۔‘‘ اور جو خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق تھا، اس میں بھی ڈاکٹر صاحب دیکھے جانے لگے تھے۔ ڈاکٹر عبدالکلام کے معیارِ زندگی کی بات چل نکلی ہے تو یہ یاد کر لینا بھی بے جا نہ ہو گا کہ بنی گالہ اسلام آباد میں تعمیرات کا سلسلہ ڈاکٹر صاحب ہی نے شروع کیا تھا۔ انہوں نے آج تک قوم کو اپنے اثاثوں سے آگاہ نہیں کیا۔ اگر پاکستانی قوم ’’زبان‘‘ کی بنیاد پر فیصلے کرتی تو ڈاکٹر صاحب کو محسنِ پاکستان کا خطاب نہ دیتی۔ ابھی اگست کے پہلے ہفتے میں ڈاکٹر صاحب نے خود تسلیم کیا ہے اور فخر سے بتایا ہے کہ قوم ’’قائدِ اعظم کے بعد مجھے دوسرا بڑا لیڈر کہتی ہے‘‘ ان سے زیادہ متوازن تو جنرل اسلم بیگ نکلے جنہیں سپریم کورٹ نے مجرم قرار دیا، میڈیا نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا لیکن انہوں نے لسانی کارڈ نہ کھیلا۔ یہ الزام جو ڈاکٹر صاحب نے اہلِ پاکستان پر لگایا ہے، پرویز مشرف بھی، جو مقدموں پر مقدمے بھگت رہے ہیں، لگانے کی ہمت نہ کر سکے۔ ڈاکٹر صاحب کا شکوہ ہے کہ ’’اگر سیاسی جماعتیں مجھے بھی موقع دیتیں تو پاکستان میں حالات اتنے بُرے نہ ہوتے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ آپ کو موقع کیسے ملتا؟ یا تو آپ ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی طرح منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیتے یا انتخابات میں حصہ لیتے۔ اب تک تو اِس ملک میں یہی دو طریقے رائج رہے ہیں۔ آپ کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوتے تو وہ آپ کو موقع دینے کے بارے میں سوچتی! آپ نے اپنی سیاسی جماعت ’’تحریکِ تحفظِ پاکستان‘‘ جولائی 2012 ء میں آغاز کی اور ایک سال دو ماہ بعد ستمبر 2013ء میں اسے اپنے ہاتھوں ہی دفن کر ڈالا۔ انتخابات میں یہ پارٹی ایک نشست بھی نہ جیت سکی۔ ڈاکٹر صاحب نے سیاسی پارٹیوں اور سیاست دانوں کے خلاف بیان بازی شروع کی تو ان کے عقیدت مندوں کو دکھ ہوا کہ وہ اپنے مقام سے نیچے اْتر رہے تھے۔ سیاست صرف پاکستان ہی میں نہیں، پوری جمہوری دنیا میں گندے انڈوں اور ٹماٹروں کا کھیل ہے، جس شخص کو قوم نے محسنِ پاکستان کا خطاب دیا اور بقول ان کے اپنے،قائد اعظم کے بعد دوسرا بڑا لیڈر سمجھا، اسے سیاسی کھیل سے ویسے بھی اجتناب کرنا چاہئے تھا کہ سیاست میں آنے کے بعد بہت کچھ سننا اور سہنا پڑتا ہے ع یہاں پگڑی اچھلتی ہے، اِسے میخانہ کہتے ہیں ڈاکٹر صاحب نے قوم پر لسانی تعصّب کا الزام لگایا ہے ۔ ان کے کالموں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بحرِ ادب کے شناور ہیں۔ ابو سعید ابوالخیر کی یہ رباعی یقینا انہوں نے پڑھی ہو گی ؎ گفتی کہ فلاں ز یادِ ما خاموش است از بادۂ عشقِ دیگری مدہوش است شرمت بادا ہنوز خاکِ درِ تو از گرمئی خونِ دلِ من درجوش است آپ نے الزام لگایا کہ فلاں میری یاد سے غافل ہے۔ اور کسی اور کے عشق میں مدہوش ہو گیا ہے۔ حضور! کچھ تو خیال فرمائیے! ابھی تو ہمارے دل کے خون کی وہ گرمی بھی ٹھنڈی نہیں ہوئی جس سے آپ کے دروازے کی مٹی جوش میں ہے!!