آدھی رات ایک طرف تھی اور آدھی دوسری طرف۔ سائڈ ٹیبل کا برقی چراغ گُل کر کے نیم خوابی کی کیفیت میں تھا کہ موبائل فون پر ایس ایم ایس کی گھنٹی نے اُس کیفیت سے نکال دیا۔ بچوں کے مشورے کے باوجود رات کو ٹیلی فون کی آواز بند نہیں کرتا کہ زینب کسی بھی وقت فون کر دیتی ہے اور اُسے یہ بات بالکل پسند نہیں کہ نانا ابو سے بات نہ ہو سکے۔ مگر یہ ایس ایم ایس کسی اجنبی نمبر سے تھا۔ پیغام چند آیات اور طویل ذکر اذکار پر مشتمل تھا۔ یہی پیغام دوسرے دن ظہر کی نماز کے دوران موصول ہوا اور آنے والی رات ایک بجے پھر‘ زچ ہو کر بھیجنے والے نمبر پر کال کی کہ پوچھوں‘ یہ آیات‘ دعائیں اور اذکار مسلسل کیوں بھیجے جا رہے ہیں‘ دوسری طرف ریکارڈنگ تھی۔ درودِ پاک کی مسلسل ریکارڈنگ!! یہ صرف کالم نگار کی کہانی نہیں‘ ہر شخص ایسے نیکوکاروں کی اس بوچھاڑ کا نشانہ بن رہا ہے۔ ایک صاحب حج اور عمرے کا طریقہ ایس ایم ایس کر رہے ہیں۔ کوئی صاحب مشورہ دے رہے ہیں کہ آج فلاں دن ہے یہ یہ کام ضرور کیجیے۔ کوئی صاحب چاند کے نئے مہینے کے فضائل ارسال کر رہے ہیں۔ کوئی صاحب آزمائش میں ڈال رہے ہیں کہ اگر آپ صاحب ایمان ہیں تو یہ ایس ایم ایس کم از کم دس افراد کو ضرور بھیجیں۔ آپ ای میل کھولتے ہیں کہ ڈاک چیک کر لیں‘ وہاں یہ سلسلہ شدید تر ہے۔ کسی نے اپنے پسندیدہ واعظ کا تازہ ترین درس وڈیو کی صورت میں بھیجا ہے اور تلقین کی ہے کہ اسے سن کر مزید پھیلایئے۔ کسی نے کوئی لِنک میل کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ فلاح کی واحد صورت اس لِنک کو کھول کر پڑھنے میں ہے۔ ایک اور میل میں ایک عرب ملک پر تنقید کی گئی ہے۔ اس کے بعد والی میل میں ایران کی حکومت پر سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔ ایک اور میل میں غیرت دلائی گئی ہے کہ فلاں فلاں مشروبات کا بائیکاٹ کرو۔ اس کے بعد والی میل میں منت سماجت ہے کہ فلاں ملک کے سفارت خانے کو احتجاجی میل بھیجنا دینی جذبے کا تقاضا ہے۔ ساتھ سفارت خانے کا ای میل ایڈریس بھی ہے۔ کالم نگار بطورِ خاص نشانے پر ہیں۔ کچھ ثروت مند کالم نگاروں نے تو باقاعدہ ملازم رکھ لیے ہیں جو چھانٹی کر کے فقط کام کی ای میلیں صاحب کی خدمت میں پیش کرتے ہیں مگر یہ ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔ کالم نگاروں کی اکثریت کے پاس اس کا ایک ہی علاج ہے کہ پڑھے بغیر یہ بن بلائی میلیں ڈیلیٹ کرتے جائیں۔ یہ اور بات کہ ڈیلیٹ کرنے میں بھی وقت صرف ہوتا ہے۔ مہذب دنیا میں اس قبیل کی ہر میل کے آخر میں ایک آپشن ضرور مہیا کیا جاتا ہے کہ اگر آپ آئندہ اس سلسلے کی کوئی میل وصول نہیں کرنا چاہتے تو یہاں کلک کیجیے۔ اسے Unsubscribe کرنا کہتے ہیں۔ اگر آپ Unsubscribe کریں تو آپ کو ایک آخری میل ملتی ہے جس میں معذرت کی جاتی ہے اور یقین دلایا جاتا ہے کہ آئندہ میل نہیں بھیجی جائے گی۔ لیکن اس تہذیب‘ خوش اخلاقی اور فراخ دلی کا ہمارے ہاں کوئی رواج نہیں۔ اس کی غالباً دو وجوہ ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص‘ اپنے آپ کو چھوڑ کر‘ پورے ملک اور پھر پوری دنیا کی اصلاح کرنا چاہتا ہے۔ اصلاح کی یہ دُھن جنون کی سرحد کو چھو رہی ہے۔ آپ پسند کریں یا بددعائیں دیں‘ بیمار ہیں یا سو رہے ہیں‘ روزے سے ہیں یا نماز پڑھ رہے ہیں۔ ایس ایم ایس اور ای میل پڑھتے بھی ہیں یا نہیں‘ مُصلح صاحب کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ انہیں یہ بھی یقین ہے کہ اس تبلیغ کے بعد اُن کی بخشش یقینی ہو گئی ہے۔ ایک صاحب کی خدمت میں‘ جو کئی دن سے مسلسل تبلیغی میلیں بھیج رہے تھے عرض کیا کہ ازراہِ کرم میلیں نہ ارسال کریں‘ جواب آیا کہ بھلے آدمی! میں تو صدقۂ جاریہ سمجھ کر یہ کام کر رہا ہوں۔ جہاں صدقۂ جاریہ کا تصور انفاق فی سبیل اللہ سے ہٹ کر ایس ایم ایس اور ای میلوں کی بارش برسانے پر آ جائے تو کسی کو اس نیک کام سے کیسے روکا جا سکتا ہے! ایک بین الاقوامی قسم کی مذہبی تنظیم کالم نگاروں کو ہر روز کئی میلیں بھیج رہی ہے جو کئی صفحات پر مشتمل ہوتی ہیں اور کئی لِنک اس کے علاوہ ہیں۔ Unsubscribe کرنے کی گنجائش تو دور کی بات ہے‘ استدعا کی گئی‘ ہاتھ جوڑے گئے کہ حضور! معاف فرمایئے‘ مگر بمباری رکنے کے کوئی آثار نہیں‘ دوسری وجہ فراغت ہے۔ آبادی کا کثیر حصہ کسی بھی قسم کے شغل سے عاری ہے۔ جائے حادثہ پر آن کی آن میں جمع ہونے والے جمِ غفیر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لوگوں کے پاس کوئی کام نہیں۔ وقت کی پابندی کا بھی کوئی تصور نہیں۔ سڑک کے کنارے گھنٹوں کھڑے ہیں۔ اُلٹی ہوئی بس کو دیکھ رہے ہیں‘ دیکھے جا رہے ہیں۔ دو شخص آپس میں ہاتھا پائی کر رہے ہیں تو اس سے زیادہ دلچسپ تماشا کیا ہوگا۔ موٹر سائیکلوں اور کاروں کو باقاعدہ پارک کر کے لڑائی سے حظ اٹھایا جاتا ہے۔ بے پناہ فراغت کے اس پس منظر میں یہ بات ہرگز باعثِ تعجب نہیں ہونی چاہیے کہ دو سو افراد کو ایس ایم ایس اور پانچ سو کو ای میل کرنے کے لیے ہر مصلحِ قوم ہر وقت فارغ ہے۔ اور اگر آپ نے کار یا پلاٹ فروخت کرنے کے لیے اخبار میں اشتہار دیا ہے اور اس میں لینڈ لائن ٹیلی فون کا نمبر دینے کے بجائے اپنے موبائل فون کا نمبر دے دیا ہے تو پھر ایک طویل اذیت کے لیے تیار ہو جایئے۔ اب آپ کو غف غف کرتے بھیڑیوں اور پھنکارتے شُوکتے اژدہوں سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اب نام نہاد اشتہاری ’’کمپنیاں‘‘ جو ایک موبائل فون پر مشتمل ہیں‘ آپ کی زندگی کو جہنم بنا دیں گی۔ ہر آدھ گھنٹے بعد ایک اشتہار موصول ہوگا۔ کوئی احرام بیچ رہا ہے‘ کسی نے ٹیوشن سنٹر کھولا ہوا ہے اور اسے اکیڈیمی کا نام دیا ہے‘ کوئی مکانوں اور پلاٹوں کی تفصیل بتا رہا ہے۔ کوئی عجوہ کھجوروں کی فروخت سے راتوں رات دولت مند بننا چاہتا ہے۔ کوئی چاہتا ہے کہ آپ اپنے نمبر سے ملتا جلتا نمبر‘ جو ایک اور موبائل کمپنی کا ہے‘ ضرور خریدیں اور اُسی سے خریدیں۔ جنسی دوائوں کا ایک اشتہار موصول ہوا۔ بھیجنے والے کو فون کر کے شرم دلائی کہ اشتہار بازی اور وہ بھی ایسی! کراچی سے بول رہے تھے‘ فرمانے لگے‘ بھائی صاحب کیا بات کرتے ہیں۔ میں تو خود پانچ وقت کا نمازی ہوں! موبائل فونوں کی کمپنیوں کو اس سے کوئی علاقہ نہیں کہ اُن کی جاری کردہ سمیں کس طرح استعمال ہو رہی ہیں اور خلقِ خدا کو کیسے پریشان کیا جا رہا ہے۔ یہ کمپنیاں دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیں اور سرمایہ اکٹھا کر کے اپنے اپنے ملکوں کو بھیجے جا رہی ہیں۔ نئے سے نئے پیکیج دے کر طرح طرح کی ترغیبات دلائی جا رہی ہیں۔ ’’دوست بنایئے‘‘ قسم کے اعلانات ہو رہے ہیں۔ نرخ اس طرح مقرر کیے جا رہے ہیں کہ لوگ راتوں کو زیادہ گفتگو کریں۔ ان کمپنیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے جو ریاستی ادارہ بنایا گیا ہے وہ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) ہے جو آئے دن خود جھگڑوں‘ بحرانوں اور بکھیڑوں کا شکار رہتا ہے۔ ایک مدت تک اس کا چیئرمین تھا نہ کوئی ممبر۔ شعبۂ سروسز کے سربراہ طالب ڈوگر صاحب سے اشتہار بازوں کی اذیت رسانی کے متعلق گفتگو ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ایس ایم ایس کے ذریعے اشتہار بازی قانونی طور پر جرم ہے۔ اگر پی ٹی اے کے متعلقہ شعبے کو شکایت کی جائے تو اشتہار بھیجنے والوں کی سم بلاک کردی جاتی ہے۔ تاہم اگر ایسا قانون ہے تو عوام کو اس کے بارے میں علم ہی نہیں اور گمان غالب یہ ہے کہ اشتہار بھیجنے والی نام نہاد ’’کمپنیوں‘‘ کو بھی معلوم نہیں۔ پی ٹی اے اگر اس ضمن میں سنجیدگی کے ساتھ قانون نافذ کرنا چاہتی ہے تو اسے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے صارفین کو بتانا چاہیے اور زور دینا چاہیے کہ اشتہار بازوں کی شکایت کرنی اس ابتری کو کم کرنے کے لیے لازم ہے! ایک جانے پہچانے شاعر‘ جو اب کچھ عرصہ سے پس منظر میں ہیں‘ گھر میں فون نہیں لگواتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تو غیر مرد کو گھر میں داخل کرنے والی بات ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ پورے پورے بازار اور منڈیاں گھروں میں گھُس آئی ہیں۔ یہاں تک کہ ریڑھیوں اور کھوکھوں والے بھی ایس ایم ایس پر سوار ہو کر آپ کے بیڈروم میں اُتر چکے ہیں۔ آوازے آ رہے ہیں۔ آپ کو گھیرنے کے لیے باقاعدہ ہانکے لگائے جا رہے ہیں۔ چار ٹکے کمانے کے لیے دکاندار لاکھوں کی نیند اور کروڑوں کا آرام حرام کر رہے ہیں۔ مصلحینِ قوم الگ آپ کی اصلاح پر تُلے ہوئے ہیں۔ ایسی ہی صورتِ حال تھی جب کوئی پکار اٹھا تھا ؎ ہے تمنا مجھے ابنائے زمانہ سے یہی مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا