فرض کیجیے کسی پاکستانی حکمران کی کسی فیکٹری میں‘ خدانخواستہ مزدوروں کے دو گروہ جھگڑ پڑتے ہیں۔ بات بڑھ جاتی ہے۔ نوبت لڑائی مارکٹائی تک آ جاتی ہے۔ کچھ لوگ زخمی ہو جاتے ہیں۔ انتظامیہ اپنا کردار نہیں ادا کرتی۔ پروڈکشن رُک جاتی ہے۔ لاکھوں کا یومیہ نقصان شروع ہو جاتا ہے۔ آپ کے خیال میں فیکٹری مالک کا طرزِ عمل کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت ہے نہ فلسفہ میں پی ایچ ڈی کرنے کی۔ یہ صرف اور صرف کامن سینس کا مسئلہ ہے۔ بچے کو بھی معلوم ہے کہ فیکٹری کے مالک کیا کریں گے اور پاگل بھی آسانی سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ بکھیڑے کا حل کیا ہوگا۔ سب سے پہلے تو حاکم جہاں بھی ہوں گے‘ سارے کام چھوڑ کر فیکٹری کا رُخ کریں گے۔ لڑائی کرنے والے دو گروہوں کو ہر قیمت پر ایک دوسرے سے الگ کروائیں گے۔ ابتدائی طبی امداد کا بندوبست کرنے کے بعد‘ اولین فرصت میں اپنے سب سے زیادہ دیانت دار اور ذہین ملازم کو حقائق معلوم کرنے کا کام سونپیں گے۔ یہ کام چند گھنٹوں کے اندر اندر یا زیادہ سے زیادہ ایک دن میں مکمل کر لیا جائے گا۔ اس کے بعد ذمہ دار افراد کو سزائیں ملیں گی۔ جن لوگوں کے بارے میں انہیں یقین ہو جائے گا کہ وہ فسادی ہیں اور آئندہ بھی ایسا کرنے کی ہمت رکھتے ہیں‘ انہیں فوراً فارغ کردیا جائے گا۔ اس عمل میں کسی کی سفارش ماننے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوگا۔ اگر ان کے بھائی بھی سازش کے سرغنے کی سفارش کریں گے تو ان کا ایک ہی جواب ہوگا۔ ’’بھائی جان! اگر آپ چاہتے ہیں کہ فیکٹری ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے تو میں آپ کی سفارش مان لیتا ہوں‘‘۔ پاکستانی حاکم کی فیکٹری میں جو بھی صورت حال ہے‘ اُسے ہم یہیں چھوڑتے ہیں اور بحرِ اوقیانوس پار کر کے امریکہ پہنچتے ہیں۔ 1985ء میں انتقال کرنے والی مشہور امریکی تاریخ دان خاتون باربرا ٹک مین نے ایک زبردست نظریہ پیش کیا تھا۔ ایسا نظریہ جس کی مدد سے فیکٹری کا مسئلہ بھی سمجھ میں آ جاتا ہے اور راولپنڈی کے سانحہ کا بھی۔ باربرا ٹک مین کہتی ہے کہ حکومت کرنے والے افراد جب حکومتی معاملات میں فیصلے کرتے ہیں تو ہر شخص کو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ فیصلے ناقص ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ فیصلے احمقانہ ہوتے ہیں۔ یہی حکومتی افراد جب اپنے ذاتی معاملات میں پڑتے ہیں‘ جیسے ذاتی کاروبار‘ اولاد کے امور… تو پوری عقل مندی سے فیصلے کرتے ہیں۔ پھر باربرا بتاتی ہے کہ عقل مندی کیا ہے۔ اگر فیصلہ تین بنیادوں پر کیا جائے تو اُسے عقل مندی کہا جائے گا۔ اوّل: اُس وقت کے معلوم حقائق‘ دوم: اُن حقائق کی بنیاد پر مستقبل کی پیش بینی۔ سوم: کامن سینس۔ اب ہم واپس فیکٹری اور پھر راولپنڈی چلتے ہیں۔ حاکم کی اپنی فیکٹری میں مسئلہ پیدا ہو تو فوری ایکشن ہوتا ہے۔ اس طرح کہ آئندہ ایسا واقعہ رونما ہونے کا امکان کم سے کم ہو جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں سرکاری امور دیکھیے۔ راولپنڈی میں قیامتِ صغریٰ برپا ہوئی۔ سینکڑوں دکانیں جل کر راکھ ہو گئیں‘ ہزاروں خاندان قلاش ہو گئے۔ تاجروں کی زندگی بھر کی کمائیاں دھواں بن کر فضا میں روپوش ہو گئیں۔ درجن بھر پاکستانی موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ آپ ملبے کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ ایک لاش چار دن کے بعد نکلی ہے۔ لیکن صوبے کے حاکمِ اعلیٰ نے متاثرہ علاقے میں قدم تک نہیں دھرا۔ لوگ احتجاج کیے جا رہے ہیں لیکن انہیں یہ تک نہیں بتایا جا رہا کہ ان کے مجرم کون ہیں؟ واحد ’’ایکشن‘‘ جو لیا گیا ہے‘ پولیس افسروں کے تبادلے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ مجرم ہیں تو انہیں سزا کیوں نہیں دی جا رہی اور اگر وہ مجرم نہیں ہیں تو ہٹائے کیوں جا رہے ہیں؟ اس سارے معاملے کو جس طرح ڈیل کیا جا رہا ہے اس میں ایک چیز مکمل مفقود ہے اور وہ ہے کامن سینس! کہیں ایسا تو نہیں کہ وزیراعلیٰ‘ چودھری نثار علی کے ’’معاملات‘‘ میں دخل نہیں دینا چاہتے؟ یا نہیں دے سکتے؟ میڈیا یہ دلچسپ انکشاف کر چکا ہے کہ خیبرپختونخوا کے ایک خاص علاقے سے ماضی قریب میں کثیر تعداد میں لوگوں نے ہجرت کی۔ تقریباً دس ہزار راولپنڈی میں آباد ہوئے اور اتنے ہی اسلام آباد میں۔ محرم کے جلوس کا ہر اوّل دستہ ہمیشہ مقامی لوگوں پر مشتمل ہوتا تھا لیکن اس دفعہ اس دستے میں باہر کے لوگ شامل تھے۔ خلقِ خدا کی زبانیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ اگر راولپنڈی کے لوگ‘ مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں گر کر‘ اپنے شہر کا موازنہ ایک اور بڑے شہر سے کرنے لگ پڑے ہیں تو یہ بلا سبب نہیں۔ خدانخواستہ اگر ایسا سانحہ اُس بڑے شہر میں رونما ہوتا تو کیا وزیراعلیٰ وہاں بھی متاثرہ علاقے کا دورہ نہ کرتے؟ وہاں بھی متاثرین سے براہ راست مل کر ہمدردی نہ دکھاتے؟ وہاں تو وہ بس میں سفر کرتے ہیں‘ مینارِ پاکستان کے پاس خیمے لگا کر دفتری امور سرانجام دیتے ہیں! تو کیا یہ بات سچ ثابت ہو رہی ہے کہ معزز شریف برادران کا ذہنی اُفق وہی ہے جو تھا اور ان کا پنجاب ایک خاص علاقے اور ایک خاص شہر تک محدود ہے ؎ مری داستانِ غم کی کوئی انتہا نہیں ہے ترے سنگِ آستاں سے ترے سنگِ آستاں تک حکومتی معاملات طے کرنے میں کامن سینس اور عقل عنقا ہیں۔ اس کی روشن مثال جنرل پرویز مشرف پر چلایا جانے والا غداری کا مقدمہ ہے۔ جنرل نے حکومت پر قبضہ 1999ء میں کیا تھا اور غداری کا مقدمہ اُس ایمرجنسی کے ضمن میں چلایا جا رہا ہے جو 3نومبر 2007ء میں لگائی گئی تھی۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ کوئی شخص آپ کے مکان پر قبضہ کر لے اور چند سالوں کے بعد اردگرد کے کھیتوں کا بھی مالک بن بیٹھے۔ مگر آپ جب عدالت میں جائیں تو مکان کا ذکر ہی نہ کریں اور صرف کھیتوں کا رونا روئیں۔ گویا 1999ء سے لے کر 2007ء تک نو سال کے عرصہ میں پرویز مشرف نے جو کچھ کیا‘ موجودہ حکومت اُسے جائز سمجھتی ہے! اور کیا یہ قرینِ انصاف ہے کہ جو کچھ ہوا‘ جنرل پرویز مشرف تن تنہا اس کے ذمہ دار تھے؟ کیا وہ اس قدر طاقت ور تھے کہ اداروں‘ وزارتوں‘ کابینہ‘ بیوروکریسی اور مسلح افواج کے بغیر خود ہی سب کچھ کرتے رہے؟ کیا ان کے پاس جادو کی کوئی چھڑی تھی؟ اُن پر جان چھڑکنے والے وفاداروں کی اچھی خاصی تعداد اس وقت حکمران جماعت میں شامل ہے۔ کیا وہ سب معصوم ثابت ہو چکے ہیں؟ اور کیا انصاف کا تقاضا یہ نہیں کہ میرٹ کا خون کر کے پرویز مشرف کو سپہ سالار بنانے والوں کا بھی احتساب کیا جائے۔ قوم یہ جاننے کا حق رکھتی ہے کہ آخر پرویز مشرف میں وہ کون سی نایاب صلاحیت تھی جو ان سے سینئر جرنیلوں میں مفقود تھی اور جس کی بنیاد پر انہیں نیچے سے اوپر لایا گیا۔ وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار؟ معاف کیجیے گا صوابدیدی اختیار کا مطلب ظلم یا میرٹ کُشی نہیں ہوتا۔ اگر کسی کی سینیارٹی پامال کی جاتی ہے تو قاعدہ یہ ہے کہ اس کی وجوہ ضبطِ تحریر میں لائی جائیں اور ریکارڈ کا حصہ بنائی جائیں۔ تو کیا یہ انصاف ہوگا کہ پرویز مشرف سے پہلے جن طالع آزمائوں نے منتخب حکومتوں کے تختے الٹے‘ اُن کے خلاف مقدمے نہ چلائے جائیں؟ کیوں؟ اگر حکومت میں شامل اربابِ حل و عقد کو تاریخ کا ذرہ بھر بھی ادراک ہے تو ایوب خان‘ یحییٰ خان اور ضیاء الحق نے جو کچھ اس قوم کے ساتھ کیا‘ کسی طور بھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔ پرویز مشرف کو کٹہرے میں ضرور لانا چاہیے لیکن اس کے پیشروئوں کے باب میں بھی عدالت سے فیصلہ لیا جائے۔