شہیدوں کے پس ماندگان رو رہے ہیں

اُن دنوں یہ گنہگار ڈھاکہ یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ مغربی پاکستان کا سب سے بڑا انگریزی اخبار’’پاکستان ٹائمز‘‘اپنے اداریے میں تسلیم کرچکا تھا کہ مشرقی پاکستان کے وسائل مشرقی پاکستان پر صرف نہیں کئے جا رہے۔ دونوں حصّوں کے درمیان عدم مساوات ایک مسلّمہ حقیقت بن چکی تھی۔ ایوبی آمریت کو دس سال ہو چکے تھے۔ الطاف گوہر اور اس قبیل کے دیگر ’’دانشور‘‘ ،’’عشرہ ترقی‘‘ منانے کا آئیڈیا بادشاہ سلامت کو دے چکے تھے۔ میگنا اور بُوری گنگا کے بپھرے ہوئے دریائوں میں ہچکولے کھاتی کشتیوں اور دھواں اگلتے سٹیمروں پر ’’عشرۂ ترقی‘‘کے بینر پھڑ پھڑا رہے تھے۔ اندھے کو بھی معلوم تھا کہ ایک فوجی آمر نے دس سال نکال لیے ہیں تو اِس حساب سے مشرقی پاکستان یا سندھ جیسے ’’نان مارشل‘‘ صوبوں کی باری کبھی نہیں آئے گی۔ بّرِ صغیر کے جن علاقوں نے انگریزوں کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی تھی، بنگال اور سندھ ان میں سرِفہرست تھے، اسی لئے سلطنتِ انگلیشیہ نے ’’وفادار‘‘ علاقوں کو ’’مارشل ریس‘‘ قرار دیا تھا اورسر نہ جھکانے والے خطّوں سے فوجی بھرتی منع کر دی تھی۔ تھوڑا عرصہ ہی گزرا تھا کہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ایوب خان گیا تو ایک اور فوجی آمر آن دھمکا۔ مشرقی پاکستان میں احساسِ محرومی اس قدر شدید ہو چکا تھا کہ ’’مرکز پسند‘‘ اور ایوبی آمریت کے مددگار عناصر بھی اعداد و شمار تسلیم کرنے لگے تھے۔ لیکن ایک جماعت ایسی تھی جو اس صورتِ حال سے ، ان تمام حقائق سے یکسر بے نیاز تھی اور اپنی پالیسی میں کسی قسم کی’’وقتی‘‘ تبدیلی لانے کے لئے تیار نہ تھی! اور وہ تھی مشرقی پاکستان کی جماعت اسلامی! ہم جب اسلامی چھاترو شنگو (اسلامی جمعیت الطلبہ ) کے دوستوں سے کہتے تھے کہ نوشتۂ دیوار پڑھو اور معاشی اور سماجی حقائق کا ادراک کرو کہ مرکز گریز قوتوں کا مقابلہ کرنے کی یہی ایک صورت ہے، جن مسائل کو یہ قوتیں سیڑھی کے طور پر استعمال کر رہی ہیں، تم بھی خدارا اِن مسائل پر توجّہ دو اور میدان اُن کے لیے کھلا نہ چھوڑو، لیکن اکثر و بیشتر جواب یہ ملتا تھا کہ یہ چھوٹے چھوٹے وقتی مسائل ہیں، ہمارا نصب العین بلند ہے اور ہماری نظر اسی پر ہے۔ یہ سب سُن کر سعدی کا شعر یاد آتا تھا ؎ شب چو عقدِ نماز می بندم چہ خورد بامداد فرزندم کہ رات کو نماز کی نیت باندھتا ہوں تو یہی فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ صبح اہل و عیال کا پیٹ کیسے بھروں گا؟ پھر وہی ہوا جو نوشتۂ دیوار تھا۔ مشرقی پاکستانیوں کی بھاری اکثریت نے عوامی لیگ کو اپنی نمائندگی سونپی۔ یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو نے انتخابات کے نتائج عملاً تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور واضح اکثریت کے باوجود شیخ مجیب الرحمٰن اوراُس کی جماعت کو وہ حق نہ دیا جو جمہوری حساب سے انہیں ملنا چاہیے تھا۔ مشرقی پاکستان کی جماعت اسلامی نے عوام کا ساتھ نہ دیا۔ آج ہم یہاں، باقی ماندہ پاکستان میں بیٹھ کر جب کہتے ہیں کہ البدر اورالشمس پاکستان کی لڑائی لڑ رہے تھے تو یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کی اکثریت تو دوسری طرف تھی! کچھ ناواقف حضرات ایک ہی لکیر پیٹ رہے ہیں کہ یہ سب مشرقی پاکستان کے ہندوئوں کا کیا دھرا تھا۔ ان سے کوئی پوچھے کہ جب مشرقی بنگال کے سو فیصد مسلمانوں نے پاکستان کے لئے ہاتھ کھڑا کیا تھا، اس وقت وہ ہندوئوں کے زیر اثر کیوں نہ آ سکے؟ وہاں تو کوئی احرار تھے نہ خاکسار جو پاکستان کی مخالفت کرتے۔ پھر مہاجرین آئے تو مشرقی پاکستانیوں نے اپنے دروازے اُن کے لیے کھول دیے۔ جذبات کو مشتعل کرنے والے، حقائق سے بے خبر حضرات کو معلوم ہی نہیں کہ ریلوے اور ڈاکخانے کے محکموں پر مہاجرین کا مکمل قبضہ تھا، اس حد تک کہ مقامی لوگوں کو نوکریاں ہی نہیں ملتی تھیں! عوامی بہائو کے مخالف رُخ پر بہنے کی دوسری عبرت ناک مثال جماعت اسلامی کا وہ رویّہ ہے جو ضیاء الحق کے پورے عہد آمریت میں اختیار کیا گیا۔ خاموش اکثریت اِس آمریت کے خلاف تھی مگر جماعت اسلامی نے اکثریت کے بجائے ساتھ ان لوٹوں اور ٹوڈیوں کا دیا جو پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتوں کو چھوڑ کر ضیاء الحق سے آ ملے۔ Jamaat Islami Thrives in Martial Lawکا محاورہ اُسی زمانے میں مشہور ہوا۔ جماعت، ضیاء الحق کی کابینہ کا حصہ بنی۔ آج سے دو سال پہلے جب صدارتی ریفرنس کے نتیجہ میں سپریم کورٹ ذوالفقار علی بھٹو کیس پر نظرثانی کر رہی تھی تو معروف قانون دان محمد فاروق بیدار نے عدالتِ عظمیٰ کو اپنا حلفی بیان دیا ۔ ایک معروف انگریزی معاصر نے 5مئی 2011ء کی اشاعت میں یہ حلف نامہ شائع کیا۔ ایم انور استغاثہ کے وکیل تھے۔ فاروق بیدار جو ایم انور کی معاونت کر رہے تھے بیان حلفی میں بتاتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے میاں طفیل محمد اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مولوی مشتاق حسین کو ایم انور کے چیمبر سے نکلتے دیکھا۔ ایم انور نے بعد میں فاروق بیدار کو بتایا کہ بھٹو کے خلاف گواہ، اپنے بیانات سے پھر رہے ہیں،ان میں سے دو کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ میاں طفیل محمد جیل میں انہیں مِل کر یہ یقین دلائیں گے کہ اگر انہیں (یعنی گواہوں کو) سزا ہو بھی گئی تو اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ بعد میں ان گواہوں کو سزا دی گئی یا نہیں، یہ تاریخ کا حصہ ہے اور سب جانتے ہیں! امیر جماعت اسلامی کے حالیہ بیان پر (جس میں انہوں نے پاکستانی عساکر کو شہید تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے) جو لوگ یہ رائے دے رہے ہیں کہ جماعت تو ہمیشہ فوج کا ساتھ دیتی آئی تھی،ایک لطیف اور باریک نکتے کو بھول رہے ہیں۔ جماعت فوج کا ساتھ دیتی آئی ہے یا نہیں، اصل بات یہ ہے کہ جماعت ہمیشہ عوامی رائے کی مخالف رہی ہے۔ مشرقی پاکستانی عوام اور مشرقی پاکستانی جماعت کی مثال ہم دے چکے ہیں۔ ضیاء الحق کی آمریت کا ساتھ بھی اسی حوالے سے دیا گیا تھا۔ موجودہ امیر کے اس بیان کو بھی اسی روشنی میں دیکھا جائے تو بات واضح تر ہو جاتی ہے۔ پوری قوم کی رائے ایک طرف ہے لیکن امیرِ جماعت اور جماعت کی رائے اس کے الٹ ہے! جماعت اسلامی قحط الرجال کا شکار ہے، کہاں ابوالاعلیٰ مودودی، عبدالحمید صدیقی ، ملک غلام علی، مصباح الاسلام فاروقی، عبدالوحید خان ،اسعد گیلانی اور خلیل حامدی جیسی متین علمی شخصیات جنہیں اسلامی علوم و فنون پر عبور حاصل تھا اور مخالف بھی جن کے علم و فضل اور فقہی دیانت کو تسلیم کرتے تھے اور کہاں زمینوں، جائیدادوں اور ہائوسنگ سوسائٹیوں کے سوداگر جن کا علومِ اسلامی تو دور کی بات ہے، قرطاس و قلم اور کتاب ہی سے رشتہ نہیں! سید منور حسن کے بیان پر سب سے دردناک تبصرہ ایک شہید فوجی افسر کے والد اور بہن نے کیا ہے۔ یہ بارہ نومبر 2013ء کے روزنامہ دنیا میں شائع ہوا ہے:’’پروگرام میں شریک پاک فوج کے شہیدکیپٹن فیض خان کے والد صاحب خان نے کہا کہ جب ان کا بیٹا شہید ہوا تھا تو وہ، ان کی اہلیہ اور بچے رونے کے بجائے اظہارِ مسرت کر رہے تھے لیکن منور حسن کے بیان کے بعد ہم دو دن سے رو رہے ہیں، ان کا بیٹاپانچ وقت کا نمازی اور تہجد گزار تھا۔ اسلامی ریاست پاکستان کی حفاظت کرتے ہوئے میرے بیٹے نے جان دی لیکن اس کی شہادت پر منور حسن سوالیہ نشان کھڑا کر رہے ہیں۔ ان کے بیٹے کی شہادت پر قاضی حسین نے کہا تھا کہ طالبان ظالمان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان جہاد میں جماعت اسلامی امریکہ سے پیسے لے کر مدرسوں کے بچوں کو اٹھا کر لاتی رہی۔ وہ ذاتی طور پر اس کے گواہ ہیں۔ شہید کیپٹن کی بہن سونیا نے کہا کہ بھائی نے دس جون کو فون کر کے کہا تھا کہ بہن اب تم سے بات نہیں ہو گی کیونکہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شہید ہو رہا ہوں اور گیارہ جون کو وہ شہید ہو گیا۔ میرے بھائی کے سینے پر 35گولیاں لگیں اور منور حسن کہہ رہے ہیں کہ اسلامی ریاست کی حفاظت کرنے والے فوجی شہید نہیں ہیں‘‘۔ نہ جانے کتنے شہیدوں کے باپ ،بہنیں، بیویاں اور بچے رورہے ہیں!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں